میرا قاتل ہی میرا منصف ہے
بلڈوزر کا عتاب اور سازشوں کا لائحہ عمل
✍ سید سرفراز احمد
_____________________
قانون سے بالا تر کوئی نہیں یہ جملہ محض ایک جملہ ہی بن کر رہ گیا ہے آج کے اس موجودہ بھارت میں قانون نامی لفظ سے بڑھ کر اس ملک کے حکمران بن گئے ہیں جو آئے دن اس ملک کے دستور کو چھلنی کررہے ہیں رعایا کے محافظ کہلانے والے مذہب کی آڑ میں ظلم کی دیواریں اٹھا رہے ہیں جو خود ہی قاتل اور خود ہی منصف بن چکے ہیں لیکن انصاف کی مسند پر براجمان منصف اپنے لبوں کو جنبش تک دینا گوارا نہیں کررہے ہیں جس سے رعایا کے اندر کہیں نہ کہیں ایک طرح سے مایوسی چھائی ہوئی ہے کیونکہ اس ملک میں انصاف کا مندر عدلیہ ہے اور عوام کا بھروسہ بھی عدلیہ ہے ہم تمام کو بچپن سے یہ سبق پڑھایا گیا کہ عدلیہ نقائص سے پاک ہوتی ہے اور غیر جانبدار ہوتی ہے بشرطیکہ بڑھتے ظلم پر دستک دے اور ظالم کو کیفرکردار تک پہنچائےحکومتیں تو آتی اور جاتی ہیں لیکن حکومتوں کو کس نے اختیار دیا کہ وہ ملزمین کو سزا دیں؟اگر حکومتیں ملزمین کو سزا دیتی ہیں تو ان حکومتوں کو سزا کون دے گا؟
آج یہ سوالات ہمارے سماج کے ہر فرد کے زہن کی الجھن بنے ہوئے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ اس بین المذاہب بھارتی سماج میں فرقہ پرستی کا کھیل نیا ہے لیکن جوں جوں یہ کھیل آگے بڑھ رہا ہے اسی رفتار سے اس کے عملی کردار میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے اب اس ظلم وستم کا تدارک انتہائی لازمی ہے اس ملک کے حکمران ہر معاملے کو جانبدار طریقے سے انجام دے رہے ہیں جس سے ملک کی شبیہ متاثر ہورہی ہے اور دستور کی دھجیاں اڑ رہی ہے جن کا مقصد محض مسلمانوں کو نشانے پر رکھنا ہے جیسا کہ مسلمانوں کے تیئں جس رویہ کو عالمی سطح پر اپنایاجارہا ہے اسی عتاب کو ہمارے ملک میں نافذ کیا جارہا ہے اور دنیا کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ بھارت کے ہندو خطرے میں ہے حالانکہ یہ سب ایک مخصوص پروپیگنڈے کے تحت انجام دیا جارہا ہے تاکہ انکی سیاست چمکتی دمکتی رہے سعادت حسن منٹو نے کہا تھا کہ لیڈر جب آنسو بہا کر لوگوں سے کہتے ہیں کہ مذہب خطرے میں ہے تو اس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی مذہب ایسی چیز ہی نہیں کہ خطرے میں پڑ سکے اگر کسی بات کا خطرہ ہے تو وہ لیڈروں کا ہے جو اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے مذہب کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔
بھاجپا دور حکومت میں نئے نئے متنازعہ قوانین کے ساتھ ساتھ بلڈوزر کلچر کو فروغ دیا گیا جس سے ایک مخصوص طبقہ کو سازش کے طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے تاکہ مسلمانوں کی املاک کو چن چن کر ملیا میٹ کیا جاسکے یہ بلڈوزر کاروائی دراصل ہر وہ آواز جو حکومت کے خلاف اٹھتی ہے تو انجام دی جارہی ہے اس طاقت کے ذریعہ غیر آئینی کاموں کو انجام دیا جارہا ہے حالانکہ ایک جمہوری مملکت میں عوام کو حکومت پر فوقیت حاصل ہوتی ہے عوام کی جانب سے اٹھنے والی آواز کا استقبال کیا جاتا ہے۔
