Site icon

معاملہ ملت اسلامیہ کی تقدیر کا ہے

معاملہ ملت اسلامیہ کی تقدیر کا ہے

✍️محمد قمر الزماں ندوی

استاد / مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

_____________________

مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی رح نے 1978ء میں پڑوس ملک پاکستان کا سفر کیا تھا اور شہر کراچی میں سیرت کے موضوع پر منعقد کانفرنس میں ایک وفد کے ساتھ شرکت کی تھی، اس سفر میں ان کے ممتاز بھتیجے اور عربی زبان و ادب کے ماہر اور انشاء پرداز مولانا سید محمد الحسنی رح اور ممتاز شاگرد مولانا اسحاق جلیس ندوی مرحوم اور معاون و مشیر مولانا محمد معین اللہ ندوی رح شریک تھے ۔ حضرت مولانا رح نے اس موقع پر کانفرنس کے علاؤہ کئی جلسوں کو خطاب کیا اور مولانا رح نے ہر تقریر میں انسان کو مومن بننے اور دنیا کی اخلاقی و معنوی قیادت کے لائق بننے کی دعوت دی تھی ۔
مولانا رح نے پوری زندگی اسی پیغام کو عام کیا اور جہاں گئے مسلمانوں کو ان کی ملی و انسانی ذمہ داری یاد دلاتے رہے اور سچا انسان اور ایمان دار مسلمان بننے کی تلقین کرتے رہے، مولانا رح کے تمام خطابات و تقاریر کو پہلے ،،حدیث پاکستان،، کے نام سے اور پھر دعوت فکر و عمل کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیا گیا ہے ۔۔۔۔ ،،دعوت فکر و عمل،، نامی یہ کتاب ہر مخلص مسلمان اور ملک و ملت کے بہی خواہ کو آواز دے رہی ہے کہ صحیح شعور، جذبئہ صادق ،قوت ارادی اور عمل پیہم سے کام لے کر وہ اب اسلام کی نشأة ثانیہ کا راستہ صاف کردے ،جس پر ہماری غفلت ،ناخدا ترسی اور مسلسل سازشوں اور تخریبی عمل نے بے حد و حساب ملبہ اکھٹا کر دیا ہے ،اور اس ملبہ کو اٹھانے کے لیے آج کی مغرب زدہ معاشرت اور سوسائٹی میں ہمہ گیر اور مکمل انقلاب کی ضرورت ہے اور یہی انقلاب وہ پائیدار اساس ہے جس پر اسلامی زندگی کا محل تعمیر کیا جاسکتا ہے۔
ان خطابات اور تقریروں میں حضرت مولانا رح نے ایسا لگتا ہے اپنا دل نکال کر رکھ دیا ہے ، ضرورت ہے کہ اس وقت ملک و ملت کے جو حالات ہیں، ان کو سمجھنے کے لیے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے جہاں قرآن و حدیث میں حد درجہ تدبر و تفکر کی ضرورت ہے، وہیں اہل دل کی باتیں ان کی تقریریں اور تحریریں جو دل کہے اور دل سنے یا دماغ کہے اور دماغ سنے کے مترادف ہے، اس کا بھی مطالعہ کریں اور ذہن و فکر کو وسعت دے کر ملت کی کشتی ⛵ کو بھنور سے نکالنے میں معاونت لیں۔ حضرت مولانا رح کی یہ ،،کتاب،، ایسی ہے کہ ہر صاحب علم کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔۔
میں مولانا رح کی کتاب سے
،،افادات حضرت مفکر اسلام رح،،کے عنوان سے، صرف ایک تقریر کا ضروری حصہ اور اہم اقتباس پیش کرتا ہوں، جس سے اندازہ ہوگا کہ اہل دل کا معمول تھا یا خدا کا انعام تھا کہ وہ دل کی زباں سے باتیں کرتے تھے۔
مولانا نے وہاں کے ایک مخصوص اور معزز طبقہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:
” یہ میری خوبی ہو یا میری آزمائش ہو، یہ خدا کی نعمت ہو یا میرا امتحاں ہو ،میں نہیں کہہ سکتا لیکن شاید اس مجمع میں (ان کے پورے احترام کے ساتھ) کوئی صاحب ایسے موجود نہ ہوں گے ،جن کو عالم اسلام کو اس طرح اور اتنے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہوگا، جتنا مجھے، کچھ تھوڑی سی بدقسمتی کچھ تھوڑی سی خوش قسمتی ،بدقسمتی اس لیے کہ میں نے اس عالم اسلام کو جس طرح دیکھا وہ جگر پر داغ ہے، جگر پر زخم ڈالنے والا ہے ،خوش قسمتی اس لیے کہ مجھے مسلمانوں کو قریب سے اچھی طرح دیکھنے کا موقع ملا ،اپنے جسم کے ان ٹکڑوں کو دیکھنے کا موقع ملا ،بہر حال میں آپ سے کہتا ہوں کہ معاملہ اس وقت پارٹیوں کا نہیں ،معاملہ جماعتوں کا نہیں ، معاملہ وقتی مصلحتوں کا نہیں ، ملت اسلامی کی تقدیر کا ہے، ہوسکتا ہے عبادات محفوظ ہوں، معاملات میں بہت سی شکلیں محفوظ ہوں،لیکن ملت کے سیاسی ترازو میں اپنا وزن نہیں ڈال سکتی، بیت المقدس کا مسئلہ ہو، یا فلسطین کا مسئلہ ہو، لبنان کا مسئلہ ہو، یا قبرص کا مسئلہ ہو آپ دیکھئے کہ پوری ملت اسلامی اس بارے میں کوئی اثر نہیں رکھتی، سلطنت عثمانیہ کے بعد عالم اسلام کا کوئی ملک اور ملت اسلامیہ کا کوئی کنبہ ،کوئی خاندان اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ عالم اسلامی کے کسی مسئلہ میں اپنا سیاسی وزن ڈال سکے ،کچھ فیصل مرحوم (شاہ فیصل مرحوم سابق شاہ عرب) نے تھوڑا سا وزن ڈالا تھا اور کچھ ہمت دکھائی تھی ،لیکن آخر ،، آں قدح بشکست و آں ساقی نہ ماند،، آج کوئی اسلامی ملک ایسا نہیں کہ جس کی ناپسندیدگی ،جس کا عدم اتفاق اور جس کا احتجاج کسی بڑی طاقت کو ایک سیکنڈ کے لیے بھی اس مسئلہ میں غور کرنے پر آمادہ کرسکے ،آپ سب جماعتیں مفاد سے بالا تر ہوکر صورت حال کا مقابلہ کریں ،زمانہ کے چیلنج کو قبول کریں اور اس کا ہمت و جرآت سے سامنا کریں ،اور اگر خدا کی طرف سے کوئی موقع ملا ہو تو آپ اس سے فائدہ اٹھائیں ،اگر کوئی فرد ،کوئی جماعت دس فیصد بھی اپنے کو اس کا اہل قرار دے کہ وہ آپ کی کوئی خدمت کرسکے، تو اخلاص کا تقاضا یہ ہے کہ اسے موقع دیں کہ وہ اپنی صلاحیت کا اظہار کرے ،مسلمانوں کی تقدیر کی جو لکیریں ہیں، ان کو سامنے رکھئے ،یہ نوشتئہ دیوار نہیں ،نوشٹئہ تقدیر ہے، آپ کی ذرا سی غلطی ،ذرا سی نفسانیت ،ذرا سی صوبائی یا لسانی یا طبقہ واری عصبیت ،آپس کا انتشار و اختلاف مسلمانان عالم کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے ،آج یا کل جب بھی موقع آئے تو آپ سارے مفادات پر ملت کے مفاد کو مقدم رکھیں اور آپ ہر اس موقع سے، ہر اس موضوع سے، ہر اس مسئلہ سے کنارہ کشی اختیار کریں ،جو کسی قسم کا ذہنی انتشار پھیلائے ،اگر اس کے لیے آپ کو اختلافی مسائل کو کچھ دنوں کے لیے بالائے طاق رکھنا پڑے تو ضرور رکھیں ،فرض اور واجب ہے کہ آپ غیر ضروری بحثوں کو نہ چھیڑیں ،اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر بعض دینی دعوتوں نے شروع سے یہ احتیاط برتی ہوتی اور انہوں نے جانبی اور ذیلی بحثوں کو کچھ دنوں کے لیے اٹھا رکھا ہوتا، تو آج ان کے لیے راستہ اس سے زیادہ صاف تھا جتنا اس وقت آپ کو نظر آرہا ہے ،لیکن بہر حال یہ انسانی کوشش ہیں ،انسان اپنے علم اور عقل کا مکلف ہے ” ۔۔۔۔۔ (دعوت فکر و عمل ،ص، 31.32)
آگے حضرت مولانا رح فرمایا تھا :

