شکیل رشید ، ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز
________________
مدھیہ پردیش کے چھتر پور میں مسلمانوں کی عالیشان کوٹھی ، مکانوں اور مہنگی کاروں کو بلڈوزر کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ! یہ ساری کارروائی وہاں کے وزیراعلیٰ موہن یادو کی ہدایت پر کی گئی ۔ الزام یہ لگایا گیا کہ مسلمانوں نے چھتر پور تھانہ گھیرا تھا ، اس پر پتھراؤ کیا تھا ، جس میں کئی پولیس والے زخمی ہوئے ! لیکن چھتر پور کے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے توہینِ رسالتﷺ کے ایک ملزم رام گیری مہاراج کے خلاف پولیس کو میمورنڈم دینے کی کوشش کی تھی ، جس کے نتیجے میں یہ ظالمانہ کارروائی کی گئی ۔ الزام ہے کہ مسلمان تین چار سو کی تعداد میں تھانہ پہنچے تھے ! اب پولیس ویڈیو دیکھ دیکھ کر سب کی شناخت کر رہی ہے تاکہ ان کے خلاف کارروائی کی جا سکے ۔ سو دیڑھ سو افراد پر مقدمہ تو پہلے ہی بنا دیا گیا ہے ۔ کیا مدھیہ پردیش کی موہن یادو حکومت کی مذکورہ کارروائی قانوناً جائز ہے ؟ کیا گرفتاریاں کرکے انہیں عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا جانا چاہیے تھا ؟ کیا سارے معاملے کی تفتیش لازمی نہیں تھی ؟ کیا یہ عمل چھتر پور کے مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی نہیں ہے ؟ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ مسلمانوں نے پتھراؤ کیا تھا – حالانکہ چھتر پور کی ایک مسلم جماعت ’ انجمن اسلامیہ ‘ اور مقامی مسلمانوں نے پتھراؤ کی سختی کے ساتھ تردید کی ہے ، ان کا دعویٰٗ ہے کہ پتھراؤ باہری جانب سے کیا گیا تھا ، یعنی پتھراؤ کا عمل مسلمانوں کو پھنسانے کے لیے منصوبہ بند تھا – تب بھی کیا یہ کوئی ایسا جرم تھا کہ مسلمانوں کے مکانوں اور ان کی قیمتی گاڑیوں پر بلڈوزر چڑھا دیا جائے ؟ یقیناً اس سوال کا جواب یہی ہوگا کہ یہ عمل جائز نہیں ہے ، قانون میں پتھراؤ کرنے والوں کے خلاف ایسی کارروائی کی کوئی شق نہیں ہے ۔ لیکن کوئی کیا کر سکتا ہے ، اب معمولی باتوں پر مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چڑھا دینا بی جے پی کی ریاستی حکومتوں کا پسندیدہ کھیل بن گیا ہے ۔ اور بھگوا سرکاریں آنکھ موند کر کسی بھی مسلمان کے مکان اور دکان پر بلڈوزر چڑھا دیتی ہیں کیونکہ ان سے کوئی باز پرس کرنے والا نہیں ہے ۔ عدالتیں ، بشمول سپریم کورٹ ، ایسے ہر ناجائز اور غیر آئینی عمل سے آنکھیں موندے ہوئے ہیں ۔ مرکزی حکومت کچھ نہیں بولنے والی کیونکہ بی جے پی کی تمام ریاستی حکومتیں اسی کی چھتر چھایہ میں چلتی ہیں ۔ اور رہی اپوزیشن تو اسے صرف مسلم ووٹوں سے غرض ہے ، مسلمانوں کے مسائل سے نہیں ۔ مدھیہ پردیش میں یہ غیر جمہوری اور غیر آئینی عمل گزشتہ حکومت سے چلا آ رہا ہے ، بہت سارے مسلمانوں کو اجاڑا گیا ہے ، اور مقصد اجاڑنا ہی ہے ۔ پہلے شیوراج سنگھ چوہان کی حکومت تھی اور وہاں کے وزیر داخلہ نروتم مشرا تھے ، جو بات بے بات بلڈوزر چڑھوا دیتے تھے ، اب وزیراعلیٰ موہن یادو ہیں اور مسلمانوں کی دشمنی میں اس طرح اندھے ہو رہے ہیں کہ انہیں نہ قانون دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی یہ جمہوریت اور آئین دیکھ پا رہے ہیں ! شاید یہ اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا ریکارڈ توڑنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں ، اور یوگی سے ’ بلڈوزر بابا ‘ کا خطاب چھیننے کے خواہاں ہیں ۔ لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ حکومت آنی جانی ہے ، اور وقت کبھی کسی کو بخشتا نہیں ہے ، نہ وزیراعظم کو نہ ہی وزیراعلیٰ کو ۔ وہ دن بھی آسکتا ہے کہ انہیں اپنی ان ظالمانہ حرکتوں کی تلافی کا وقت بھی نہ ملے اور اوپر والے کی گرفت آجائے ۔ ایک سوال بڑا اہم ہے ؛ کیوں مسلم تنظیمیں ، جماعتیں اور ادارے بلڈوزر کارروائی کی خلاف متحد ہوکر قانونی لڑائی نہیں لڑتیں ؟ اس معاملہ کو وسیع پیمانے پر اٹھانے کی اور اس کے خلاف ، منصف مزاج برادرانِ وطن کو ہمراہ لے کے ، سخت احتجاج کرنے اور عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے کی ضرورت ہے ۔ جماعت اسلامی کی ایک ذیلی تنظیم اے پی سی آر نے ایسے ہی ایک معاملہ میں قانونی لڑائی لڑی تھی اور مظلوم کو معاوضہ دلوایا تھا ۔ اب اس معاملہ پر آنکھیں موند کر بیٹھنا اپنے پیروں پر آپ کلہاڑی مارنا ہوگا ، بڑے پیمانے پر قانونی جنگ ضروری ہو گئی ہے۔