انکے مفادات کی تکمیل کی جاتی ہے انکی باتوں کو سنا جاتا ہے اور عوام کے مطالبات کو حل کرنے کم از کم کوشش کی جاتی ہے لیکن ہمارے ملک میں پچھلے دس سالوں سے حکومت کے خلاف ہر اٹھنے والی آواز کو طاقت کے زور پر دبایا جارہا ہے جس کو ہم تانا شاہی کے مترادف کہہ سکتے ہیں اب تو حال یہ ہوچکا ہے کہ بھاجپا کی ڈبل انجن سرکاریں اس بلڈوزر کی جانبدارانہ کاروائی میں ایکدوسرے پر سبقت لے جانے کی تگ ودو کررہی ہیں پہلے یوپی کے یوگی آدتیہ ناتھ نے اس بلڈوزر کا جانبدارانہ استعمال کیا پھر آسام کے ہیمنت بسوا سرما پھر اتراکھنڈ کی دھامی سرکار اور اب مدھیہ پردیش میں موہن یادو کی سرکار مسلمانوں پر بلڈوزر کا قہر برسارہی ہے۔
مہاراشٹرا کے ایک ہندو پنڈت رام گیری نے رسولﷺ کی شان میں انتہائی بدبختانہ کلمات کہے جس کے بعد اس ملعون پنڈت کو گرفتار کرنے مطالبات شروع ہوئے مہاراشٹرا میں اس ملعون کو گرفتار کرنے کیلئے پر امن احتجاج اور جگہ جگہ تحریری یاداشتیں دی گئی اسی طرح مدھیہ پردیش میں بھی اس گستاخ پنڈت کے خلاف پر امن احتجاج کیا گیا لیکن مدھیہ پردیش کی پولیس نے پاسہ الٹ دیا اور پر امن احتجاجیوں پر پتھر برسانے کا الزام لگا کر گھروں سے مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا اور مکانات پر انتہائی درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مدھیہ پردیش سرکار نے کچھ مکانات پر بلڈوزر چلادیا۔
جس میں مقامی کانگریس قائد حاجی شہزاد علی کا عالی شان گھر کے ساتھ پارک کی ہوئی کاریں بھی شامل ہے، اس کے علاوہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرنے کے بعد سڑکوں پر گشت کرواتے ہوئے پولیس ہمارا باپ ہے کے نعرے لگانے پر مجبور کیا گیا حالانکہ پر امن احتجاجی مسلم نوجوانوں پر پتھر برسانے کا صرف بہتان لگایا گیا جب کہ کوئی ٹھوس شواہد موجود بھی نہیں ہے اگر ٹھوس شواہد موجود بھی ہوتے تو کیا بھارتی قانون میں اس طرح کی نچلی حرکت کرنے کی گنجائش ہوتی؟پھر کیا یہ سب پولیس کی جانب سے کاروائی کی گئی؟یہ تو ممکن ہی نہیں ہے کہ ایسی آئین مخالف کاروائی سرکار کے اشاروں کے بغیر ہوسکے اگر سرکار کے اشاروں کے بغیر ہوتی تو سرکار ابھی تک ضلع مجسٹریٹ سمیت پولیس پر سخت کاروائی کردیتی۔
مودی سرکار میں ابھی تک مسلمانوں کے ساتھ یہی ہوتا رہا کہ جب بھی اس ملک کا مسلمان انصاف یا اپنے حقوق کی لڑائی کیلئے سڑک پر نکلتا ہے تو ایک منظم سازش کے ساتھ مسلم نوجوانوں پر ہی الزامات عائد کرتے ہوئے جیلوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے اور ان کی املاک پر بلڈوزر چلاکر زمین بوس کردیا جاتا ہےایسے حصار بندی کے دور میں اس طرح کے غیر منظم احتجاج سے نہ دوا کام کرتی ہے نہ مرض سے افاقہ ملتا ہے اب ہم یہاں سے تھوڑا ماضی پر بھی نظر ثانی کرتے ہیں دہلی کے فسادات ہو یا شہریت ترمیمی قانون اس دوران عمر خالد،شرجیل امام،خالد سیفی و دیگر پر یو اے پی اے لگاکر جیلوں میں ڈال دیا گیا وہ آج بھی صعوبتوں کو جھیل رہے ہیں ان پر الزام ہے کہ انھوں نے دیش مخالف نعرے بازی کی جس کا ایک ویڈو گودی میڈیا پر خوب چلایا گیا جس میں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ بھارت تیرے ٹکڑے ہونگے وغیرہ موجود ہے۔
