Site icon

مکاتب کی قدر کیجیے!

مکاتب کی قدر کیجیے!

✍️ مفتی ناصرالدین مظاہری

_________________

"اجی حافظ جی! احمد نے پوٹی کردی ہے۔
مولی صاب! مجھے چھٹی دیدو مجھے بھوک لگ رہی ہے۔
حافظ جی!محمود نے حامد کا بستہ گندا کردیایے۔
عفان نے سفیان کی ٹوپی چھین لی ہے۔
حافظ جی!آصف نے اپنے کپڑوں میں ہی پیشاب کردیاہے”

ایسی آوازیں اور ایسے مناظر آپ کو یاد بھی ہوں گے اور اگر کبھی کسی مکتب میں جانے ، استاذ کے پاس بیٹھنے کا موقع ملا ہو تو اپ نے دیکھے بھی ہوں گے یقین جانیں ان مکتب والوں کے صبر اور ضبط اور اساتذہ کے رحم و کرم کا پیمانہ کتنا بڑا ہوتا ہے کہ وہ یہ سب روزآنہ جھیلتے رہتے ہیں ، پڑھاتے رہتے ہیں، آپ کے بچے پڑھتے ہیں، تربیت پاتے رہتے ہیں ، وہ بچے جو ابھی ٹھیک سے بولنا بھی نہیں جانتے لیکن حافظ جی، اتالیق اور استاد اپ کے بچے کو بولنا بھی سکھاتا ہے، پڑھنا بھی سکھاتا ہے، دعائیں بھی یاد کراتا ہے، کلمے بھی ،نماز بھی، گنتیاں بھی ،اردو بھی اور بہت کچھ جس کی اپ توقع بھی نہیں کر پاتے ۔

اپ سوچیں کہ اپ کے گھر میں مشکل سے دو تین ننھے بچے ہوتے ہیں اور وہ شور شرابے اور شرارتوں کے ذریعے اسمان کو سر پر اٹھا لیتے ہیں۔

مکتب جہاں پر پورے محلے اور بستی کے معصوم بچے یکجا ہو جاتے ہیں وہاں پر صرف ایک ہی استاد ہوتا ہے جو تمام بچوں کو نہ صرف جھیل رہا ہوتا ہے بلکہ بیک وقت پڑھاتا بھی ہے ،بچوں پر نظر بھی رکھتا ہے ،ان کی شرارتوں پر ڈانٹ ڈپت بھی کرتا ہے ، بچے کا پیشاب خطا ہو جائے تو اس کو اس کے گھر بھی بھیجتا ہے، جہاں پر پیشاب پڑا ہے اس کی صفائی کا بھی بند و بست کرتا ہے اسی طرح بچوں کے لڑنے جھگڑنے پر بھی نظر رکھتا ہے ان کے فیصلے بھی کرتا ہے اگر کسی بچے کی زیادہ ہی بڑی غلطی ہوئی تو بچے کے والدین سے بھی رجوع کرتا ہے اور اس طرح یہ چھوٹے چھوٹے ننھے ننھے بچے رفتہ رفتہ اہستہ اہستہ سن شعور کو پہنچتے ہیں بڑھتی عمر کے ساتھ ان کی تعلیم اور ان کی تربیت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اب غور کیجئے یہ مکاتب ہم اہل مدارس کے لیے خاص کر مرکزی مدارس کے لیے فوج کی تیاری میں کتنی محنت اور مشقت کرتے ہیں فجر سے پہلے اٹھ کر اساتذہ اپنے حفظ کے بچوں کے اسباق سن لیتے ہیں، اب سوچیے مرکزی مدارس میں جو بچے پڑھتے ہیں وہ سارے کے سارے مکتب کے راستے ہی یہاں پہنچتے ہیں۔

