Site icon

مولانا ارشد مدنی اور مولانا محمود مدنی جواب دیں

شکیل رشید، ایڈیٹر ممبئ اردو نیوز

________________

لوگ اب جاگنے لگے ہیں ۔ مُلک میں بلڈوزروں کے ذریعے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف جو غیر آئینی کارروائیاں کی جا رہی ہیں ، لوگوں کی زبانیں ان کے خلاف کھلنے لگی ہیں ۔ عام مسلمانوں کے ساتھ انصاف پسند ، سیکولر ہندو بھی اب بلڈوزر کارروائیوں کے خلاف بولنے لگا ہے ۔ سنیچر کے روز ملک میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے اور کانگریس کی بے خوف آواز پرینکا گاندھی نے بھی ، بلڈوزروں کے ذریعے غیر آئینی کارروائیوں کے خلاف زبان کھولی ہے ، دونوں نے کہا ہے کہ بلڈوزروں کے ذریعے غیر آئینی انہدامی کارروائیاں ناقابلِ قبول ہیں ۔ کانگریس کے ایک رکن پارلیمان عمران پرتاپ گڑھی نے جہاں بلڈوزر کارروائیوں کی مذمت کی ہے ، وہیں یہ بھی کہا ہے کہ وہ جلد ہی اس تعلق سے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے ۔ یہ آوازیں اگر اور پہلے اُٹھتیں تو شاید یوپی ، ایم پی ، آسام اور اتراکھنڈ وغیرہ میں بہت سارے غریبوں کے ٹھکانے منہدم ہونے سے بچ جاتے ، لیکن دیر سے سہی آوازوں کا اُٹھنا ضروری تھا ، اس کے لیے ان سب کا ، جنہوں نے آوازیں اُٹھائی ہیں ، شکریہ ضروری ہے ۔ مدھیہ پردیش کے چھتر پور میں جس طرح سے مسلمانوں کی کوٹھیوں اور مکانوں کو بلڈوزروں سے منہدم کیا گیا ، وہ اس ملک کے فرقہ پرستوں کے ’ سیاہ کارتوتوں ‘ میں سے ایک ہے ۔ بلڈوزر اب مسجدوں پر چلنے لگے ہیں ، مدرسوں پر چلنے لگے ہیں اور مسلم آثاروں پر چلنے لگے ہیں ۔ مدھیہ پردیش میں تو موہن یادو کی حکومت نے ساری حدیں پار کردی ہیں ، انہوں نے نہ صرف کوٹھیوں اور مکانوں کو ڈھایا بلکہ مہنگی کاروں پر بھی بلڈوزر چڑھا دیا ! یہ اجازت کسی وزیراعلیٰ کو کس قانون نے دی ہے کہ وہ بغیر تفتیش کرائے ، اور بغیر کسی جرم کے ثابت ہوئے کسی کے بھی مکان کو ڈھا دے ؟ یہ آمریت ہے ، یہ ہٹلر شاہی ہے ، یہ درندگی ہے ، اور یہ بزدلی بھی ہے ۔ میں کئی روز سے یہ لکھتا آ رہا ہوں کہ مدھیہ پردیش میں جو ہوا ہے ، اس جانب مسلم تنظیموں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ، عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے کی ضرورت ہے اور ضرورت ہے بڑے پیمانے پر احتجاج کرنے کی ۔ احتجاج مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال میں بھی ہونا چاہیے اور چھتر پور میں بھی ، اور بے خوف احتجاج ہونا چاہیے ۔ ایسا احتجاج جو موہن یادو کو یہ احساس دلا دے کہ مسلمان نہ بزدل ہیں اور نہ ڈرپوک ، انہیں اس ملک کا آئین احتجاج کا حق دیتا ہے ، اور وہ ہر حال میں احتجاج کریں گے ۔ آواز اٹھنی چاہیے کہ موہن یادو کو ہٹایا جائے ، یہ شخص حکومت کرنے کا اہل نہیں ہے ، یہ ملک کے آئین اور قوانین سے کھلواڑ کرتا ہے ، یہ متعصب ہے ، اس کے دل میں مسلمانوں کے لیے نفرت ہے ، یہ اسلامو فوبک ہے اور یہ اس ملک کے سیکولر اور جمہوری اقدار کا دشمن ہے ۔ ایک بات کہنا ضروری ہے ، لوگ آوازیں اٹھا رہے ہیں ، لیکن ہماری جماعتیں ، تنظیمیں اور ادارے خاموش ہیں ۔ میں نے صرف جماعت اسلامی کا ایک ردعمل دیکھا ہے ، بس ! کیا جمعیۃ علماء ہند کے دونوں دھڑوں کو نہیں چاہیے کہ وہ بھی آواز اٹھائیں ، عدالتوں سے رجوع ہوں اور بلڈوزروں کے ذریعے جو ظلم و ستم کیا جا رہا ہے اس کے خلاف کھڑے ہوں ؟ کسی نے مجھ سے کہا کہ جمعیۃ اس تعلق سے سپریم کورٹ گئی ہے ، مجھے نہیں پتا ، لیکن اگر گئی ہے تو کیا ہوا ہے اس کی درخواست کا ؟ کیوں معاملہ آگے نہیں بڑھا ؟ کیا جب سب کو اجاڑ دیا جائے گا تب شنوائی ہوگی ؟ مولانا ارشد مدنی اور مولانا محمود مدنی جواب دیں ۔

Exit mobile version