Site icon

آئندہ بہار ودھان سبھا انتخابات اور پرشانت کشور

از۔ یاسر زہران ندوی

جامعہ نگر، نیو دہلی

_________________

پرشانت کشور عرف .P.K آنے والے بہار ودھان سبھا الیکشن میں اپنی پارٹی "جن سوراج” سے بہار کی کل 243 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کریں گے۔ انہوں نے کسی بھی اتحاد کے ساتھ جانے سے منع کیا ہے۔ ان کی پارٹی اکیلے انتخاب لڑے گی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ یہ پرشانت کشور ہی ہیں جنہوں نے سنہ 2014 میں بی جے پی کے لیے انتخاب جیتنے کی منصوبہ بندی کی تھی اور اُس وقت سے آج تک بی جے پی حکومت میں ہے۔ ایسے میں جب ان کی پارٹی تنہا الیکشن لڑے گی تو یہ ذہن میں رہے کہ یہ پارٹی سیکیولر ووٹ کو منتشر کرنے میں تاریخی کردار ادا کرے گی۔ دوسرے لفظوں میں کہیے کہ یہ بی جے پی کی بی ٹیم کا کردار ادا کرے گی۔

جو لوگ بہار کی سیاست سے ادنی واقفیت بھی رکھتے ہیں ان کو معلوم ہوگا کہ یادو اور دلت سمیت اونچی ذات کے لوگ اب عظیم اتحاد کو کم ووٹ کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے ووٹ زیادہ تر بی جے پی کو جاتے ہیں۔ مسلمانوں کے ووٹ یا تو جے ڈی یو (نتیش) کو جاتے ہیں یا آر جے ڈی کو بشمول عظیم اتحاد۔ اب ایسے میں جب سب کے ووٹرس مختص ہیں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پرشانت کشور کی انتخاب میں انٹری کن لوگوں کے ووٹ کے بل بوتے ہورہی ہے؟ اگر آپ تجزیہ کریں تو پتہ چلے گا کہ ان کا پورا زور دلت اور مسلم ووٹ کو حاصل کرنے میں لگ رہا ہے، تاکہ باقی ماندہ سیکیولر ووٹ تہس نہس ہوجائے ۔ کئی سالوں سے وہ ہر ہر پنچایت میں جاکر لوگوں سے مخاطب ہورہے ہیں۔ اکثر وہ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ محمد صاحب نے مسلمانوں کو سنگھرش کرنا سکھایا ہے لیکن مسلمان سنگھرش نہیں کررہے ہیں، لہذا ان کو کنگھرش کرنا چاہیے اور یہ کہکر مسلمانوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ مسلمان ان کے ساتھ ملکر سنگھرش کریں۔ ان کو لگتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے محمد کی بات کریں گے تو مسلمان ان سے متأثر ہوجائیں گے۔ سچی بات یہ ہے کہ مسلمان متاثر ہو بھی رہے ہیں۔ بہار میں پنچایت اور بلاک لیول پر ہم نے مقامی مسلم سیاسی فعال لوگوں کو دریاں بچھاتے ہوئے دیکھا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پرشانت کشور مہاگٹھ بندھن کے ووٹ میں سیندھ مارنے کے لیے اتر رہے ہیں جس طرح عام آدمی پارٹی دلی میں اتری تھی۔ لیکن دلی کی صورتحال الگ تھی۔ عام آدمی پارٹی نے جس طرح اکثریت لاکر لوگوں کو چونکا دیا تھا، بہار میں ایسا ہوپانا مشکل ہے سوائے اس کے کہ وہ عظیم اتحاد کے ووٹ کو منتشر کرکے رکھ دیں گے۔ دلی میں بی جے پی اور کانگریس کی طرح بہار میں عظیم اتحاد کمزور نہیں ہے جو آسانی سے اس کو کنارے لگایا جاسکے لیکن پرشانت کشور کی انتخابی چتورائی عظیم اتحاد کو مصیبت میں ڈال سکتی ہے۔ مجھے ان کے مشن میں ان کی کامیابی پر اس لیے بھی یقین ہے کہ وہ بہت بڑے انتخابی منصوبہ ساز ہیں۔

ایسے میں مسلمانوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ آر جے ڈی، جے ڈی یو اور کانگریس جیسی پارٹیاں ہمارے استحصال کے لیے کیا کم تھیں کہ سنگھی فکر رکھنے والوں کے چندے سے الیکشن لڑنے والے پی کے کو ایک اور نام نہاد مسلمانوں کے مسیحا کے طور پر قبول کرلیں؟ کیا کوئی مسلم قیادت والی سیکیولر پارٹی کا دامن نہیں تھام سکتے؟ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف بلڈوزر سے لے کر وقف بورڈ تک جو کچھ بھی ہورہا ہے، مذکورہ بالا پارٹیوں میں سے ہے کوئی جو ہمارے لیے پر زور آواز اٹھا سکے؟ جب مسلمانوں کو سنگھرش ہی کرنا ہے تو ان کی پوری طاقت اپنے تشخص کی بقا کے لیے اپنی قیادت والی پارٹی پر کیوں نہ لگے؟ ہم نے کب کہا کہ ایسا کرکے ہم ستہ بنالیں گے، ہمارا اپوزیشن میں مضبوط رہنا ہی ان ظالموں کے گلے کی ہڈی نہیں مچھلی کا کانٹا بن جائیں گے، جس کو پانی پیکر نگلا تو جاسکتا ہے لیکن نکالا نہیں جاسکتا۔ بھارت میں غیرمسلم قیادت والی کوئی پارٹی نہیں چاہتی کہ مسلمان سیاسی طور پر مضبوط ہوں۔ اس بات پر بند دروازے تمام پارٹیوں کا اتفاق ہوچکا ہے۔

Exit mobile version