خطیب الہند مولانا عبیداللہ خان اعظمی: حیات و خدمات

محمد شہباز عالم مصباحی

سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی

کوچ بہار، مغربی بنگال

_________________

مولانا عبیداللہ خان اعظمی، جو خطیب الہند کے لقب سے مشہور ہیں، 11 مارچ 1949ء کو خالص پور، اتر پردیش، بھارت میں پیدا ہوئے۔ ان کا شمار ہندوستان کے نامور خطباء اور سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔ آج 75 سال کی عمر میں بھی، مولانا عبیداللہ خان اعظمی اپنی بے مثل خطابت، سیاسی بصیرت، اور مسلم امور و مسائل میں گہری دلچسپی کے باعث مسلمانوں میں ایک محترم شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ حافظ دین و ملت مولانا شاہ عبد العزیز علیہ الرحمۃ کے زیر سایہ جامعہ اشرفیہ، مبارکپور سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد، مولانا نے سیاست و خطابت کے میدان میں نمایاں مقام حاصل کیا۔

علمی پس منظر اور تربیت

مولانا عبیداللہ خان اعظمی نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں خالص پور میں حاصل کی۔ بعد میں انہوں نے جامعہ اشرفیہ، مبارکپور کا رخ کیا، جو ہندوستان کے معروف اسلامی مدارس میں سے ایک ہے۔ یہاں سے انہوں نے اعلی تعلیم حاصل کی۔ ان کی تعلیم نے انہیں اسلامی فکر کے گہرے مطالعے اور تحلیل کی صلاحیت عطا کی، جو بعد میں ان کی خطابت اور سیاسی بصیرت میں واضح نظر آئی۔

خطابت:

مولانا عبیداللہ خان اعظمی کی خطابت کا سفر بہت کم عمری میں شروع ہوا۔ ان کی تقریریں سامعین کو فکری بصیرت، فصاحت و بلاغت، اور جذبہ سے بھرپور منفرد انداز کی وجہ سے اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہیں۔ مولانا کی تقریریں محض دینی و اصلاحی موضوعات و مباحث تک محدود نہیں ہوتیں، بلکہ وہ ہندوستان میں مسلمانوں کے مسائل اور ان کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے بھی انتہائی موثر انداز میں اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔

سیاسی خدمات:

مولانا عبیداللہ خان اعظمی نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز جنتا دل سے کیا اور 1990ء سے 2008ء تک وہ بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا، راجیہ سبھا کے رکن رہے۔ انہوں نے 1990ء سے 1996ء تک اتر پردیش کی نمائندگی کی اور 1996ء سے 2002ء تک جھارکھنڈ سے جنتا دل پارٹی کی طرف سے نمائندگی کی۔ ان کی شاندار خدمات کے باعث وہ جنتا دل کے جنرل سیکرٹری اور بعد میں سینیئر نائب صدر بنے۔ 2002ء سے 2008ء تک مولانا مدھیہ پردیش کی نمائندگی بھارتی نیشنل کانگریس سے کرتے رہے۔

مولانا نے اپنی نمائندگی کے دوران مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے نمایاں کردار ادا کیا۔ انہوں نے مختلف فورمز پر مسلمانوں کی مشکلات کو اجاگر کیا اور حکومت کے سامنے ان کے حل کے لیے آواز اٹھائی۔ ان کی سیاسی بصیرت اور حکمت عملی نے انہیں مسلمانوں کے درمیان ایک قابل اعتماد رہنما کے طور پر متعارف کرایا۔

جنتا دل (سیکولر) میں شمولیت

13 مارچ 2023ء کو مولانا عبیداللہ خان اعظمی نے جنتا دل (سیکولر) میں شمولیت اختیار کی، جس سے ان کے سیاسی سفر میں ایک نیا موڑ آیا۔ اس اقدام سے مولانا نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ مسلمانوں کے حقوق اور ان کی سیاسی نمائندگی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔ جنتا دل (سیکولر) میں ان کی شمولیت سے پارٹی کو بھی ایک معتبر مسلم رہنما کی حمایت حاصل ہوئی۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے فاؤنڈ ممبر:

مولانا عبیداللہ خان اعظمی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (AIMPLB) کے بانی ارکان میں سے ہیں اور 1973ء سے اس تنظیم کے ساتھ وابستہ رہے۔

1986ء میں، مولانا نے علامہ ارشد القادری کے ساتھ مل کر آل انڈیا مسلم پرسنل لا کانفرنس (AIMPLC) کی تشکیل کی۔ البتہ یہ نئی تنظیم بہت کامیاب نہ ہو سکی۔

شاہ بانو کیس اور مولانا کی خطابت:

مولانا عبیداللہ خان اعظمی شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپنے عوامی خطبات کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ اس کیس میں سپریم کورٹ نے ایک مطلقہ مسلمان خاتون کو تا حیات نان و نفقہ دینے کے حق میں فیصلہ دیا تھا، جس کے بعد مسلمانان ہند میں بے چینی پھیل گئی تھی۔ مولانا عبیداللہ خان اعظمی نے اس فیصلے کے خلاف مختلف مقامات پر تقاریر کیں اور مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش کی۔ ان کے خطبات کی آڈیو کیسٹس بڑے پیمانے پر فروخت ہوئیں، اور وہ شاہ بانو کیس مخالف اجلاسوں کے لیے ممبئی میں سب سے زیادہ مطلوب مقرر بن گئے۔ ان کی تقاریر کو ممبئی پولیس نے اشتعال انگیز قرار دے کر ان کے خلاف مقدمہ درج کیا اور انہیں ممبئی سے نکال دیا۔

بعض اہم خدمات:

عید میلاد النبی ﷺ کی مناسبت سے جو قومی تعطیل آج ہمیں میسر ہے، اس کا سہرا مولانا عبید اللہ خان اعظمی کے سر جاتا ہے۔ یہ تعطیل وی پی سنگھ کے دور وزارت عظمیٰ میں مولانا کی انتھک کوششوں کے نتیجے میں منظور ہوئی تھی۔ مولانا عبید اللہ خان اعظمی نے اس وقت کے سیاسی حالات اور مذہبی جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے بھرپور انداز میں جدوجہد کی۔ ان کی یہ کاوش بریلوی مسلک کے مسلمانوں کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ثابت ہوئی، کیونکہ اس دن عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر جلوس نکالنے اور دیگر تقریبات کے لیے سرکاری طور پر چھٹی میسر ہوتی ہے۔ اگر یہ تعطیل نہ ہوتی، تو سرکاری مدارس کے طلبہ و مدرسین اور دیگر سرکاری ملازمین اس جشن میں شامل نہ ہو پاتے، جو کہ بریلوی مسلمانوں کے لیے ایک بڑی محرومی ہوتی۔ مولانا کی اس کاوش کے خلاف دیگر مسالک کے افراد نے شدید مخالفت کی تھی اور اسے بدعت اور ناجائز قرار دیا تھا، لیکن مولانا کی خدا داد بصیرت اور سیاسی اثر و رسوخ نے ان سب رکاوٹوں کو عبور کرکے اس تعطیل کو منظور کرایا اور یہ تعطیل آج بھی برقرار ہے اور ان شاء اللہ ہمیشہ رہے گی۔

رئیس القلم علامہ ارشد القادری کے جمشید پور میں قائم کردہ اہم تعلیمی ادارہ "فیض العلوم” کے ابتدائی ایام میں وہاں مسجد کی عدم موجودگی ایک بڑا مسئلہ تھی۔ مدرسے میں تقریباً پانچ سو طلبہ تھے جو احاطے ہی میں نماز ادا کرتے تھے، جس میں کافی دقت ہوتی تھی۔ علامہ ارشد القادری کی دیرینہ خواہش تھی کہ ادارے کے طلبہ اور مقامی لوگوں کے لیے ایک بڑی مسجد تعمیر کرائی جائے، لیکن زمین کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو رہا تھا۔