حالانکہ عمر خالد ہو یا کوئی بھی مسلم نوجوان اس طرح دیش مخالف نعرے بازی نہیں کی لیکن ایسی سازشوں کو ہمیں سمجھنا ہوگا جب بھی مسلمان کسی انصاف کیلئے یا اپنے حقوق کی غرض سے سڑک پر نکلتا ہے تو اسی احتجاج میں کچھ شر پسند عناصر کو شامل کردیا جاتا ہے اور وہ اس طرح کے غیر دستوری نعرے بازی کرنا اور پتھر بازی کرنے لگ جاتے ہیں اس طرح پر امن احتجاج کو پر تشدد احتجاج میں بدل دیا جاتا ہے جس کا سارا وبال معصوم و بے قصور اور پر امن احتجاجیوں کے سر مونڈھ دیا جاتا ہے جب کہ لنچنگ کے شرپسند ہوکہ مساجد میں توڑ پھوڑ کرنے والے یا کانوڑیوں کی یاترا کے دوران سڑکوں پر کیا جانے والا تشدد یہ سب آنکھوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔
ایسا ہی سب کچھ دہلی میں بھی ہوا اور مدھیہ پردیش میں بھی شہر ممبی کے تجربہ کار تجزیہ نگار عمر فراہی صاحب نے راقم سے گفتگو کے دوران کہا کہ اس ملک کا مسلمان حالت حصار میں ہے اور حالت حصار میں مزاحمت کا راستہ اختیار کرنا ہلاکت کا باعث بنتا ہے لہذا ایسے دوارانیے میں ذہانت فراست اور حکمت سے ہی کام لینا چاہیئے بھارت کا یہ دورانیہ مسلمانوں کیلئے بڑا ہی نازک اور آزمائشی ہے ایسے وقت میں ذہانت کا استعمال ہی امت کے حق میں نفع بخش ثابت ہوسکتا ہے اول کام تو یہ ہے کہ قانون کے ماہرین کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے اور مضبوط قانونی چارہ جوئی سے کام لیا جائے دوم یہ کہ گستاخ رسولﷺ کا معاملہ ہوتو مسلم ممالک کو آگاہ کیا جائے اور انکے سفارت خانوں کے علم میں یہ بات لائی جائے۔
جیسے نپور شرما کے وقت ہمارے کچھ دانشور مسلم نوجوانوں نے بڑے ہی شاندار اور شاطرانہ انداز میں ایکس پر ہیش ٹیگ مہم چلائی تھی جس کا بہت فائدہ بھی ملا تھا اگر معاملہ اندرون ملک کا ہوتو بجائے ہم ہجوم کو جمع کرنے کے وفد وفد کی شکل میں اپنا احتجاج درج کرواسکتے ہیں سوم یہ کہ آج بھی ملک میں اکثریتی طبقہ کا ایک بڑا گوشہ انصاف پسند سوچ رکھتاہے اور شعوری طور پر بھی سنجیدہ مزاج بھی رکھتا ہے ملی قائدین و تنظیمیں انھیں اپنے ساتھ لے کر ہمارے اپنے حقوق کی لڑائی لڑیں انھیں ہمارے ساتھ ہورہی ناانصافی کے معاملے پر گفتگو کریں وہیں پر عام عوام ایسے سنجیدہ افراد سے اپنے روابط اور تعلقات کو اتنا مستحکم کریں کہ اگر وہ کسی معاملے میں ہمارا ساتھ نہ بھی دیں تو کم از کم وہ ہمارے مخالف میں بھی نہ ٹھریں۔
مودی سرکار میں بہت سے ایسے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں جہاں جہاں مودی ڈبل انجن سرکار ہے وہاں غیر مجاز تعمیرات کا بہانہ بتاکر بلڈوزر کے ذریعہ بستیوں کو اجاڑ دیا گیا جس میں دہلی اترپردیش اتراکھنڈ آسام مدھیہ پردیش سرفہرست ہیں ان میں بعض معاملات میں عدالتوں نے سرزنش کرتے ہوئے بلڈوزر کی کاروائی کو رکوادیا بعض مقامات پر بستیوں کو صف ہستی سے مٹادیا گیا لیکن ان معاملات میں عدالت اعظمی نے ابھی تک سخت موقف اختیار نہیں کیا جس سے سماج میں عدالت کے تیئں عوام کا اعتماد نشیب وفراز کی طرز پر چل رہا ہے چونکہ جب حکمران ہی فیصلے لے رہے ہوں اور سزا کا معیار بھی طئے کررہے ہوں تو سوال یہ ہے کہ عدالتیں کس کام کیلئے ہے؟اب ملک کی عدالتوں کو چاہیئے کہ عدالتوں کے تیئں عوام میں پائی جانے والی کش مکش کو دور کریں اور حکومتوں پر گرفت پکڑیں تب ہی عوام پر ہورہا ظلم و ستم کم ہوسکتا ہے ورنہ یہ اپنی تانا شاہی میں مگن رہنے والے ہیں۔
