محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
____________________
ہندوستان کے مسلمانوں کے بارے میں جو لوگ (چاہے وہ مذہبی قائدین ہوں یا ملک کے دانشوران قوم و ملت) یہ پیشن گوئی کرتے ہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل انتہائی ڈراؤنا، خوفناک،تاریک، مایوس کن اور پرخطر ہے ، یہاں سے اسلام کے بیخ بن کو اکھاڑ دیا جائے گا اور مسلمانوں کو ان کے ملی امتیازات و خصوصیات سے بے دخل کردیا جائے گا اور یہاں بھی اندلس و ہسپانیہ کی تاریخ دہرائی جائے گی ۔ مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے ۔ ایسے قائدین اور دانشورانِ قوم و ملت مسلمانوں کو مایوسی،ناامیدی اور بے یقینی کی حالات کی طرف لے جانے کا کام کرتے ہیں اور ان کے حوصلے کو پست اور پژمردہ کردیتے ہیں۔
اندلس کی تاریخ، جغرافیہ ، محل وقوع اور وہاں کے مسلمانوں اور حکمرانوں کی طرز زندگی، عیش و عشرت،بود و باش اور حکمراں کا رعایا کے ساتھ سلوک اور حکومت کی سرپرستی میں ہی سارے دینی مذہبی ملکی اور رفاہی و ملی کاموں کی انجام دہی اور رعایا کو ان کی خود مختاری کا کما حقہ نہ ملنا، یہ سارے عوامل بھی شامل ہیں، جو سقوط اندلس کے اسباب ہیں۔
ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت وہاں کے مسلمانوں سے کچھ اور ہے ،اس لئے راقم الحروف کی نظر میں ان شاءاللہ ہندوستان میں وہ تاریخ نہیں دہرائی جاسکے گی ۔ اس کی ایک وجہ آج بھی یہاں کے مسلمانوں میں اس گئے گزرے دور اور مشرکانہ ماحول میں بھی ان کی ملی غیرت و حمیت اور ان کا قومی و ملی احتساب کا جذبہ ہے ۔ مسلمان اگر دینی ملی اور رفاہی کاموں میں دس ہزار خرچ کرتے ہیں تو وہ اپنے ان ملی اور رفاہی اور تنظیمی کام کرنے والوں سے لاکھ کا حساب مانگنا چاہتے ہیں ۔ یہ احتساب اور ملی حمیت و غیرت جب تک یہاں کے مسلمانوں میں باقی رہے گی ،ان شاء اللہ اسلام کا شجر سایہ دار یہاں پھلتا پھولتا رہے گا اور مسلمان یہاں اپنے ملی امتیازات و خصوصیات اور اپنی حیثیت عرفی کے ساتھ قائم و دائم رہیں گے ۔ اس کی تائید کے لیے ہم یہاں اپنے قارئین کی خدمت میں اپنی ایک پرانی تحریر قند مکرر کے طور پر پیش کر رہے ہیں ، جس کا عنوان ہی ہے ،، ہندوستان کے مسلمانوں کا مستقبل ،،
عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد کے سابق صدر شعبئہ دینیات متکلم الاسلام اور سلطان القلم مولانا سید مناظر احسن گیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے ایک مرتبہ ہندوستان و پاکستان کا تذکرہ آیااور یہاں اور وہاں کے حالات پر حاضرین کی گفتگو ہوئی تو مولانا گیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے بڑے اعتماد کے ساتھ فرمایا کہ ہندوستان کے مسلمان کا مستقبل روشن اور تابناک پاتا ہوں اور اسکی وضاحت میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا کہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مرید کا لڑکا "اسلامیہ اسکول ،، میں زیر تعلیم تھا،اس کے باوجود اسکے عقائد وخیالات درست نہیں تھے، مرید نے حضرت مولانا سے اسکی شکایت کی ،انہوں نے فرمایا کہ لڑکے کو ،،اسلامیہ اسکول،، سے نکال کر کسی غیر مسلم اسکول میں داخل کردو، مرید نے ایسا ہی کیا، کچھ دنوں کے بعد مرید نے اطلاع دی کہ لڑکا اب پھر اسلام کی طرف مائل ہو رہا ہے، حتیٰ کہ کچھ دنوں بعد بالکل صحیح راستے پر آگیا۔
مرید نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ یہ طریقئہ علاج سمجھ میں نہیں آیا! مولانا نے فرمایا،، کہ لڑکا جس ماحول میں تھا اسکے خلاف جانا پسند کرتا تھا، اس لئے جب وہ غیر مسلم اسکول میں چلا آیا تو وہاں کے ماحول کے خلاف اسلامی شعار کی طرف مائل ہوگیا۔
مولانا گیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے اس واقعہ کو بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ پاکستان کے مسلمان اپنے نئے ماحول میں کیا ہو جائیں گے، وہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے، لیکن ہندوستان کے مسلمان پر نئے ماحول کا جو ردعمل ہوگا، وہ میری نظر میں امید افزاء ہے، ان میں مذہبی احساسات، اور ملی جذبات کے بنا پر غیر شعوری طور سے پوری قوت مدافعت موجود ہے، جو ہر زمانہ میں برقرار رہے گی، جیسا کہ صدیوں سے ہو رہی ہے ۔
ہندوستان میں باہر سے جو قومیں آئیں، وہ سب یہاں ضم ہو گئیں…لیکن مسلمانو ں نے اپنی انفرادیت باقی رکھی ،انکی مذہبی غیرت و حمیت میں بڑا استحکام ہے، جو کمزور ہو سکتا ہے، لیکن ختم نہیں ہو سکتا ،اس پر کاری ضرب پڑ سکتی ہے، لیکن کوئی اس کا استحصال کرنا چاہے تو یہ ممکن نہیں ہے۔
مولانا سید مناظر احسن گیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی مذکورہ پیشن گوئی اور ہندوستان و پاکستان کے مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں قیاس سے ممکن ہے، بہت سے لوگ اتفاق نہ بھی کریں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے اکابرین جو ہندوستان کو متحدہ قومیت کی نظر سے دیکھتے تھے اور اس نظریہ کے حامل تھے انکی نگاہ بہت دور رس اور حقیقت شناس تھی،لیکن ہمارے وہ اکابر جو دو قومی نظریہ کے حامی اور مؤید تھے، وہ بھی اپنی نیتوں ،ارادوں اور جذبوں میں مخلص تھے، وہ چاہتے کہ ہندوانہ تہذیب اور مشرکانہ ماحول سے پاک مسلمانوں کو خالص اسلامی عقائد و تہذیب سے مزین اسلامی اسٹیٹ حاصل ہو جائے،جہاں مسلمان اسلامی شعار کے مطابق اور اسکے قوانین کے مطابق زندگی گزار سکیں، گویا وہ چاہتے تھے کہ پاسبان مل جائے، کعبہ کو صنم خانے سے ۔ لیکن اسلاف کے اس خواب کو بعد میں آنے والوں نے شرمندئہ تعبیر نہ ہونے دیا، جسکی کسک آج ہم سب محسوس کر رہے ہیں۔