علامہ ارشد القادری نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مولانا عبید اللہ خان اعظمی سے رابطہ کیا اور بتایا کہ بہار سرکار کی قریب میں ایک زمین ہے جو اس مقصد کے لیے حاصل کی جا سکتی ہے۔ مولانا عبید اللہ خان اعظمی نے اس وقت کے بہار کے وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو سے بات کی، مگر پتہ چلا کہ وہ زمین بہار سرکار کی نہیں بلکہ ٹاٹا کمپنی کی ملکیت ہے۔ لالو پرساد یادو نے اس معاملے سے اپنا دامن بچا لیا، لیکن مولانا اعظمی نے ایک نئی ترکیب سوچ کر پیش کی کہ بہار سرکار ٹاٹا کمپنی کو دوسری جگہ بہار سرکار کی زمین دے کر اس کے بدلے یہ زمین حاصل کر لے جسے بعد میں ہم لوگ مسجد کے لئے بہار سرکار سے خرید لیں گے۔ لالو پرساد یادو اس تجویز پر رضامند ہو گئے اور مسجد کو بہار سرکار کی طرف سے دی جانے والی زمین کی قیمت ایک کروڑ روپے طے پائی۔

تاہم، جب رجسٹری کا دن آیا تو اتنی بڑی رقم جمع نہ ہو سکی۔ مولانا عبید اللہ خان اعظمی نے علامہ ارشد القادری کے ساتھ لالو پرساد یادو کی رہائش گاہ پر پہنچ کر ایک روپیہ کا ایک کڑک دار نوٹ لفافے میں دے کر کہا کہ یہ رہی زمین کی قیمت۔ لالو پرساد یادو حیران رہ گئے لیکن مولانا نے واضح کیا کہ اگر آپ ہمیں یہ زمین نہیں دیتے تو آئندہ انتخابات میں آپ کی کامیابی مشکل ہو جائے گی۔ اس کے بعد زمین کا معاملہ حل ہوا اور آج اسی زمین پر عالیشان "مکہ مسجد” قائم ہے۔

گجرات کے کاندھلہ ایئر پورٹ واقع گاندھی دھام کے نزدیک جناب فاروق درویش سیٹھ نے ایک عالیشان مسجد تعمیر کرائی ہے، جس کے لیے شروع میں ایئر پورٹ انتظامیہ کو چالیس ہزار روپے کرایہ ادا کرنا پڑتا تھا، جو کہ ایک بھاری رقم تھی۔ فاروق درویش صاحب نے اس مسئلے کے حل کے لیے مولانا عبید اللہ خان اعظمی سے رابطہ کیا جو اس وقت جنتا دل سے ایم پی تھے۔

مولانا عبید اللہ خان اعظمی نے فاروق درویش کو ساتھ لے کر لیبر منسٹری کے وزیر سے ملاقات کی اور مسئلہ بیان کیا۔ وزیر نے پوچھا کہ کیا کیا جائے، تو مولانا نے تجویز دی کہ اس مسجد کا سالانہ کرایہ ایک روپیہ مقرر کیا جائے۔ وزیر نے مولانا کے ساتھ اپنے تعلقات کے باعث فوراً یہ تجویز مان لی اور آج تک وہ مسجد صرف ایک روپیہ سالانہ کرایہ ادا کرتی ہے۔

جعفر شریف صاحب کی ریلوے منسٹری کے زمانے میں ایک نوجوان، جو کہ ایم اے ڈگری ہولڈر تھا، ریلوے میں ملازمت کے لیے جدوجہد کر رہا تھا لیکن ناکام تھا۔ وہ نوجوان اپنی تعلیمی اسناد کے ساتھ مولانا عبید اللہ خان اعظمی کی ایم پی رہائش گاہ پر آیا اور وہاں بیٹھ کر رونے لگا۔ مولانا کے بیٹے نے اسے دیکھ لیا اور اپنے والد کو اس کی اطلاع دی۔ مولانا عبید اللہ خان اعظمی نے اس نوجوان سے اس کی پریشانی پوچھی تو پتہ چلا کہ اس کی تین بہنیں ہیں اور وہ اکیلا کفیل ہے۔

مولانا نے نوجوان کی اسناد کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اس کی عمر ریلوے سرکاری ملازمت کے لیے مقررہ حد سے صرف دو دن کم ہے۔ مولانا اسے فوراً ریلوے منسٹر جعفر شریف کے پاس لے گئے اور کہا کہ اگر اس نوجوان کو ملازمت نہ ملی تو وہ خودکشی کر لے گا اور آپ پر 302 کا مقدمہ درج ہوگا۔ اس کے بعد مولانا کی سفارش پر نوجوان کو ملازمت دی گئی اور آج وہ ریلوے میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہے۔

جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے احاطے میں ایک چھوٹی سی زمین تھی جو ایک شریر ہندو کی ملکیت تھی اور وہ کسی صورت میں یہ زمین جامعہ کو دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس نے الہ آباد ہائی کورٹ میں مقدمہ بھی دائر کیا تھا۔ مولانا عبید اللہ خان اعظمی کی کوششوں سے یہ زمین جامعہ اشرفیہ کو ملی اور یہ مسئلہ حل ہوا۔

6) دو جوانوں کی ملازمت کا مسئلہ:

پھلواری شریف اور صدر کے دو نوجوانوں نے ریلوے میں ٹی ٹی اور گارڈ کے امتحان میں کامیابی حاصل کی تھی، لیکن میڈیکل چیک اپ کے دوران ایک فرقہ وارانہ ذہنیت کے بنگالی ڈاکٹر نے ان دونوں کی آنکھوں کو ان فٹ قرار دیا۔ یہ معاملہ مولانا عبید اللہ خان اعظمی تک پہنچا تو انہوں نے جعفر شریف کو اس کی اطلاع دی اور پھر دونوں نوجوانوں کا رام منوہر لوہیا سرکاری ہسپتال میں چیک اپ کرایا، جہاں ان کی آنکھیں فٹ قرار دی گئیں۔ اس کے بعد ان دونوں نوجوانوں کو ملازمت مل گئی اور آج وہ بر سر روزگار ہیں۔

جامعہ اشرفیہ مبارک پور کی عزیز المساجد میں جو ماربل لگے ہیں ان پر تقریباً 35 لاکھ روپے لاگت آئے ہیں، جو مولانا عبید اللہ خان اعظمی نے عطیہ کیے ہیں۔

جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں "حافظ ملت انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی” کے نام سے ایک کمپیوٹر سینٹر قائم کیا گیا ہے، جس کی تمام تر تعمیراتی لاگت مولانا عبید اللہ خان اعظمی نے اپنی ذاتی جیب سے ادا کی ہے۔ اس سینٹر کی تعمیر میں ایک روپیہ بھی کہیں اور سے نہیں لیا گیا ہے۔

جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں 1990 کے سال میں مولانا عبید اللہ خان اعظمی نے دس لاکھ روپے خرچ کرکے کھلے نالوں کو ڈھکنے کا انتظام کیا۔

تیجہ:

مولانا عبیداللہ خان اعظمی کی حیات اور خدمات مسلمانوں کے لیے ایک قابل تقلید نمونہ ہیں۔ ان کی بے لوث خدمات اور مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ان کی مسلسل جدوجہد آج بھی جاری ہے۔ مولانا کی شخصیت صرف ایک خطیب یا سیاستدان کی نہیں بلکہ ایک ایسے رہنما کی بھی ہے جو اپنی قوم کی فلاح و بہبود کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت و سلامتی کے ساتھ لمبی عمر عطا فرمائے اور ان کی خدمات کا سلسلہ جاری رکھے۔ مولانا عبیداللہ خان اعظمی کی زندگی ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ علم، عمل، اور خدمت خلق کے ذریعے نہ صرف اپنی زندگی کو کامیاب بنایا جا سکتا ہے بلکہ اپنی قوم کے لیے بھی ایک روشن مثال قائم کی جا سکتی ہے۔

مولانا عبیداللہ خان اعظمی کا سفر ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود بھی اگر عزم مضبوط ہو اور نیت نیک ہو تو اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہوتی ہے۔ مولانا کی حیات و خدمات ہمیں یہ بھی سبق سکھاتی ہیں کہ علم و عمل کے ذریعے نہ صرف اپنی ذاتی زندگی کو کامیاب بنایا جا سکتا ہے، بلکہ پوری امت مسلمہ کی رہنمائی اور خدمت بھی کی جا سکتی ہے۔ ان کی زندگی کا ہر پہلو اسلامی تعلیمات، خدمت خلق، اور سیاسی بصیرت کا آئینہ دار ہے۔

Exit mobile version