یہاں اس بات کا تذکرہ بھی کیا جانا چاہیئے کہ آخر بھاجپا سرکاریں مسسلمانوں کی دشمن کیوں بنی ہوئی ہے؟مختلیف ماہرین و تجزیہ نگاروں کی آراء سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اپنی گدی کی راہ کو مسلسل ہموار رکھنے کیلئے مسلمانوں کے ساتھ وقفہ وقفہ سے سازشیں رچاتے ہیں کیونکہ یہ کام اور ترقی تو کرتے نہیں اسی لیئے مذہب کی سیاست ان کیلئے سب سے موثر ذریعہ ہے جیسا کہ ابھی آسام کے بسوا سرما حکومت نے مسلمانوں کے شادی اور طلاق کے ایکٹ میں تبدیلی کے قانون کو منظور کروایا ہے اب قاضی کے پاس سے تمام تر اختیارات چھین لیئے گئے جو بھی ہوگا بسوا سرما کے قانون سے ہوگا بالکل اسی طرز پر وقف ایکٹ کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا جانے والا ہے یعنی بھاجپا سرکاریں مسلمانوں کو انکی اپنی شریعت سے دور لے جانا چاہتی ہے اور اپنے بنائے ہوئے قانون پر چلانا چاہتی ہے جسکا صاف مطلب یہی ہے کہ وہ اس مک کے مسلمانوں کو اپنے ماتحت رکھنا چاہتی ہے۔
لیکن ظلم و ستم چاہے دنیا کے کسی بھی خطے کا ہو تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس طرح کے ظلم ایک دن خاک آلود بن جاتے ہیں اور ایک نئی صبح کا آغاز ہونا طئے ہوتا ہے بس ایسے نازک دور سے کیسے اور کس طرح نمٹا جائے اس کی موثر پالیسی بنانی ہوگی احتجاج کے طریقوں کو بدلنا ہوگا انصاف اور حقوق کو لینے کے لیئے نئے راستے اپنانے ہونگے ورنہ جذبات میں بہہ جانے سے معاملہ جوں جوں دوا کی مرض بڑھتا چلا گیا کے مترادف ہوسکتا ہے آج بھی انصاف پسند آفیسر سنجیو بھٹ ہو کہ عالمی سطح کی میگزین تہلکہ کے ترون تیج پال یا عمر خالد ، شرجیل امام، خالد سیفی،مفتی سلمان ازہری ان تمام کو سازشوں میں پھنساکر قید و بند کردیا گیا۔
یقیناً سازشوں کے عملی کاموں کا انبار لگایا جارہا ہے لیکن ردعمل بڑی دانائی سے دینا چاہیئے ورنہ پی ایف آئی کی بھی مثال ہمارے سامنے موجود ہے ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں پی ایف آئی غلط تھی حالات کی مناسبت سے رد عمل کا طریقہ غلط تھا اگر ہم جذبات سے اوپر اٹھ کر عقل شعور فہم فراست اور ذہانت سے عاری ہوکر کام کریں تو اس کا مطلب صاف ہے کہ آپ کی ملی تنظیموں پر پابندی عائد کردی جائے گی اور آپ کے نوجوانوں کو ملک سے بغاوت کے جرم میں جیلوں میں ٹھونس دیا جائے گا جس سے آپ کا اپنا اصل سرمایہ بھی جائے گا اورآپ کا بچا کچا حوصلہ بھی پست ہوجائے گا آج کے اس حالات کا رونا مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی کے علاوہ دوسرا کوئی سبب ہو ہی نہیں سکتا بقول سدرشن فاکر؎
میرا قاتل ہی میرا منصف ہے
کیا میرے حق میں فیصلہ دے گا