اگر اپ ان مکتب والوں کی محنت کو دیکھ لیں تو آپ محسوس کریں گے کہ مرکزی اداروں میں جو بچے پڑھنے کے لیے پہنچتے ہیں وہ تو ماشاءاللہ تربیت یافتہ ہوتے ہیں ، پکے پکائے، سمجھے سمجھائے ہوتے ہیں، نہ دعائیں آپ کو یاد کرانے کی ضرورت ہے، نہ نماز ،غسل ،روزہ کلمے، دعائے قنوت اور ماثورو مسنون دعائیں ہر چیز وہ مکتب سے ہی یاد کر کے اتے ہیں گویا یہ طلبہ جب آپ کے پاس پہنچتے ہیں تو وہ دین کی بنیادی چیزوں اور باتوں سے پورے طور پر واقف ہوتے ہیں۔
میں خود اپنی بات بتاتا ہوں میں نے حضرت مولانا حفظ الرحمن خیری ضلع کھیری کے پاس مکتب میں تقریبا اسی دعائیں یاد کرلی تھیں پھر زید پور پہنچا تو کافی دعائیں بھول گیا کیونکہ ماحول نہیں تھا اور پھر یہاں آیا تو مزید دعائیں بھول گیا کیونکہ بڑے درجات کی کتابوں کے اسباق ہی اس قدر ہوتے ہیں۔

ایک مرتبہ میں حضرت مولانا محمد سعیدی مدظلہ کے ساتھ بجنور کے دھام پور کے علاقے میں جانا ہوا ،دھام پور میں ایک عالم دین نے ناظم صاحب سے ملاقات کی اور درخواست کی کہ سیوہارہ میں ان کا مدرسہ ہے ، تشریف لے چلیں ، ناظم صاحب نے ان کی درخواست منظور کرلی،سیوہارہ پہنچ گئے لیکن اتفاق کی بات ہے اسی وقت بجلی چلی گئی، گرمی کا موسم دوپہر کا وقت ،بجلی ندارد، چھوٹا سا مدرسہ ،نہ واٹر ، نہ موٹر، نہ میٹر ، نہ انورٹر ، واپس ہوتے وقت گاڑی میں ہمارے ایک رفیق سفر اپنے غصے اور خفگی کا اظہار کرتے ہوئے خود کلامی کے انداز میں گویا ہوئے کہ جنریٹر کا انتظام رکھنا چاہیے تھا ورنہ انورٹر تو ہونا ہی چاہیے تھا اتنی گرمی تھی اور بجلی بھی نہیں تھی، میں نے رفیق سفر کے غصے اور ناراضی کو دیکھا تو ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بہت ہی صبر اور تحمل کے ساتھ عرض کیا کہ محترم! اس میں غصہ والی کوئی بات نہیں ہے اپ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اللہ تعالی نے مرکزی مدرسے کے ناظم کو اس مکتب میں صرف اس لیے بھیجا ہو کہ دیکھ لو یہ مکتب ہے یہاں قران کی تعلیم ہوتی ہے ، یہاں نورانی قاعدہ پڑھایا جاتا ہے ، ان مکتبوں کی قدر کرو،یہ بے سر وسامانی کے باوجود تیار شدہ مال ہمیں دیتے ہیں اور ہم صیقل کرکے قوم کے حوالہ کردیتے ہیں، آپ اس پہلو پر کیوں نہیں سوچتے کہ اللہ تعالی نے ہم لوگوں کو اس لئے یہاں بھیجا ہو تا کہ یہاں کی مشقتیں، یہاں کی کلفتیں ،یہاں کی گرمی، یہاں کا گھٹا گھٹا سا ماحول دیکھ کر ہمیں شکر کی توفیق ملے ، ہمیشہ شکایت کا مزاج نہیں رکھنا چاہیے کبھی مثبت بھی سوچنا چاہیے اللہ تبارک و تعالی کا شکر بھی ادا کرنا چاہیے ۔