” میں سمجھتا ہوں کہ میری تقریر کے مضمرات کو آپ نے پورے طور پر سمجھ لیا ہوگا اور اتنا کافی ہے ،میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ آپ سب پورے عالم اسلام بلکہ دنیائے انسانیت کے لیے اور حق و انصاف اور عدل و مساوات کے لئے پشت پناہ بنیں اور آپ اس قابل ہوں کہ دنیا کہ کسی گوشہ میں آپ کے اخلاقی اثر اور آپ کے احترام میں ظلم نہ ہونے پائے ،جیسا کہ ایک بڑھیا عورت پر ظلم ہوا ، اس نے ،، وامعتصماہ! ،، کی صدا لگائی تھی اور عباسی خلیفہ معتصم اس کی داد رسی کو پہنچ گیا تھا، آج بھی کوئی ملک اس قابل ہو کہ کوئی مظلوم ،، وا معتصماہ ،، کہہ سکے تو معتصم اس دنیا میں اس صدی میں پیدا ہونا چاہیے ،جیسا ایک امام کعبہ کی ضرورت ہے اور ہم آپ سب ان کا احترام کرتے ہیں ،جیسا کہ آج ایک بڑے عالم دین کی ضرورت ہے، اور ہم آپ کا احترام کرتے ہیں ،ویسے حق پسند ،انصاف شعار ،عدل گستر ،درد مند ،انسان دوست جماعت کی بھی ضرورت ہے "۔ (حوالہ سابق )

Exit mobile version