از: عائشہ سراج مفلحاتی
___________________
صفر المظفر اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہے، بہت ساری جگہوں میں اسے "دوسرا محرم” بھی کہا جاتا ہے، اس ماہ میں بھی مسلمانوں کے درمیان مختلف قسموں کی بدعات وخرافات رائج ہیں، جن میں علاقائی اعتبار سے کچھ فرق تو ضرور ہے؛ لیکن وہ سب بدعات و خرافات ہی کی فہرست میں ہیں، ہمیں بحیثیتِ مسلمان ان سب سے بچنا لازم و ضروری ہے۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اگر ہم اسلامی سال کے مہینوں پر نظر ڈالیں تو ہمیں تقریباً ہر مہینہ ہی میں کہیں نہ کہیں اور کچھ نہ کچھ بدعات نظر آئیں گی، محرم کی بدعات وخرافات پر اس ناچیز کی مختصر سی تحریر "ماہ محرم الحرام کی بدعات وخرافات” کے عنوان سے اس سے پہلے آچکی ہے۔ ذرا دیکھیں تو، اسلام کی پاکیزہ روایات کو لوگوں نے کیسا خراب کردیا ہے، یہ بدعات نہیں تو اور کیا ہیں؟ محرم میں تعزیہ داری، ماتم ونوحہ اور مرثیہ خوانی، صفر کے آخری چہار شنبہ کو سیر وتفریح کا تہوار، ربیع الاول میں جشنِ میلاد النبی اور ربیع الثانی میں گیارہویں کے نام پر شیخ عبد القادر جیلانی کے نام سے نذر ونیاز، ماہ رجب میں رجب کے کونڈے، تو شعبان میں شب براءت کی دھوم دھام کے ساتھ، اسے ایک خاص رنگ دینا، الغرض ان بدعات کا ایک سیلِ رواں ہے، جو امتِ مسلمہ کو اپنے دھارے میں بہائے لے جا رہا ہے، میں ماہِ صفر کی دو مشہور بدعات کا ذکر کروں گی؛ تاکہ امتِ مسلمہ اپنے آپ کو ان بدعات سے محفوظ رکھ سکے:
۱_ صفر منحوس ہے: عوام الناس میں سے بہت سارے لوگ اس ماہ کو منحوس سمجھتے ہیں؛ کیوں کہ اس کے متعلق کئی موضوع ( من گھڑت/جھوٹی) احادیث پھیلا دی گئی ہیں۔ ان میں بعض مشہور احادیث مندرجہ ذیل ہیں ۔
پہلی موضوع حدیث: "من بشرنی بخروج صفر بشرته بالجنۃ”، یعنی جو مجھے ماہ صفر کے گزرنے کی خوش خبری دے، میں اسے جنت کی بشارت دیتا ہوں ۔
دوسری موضوع حدیث: "آخر الاربعاء من الشھر یوم نحس مستمر”، یعنی ماہ صفر کا آخری چہارشنبہ منحوس دن ہے، اس حدیث کو علامہ البانی نے اپنی کتاب ضعیف الجامع میں موضوع قرار دیا ہے۔
تیسری موضوع حدیث: "یکون صوت فی صفر ثم تتنازع القبائل فی شھر ربیع ثم العجب کل العجب بین جمادی و رجب”، یعنی صفر میں ایک آواز پیدا ہوگی، پھر ماہِ ربیع الاول میں قبائل جھگڑیں گے اور پھر جمادی الاولی و ثانیہ اور رجب کے درمیان عجیب چیزیں رونما ہوں گی، اس حدیث کو المنار المنیف لابن القیم میں موضوع بتایا گیا ہے۔
مندرجہ بالا موضوع احادیث سے لوگ اس ماہ کو منحوس قرار دیتے ہیں، اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس ماہ کے آخری چہارشنبہ کو آسمان سے تین لاکھ بیس ہزار بلائیں اترتی ہیں، یہ باطل عقیدہ لوگوں کے ذہن ودماغ میں ایسا سرایت کر رہا ہے کہ واضح صحیح احادیث لوگوں کو نظر نہیں آرہی ہیں، ان بلاؤں سے محفوظ رہنے کے لیے لوگوں نے نت نئے طریقے ایجاد کرلیے ہیں، مثلاً : نحوست دور کرنے کے لیے چنے ابال کر تقسیم کرنا، آٹے کی 365 گولیاں بنا کر تالابوں میں ڈالنا، 311 مرتبہ سورۂ مزمل پڑھنا اور روزہ رکھنا، اور اس نحوست سے بچنے کے لیے خاص قسم کی نمازیں تک ایجاد کرلی گئی ہیں، معاذ اللہ، اللھم احفظنا مثل ھذہ البدع۔ ہمیں صحیحین (بخاری و مسلم) کی یہ حدیث یاد رکھنا چاہیئے: "لا عدوی ولا طیرۃ ولا صفر” اللّٰہ کے حکم کے بغیر کسی کی بیماری کسی کو نہیں لگتی، اور نہ بدفالی لینا درست ہے اور نہ صفر کا مہینہ منحوس ہے ۔
۲۔ آخری چہارشنبہ کو تہوار منانا: جہاں بعض لوگ اس دن کو منحوس قرار دیتے ہیں اور اس کی نحوست سے بچنے کے لیے آیات سلام یعنی "سلام علی نوح فی العالمین” لکھ کر پانی کے برتنوں میں ڈال دیتے ہیں اور پھر اس پانی کو پی لیتے ہیں اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان اعمال کے کرنے سے ہماری بلائیں اور مصیبتیں دور ہوجائیں گی، اس کے علاوہ کئی لوگ اس دن عید کی طرح خوشیاں مناتے ہیں اور عمدہ کھانا کھاتے ہیں، سیر و تفریح کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو طویل بیماری سے شفاء ملی تھی، جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے، اس دن نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی بیماری کی ابتداء ہوئی تھی اور پھر 12/ ربیع الاول کو آپ کی وفات ہوئی ۔
اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو ہر طرح کی بدعات و خرافات سے بچائے اور کتاب و سنت کے مطابق اسلام پر استقامت، اور ایمان پر خاتمہ نصیب فرمائے، آمین یا رب العالمین۔