ایک مکتب میں جانا ہوا، بچوں کی بڑی تعداد موجود تھی، ٹین شیڈ کا ایک ہی چھپر تھا، بچے صحیح طور پرتین شیڈ کے نیچے سما نہیں پا رہے تھے اور استاد اسی گرمی تپش اور بغیر کسی پنکھا اور کولر کے پڑھانے میں مصروف تھا بلا مبالغہ تقریبا ڈیڑھ سو بچے ہوں گے ، ڈیڑھ سو بچوں کو صرف ایک استاد پڑھا رہا تھا اگر اپ منٹوں کے اعتبار سے تقسیم کرنے پر آجائیں تو شاید اپ کے لیے مشکل ہو کہ کتنا وقت ان بچوں کی تعلیم، کلمہ نماز، دعا ، گنتی اور پہاڑے وغیرہ میں خرچ ہوتا ہوگا اور پھر یہ بھی سوچیں کہ ڈیڑھ سو کی اتنی بڑی تعداد کو پڑھانے والے کو تنخواہ کتنی ملتی ہوگی ؟

اس مکتب میں نہ تو بچھانے کے لیے کوئی میٹ تھا نہ کوئی فرش تھا ، نہ چٹائی تھی، بچے اپنا اپنا بوریا اپنے گھر سے لے کر آتے ، بچھاتے ، پڑھتے اور چھٹی ہوتی تو اپنا بوریا لپیٹ کر واپس اپنے گھر چلے جاتے ہیں، تصور کیجئے جن مکاتب میں بچھانے کے لیے فرش نہ ہو، چٹائیاں نہ ہوں تو کیا وہاں تپائیاں ہوں گی یہ سچ ہے وہاں تپائیاں بھی نہیں تھیں بچے اپنے بستے پر اپنے قاعدے اور سپارے رکھ کر ذوق اور شوق کے ساتھ جھوم جھوم کر اسباق یاد کررہے تھے، میں اللہ تبارک و تعالی کا شکر بھی ادا کر رہا تھا کہ اللہ تبارک و تعالی نے ہمیں مظاہر علوم جیسے عظیم مرکز میں دین کی خدمت کی نسبت سے قبول فرما لیا ورنہ

کہاں میں اور کہا یہ نکہت گل
نسیم صبح تیری مہربانی

ان مکتبوں میں غربت، عسرت، تنگی، تنگ بستی، بے سر و سامانی اور ہر قسم کی پریشانیاں جن کا اپ تصور کر سکتے ہوں موجود ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود لوگ ان مکاتب کی طرف جیسی توجہ دینی چاہیے نہیں دیتے۔ عوام وخواص مرکزی اداروں کے ذمہ داران اور اساتذہ وغیرہ کو تو بڑے بڑے ہدایااور تحائف دیتے نظر اتے ہیں لیکن مکتب کے اساتذہ کو کبھی ہدیہ اور تحفہ دیتے نظر نہیں آتے، جو پہلے سے بھرے ہوتے ہیں ان کو اور نوازا جا رہا ہے اور جو ہر طرح سے مستحق ہیں ان کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا

یہ کیسی نا انصافی ہے کہ آپ اپنے پیر و مرشد کو ہدیہ تحفہ دینا نہیں بھولتے اور اپنے بچہ کے پیر و مرشد یعنی اس کے استاد اپنے بچوں کے استاد کو نوازنے میں کنجوس واقع ہوئے ہیں۔

مجھے ایک اخبار کے تراشے کے ذریعے سوشل میڈیا پر جب یہ خبر نظر نواز ہوئی کہ جامعہ اسلامیہ ریڑھی تاجپورہ ضلع سہارنپور کے ایک بچے کا نورانی قاعدہ مکمل ہونے پر بچے کے استاد کو اس کے والد کی طرف سے عمرہ پر بھیجا جا رہا ہے بچے کے والد نے نہ صرف عمرے کا مکمل صرفہ برداشت کیا بلکہ جیب خرچ کے طور پر 500 ریال بھی دئیے اور دھلی ایئرپورٹ تک لانے اور لے جانے کا نظم بھی کیا، جب اس طرح کا مزاج ہماری قوم کا بنے گا تو دین کی قدر بھی ہوگی دینداروں کی عزت بھی ہوگی، علم کی قدر بھی ہوگی اہل علم کی منزلت بھی ہوگی اور نئی نسلوں کو دین کی طرف راغب کرنے میں یہ چیزیں ممد و معاون بھی ثابت ہوں گی۔

Exit mobile version