وقف کی حقیقت سمجھنے کی ضرورت!!
جاوید اختر بھارتی
(سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین)
محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی
____________________
ہمارے ملک میں وقف بورڈ کا مسئلہ آپ کو پتہ ہے بہت سارے لوگ اوقاف کے متعلق قانون کی باتیں کرتے ہیں کہیں کہیں مسلمان تو گھنٹوں گھنٹوں بحث و مباحثہ میں لگے رہتے ہیں حقیقی بات کا پتہ نہیں ہے کہ وقف ہے کیا،، وقف بورڈ نہیں،، وقف بورڈ تو صرف نگرانی کرنے والا ادارہ ہے کسٹوڈین مطلب رکھوالا ہے،، مالک نہیں ہے،، وقف کیا ہے وقف مسلمانوں کی عشق و محبت کی داستان کا ایک باب ہے وقف مسلمانوں کی طرف سے اپنے رب اور اپنے رسول کے لیے جو پیار ہے اس کے اظہار کا ایک نمونہ ہے کسی حکومت نے ہمیں جگہ نہیں خرید کر دی ہے حکومت اس لیے اس میں دخل نہیں دے سکتی کیونکہ جب کروڑوں کی جائداد پوری دنیا میں ہیں یا ہمارے ملک میں جو وقف کی جائدادیں ہیں وہ کسی سے بھیک میں ہم نے نہیں مانگی ہیں وہ بڑی بڑی جائیدادیں مسلمانوں نے اپنے اللہ کی محبت میں اپنے رسول کے عشق میں ان کو اپنے رب کے نام پہ وقف کر دیا کہ ان کی آمدنی سے دین کا کام ہوگا اس کی آمدنی سے غریبوں کی بھلائی کی جائے گی اس میں کسی کا دخل نہیں ہوگا یہی تو اللہ و رسول سے عشق و محبت کی داستان ہے حکومت بھی اس بات کو سمجھ لے کہ جتنے وقف بورڈ ہیں،، نہ یہ مالک ہیں نہ حکومت مالک ہے،، مالک اللہ ہے وقف کا،، کیونکہ جس بندے نے زمین وقف کی ہے اس نے یہ لکھ کر وقف کی ہے کہ یہ جائیداد یہ کھیت یہ محل یہ مسجد یہ دکانیں میں وقف کر رہا ہوں اپنے اللہ کے نام پر اج کے بعد یہ فروخت نہیں کی جائے گی اج کے بعد ان کی رجسٹری نہیں ہوگی اج کے بعد فروخت نہیں کیا جائے گا ان سے کرایہ لائیں گے اس کرائے سے مسجدوں کو پیسے دیں گے مدرسوں کو دیں گے قبرستانوں کو سدھاریں گے بیواؤں کو پینشن دیں گے اس کو چلائیں گے ہسپتالوں کو پیسے دیں گے لیکن یہ جو اللہ کے نام پر جائیداد وقف کر دی اس کو کو مائی کا لعل بیچ نہیں سکتا وقف بورڈ صرف اس لیے بنایا کہ اس جائیداد کی رکھوالی کرے اس کی حفاظت کرے وہاں سے پیسہ وصول کر کے غریبوں میں مظلوموں میں اس پیسے کو خرچ کریں کسی حکومت کو حق نہیں پہنچتا مسلمانوں کے ایک ذاتی معاملات میں دخل دینے کا کیونکہ وقف کی جائیدادیں اپنے پیسے سے حاصل کی ہیں اور وقف کی ہیں حکومت سے نہیں مانگا حکومت کو نہیں کہا کہ ہمیں 10 مربع کا پلاٹ دے دو مسجد بنانے کے لیے قبرستان بنانے کے لیے نہیں ہرگز نہیں بلکہ ہمارے اکابرین نے اور قوم و ملّت کے ہمدردوں نے اپنی جائیدادیں خود وقف کی ہیں اب کسی کے نام رجسٹری نہیں ہو گی کیونکہ وقف کی جائیداد کسی کی اولاد کے نام نہیں ہے کہ کوئی بندہ اپنی جائیداد کسی کو دے دے کل کو کہے کہ میری زمین واپس کرو،، یہ وقف کی جائیداد ہے اب واپس بھی نہیں ہوسکتی، کوئی دوسرا بندہ مالک نہیں بن سکتا ہے، اس کا متولی بھی مالک نہیں بن سکتا ان میں بھی اتنی ہمت نہیں کہ وقف کی جائیداد کو بیچ کر دکھا دے وقف بورڈ بھی نہیں رجسٹری کروا سکتا باقی کو تو چھوڑو جو اس کے رکھوالے ہیں ان کے ہاتھ بھی باندھے گئے ہیں کہ خبردار اپنی حدود کے اندر رہنا اپنی حدود سے تجاوز کرنے کی کوشش نہ کرنا ،،کیونکہ یہ اللہ کے نام پر رکھی گئی ہے تو یہ رکھی کیوں گئی ذرا اندازہ تو لگائیے کہ وہ کیسے لوگ رہے ہوں گے،، اج بھی بہت سارے لوگ ہیں ماشاءاللہ بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ 500 گز کا پلاٹ ہے، یہ میرا مکان ہے اسے مسجد کے لیے وقف کرنا ہے ایک ہزار گز کا پلاٹ ہے مدرسے کے لیے وقف کرنا ہے یہ ان کی محبت ہی تو ہے اور اپنے رب و رسول کے ساتھ وفاداری کا جذبہ ہی تو ہے جو اپنی گاڑھی کمائی سے حاصل کی گئی زمینوں کو راہ خدا میں دے رہے ہیں-
آج ملک کے جو حالات ہیں اس پر نظر رکھنا بڑی بڑی ملی کمیٹیوں ، تنظیموں اور خانقاہوں کی ذمہ داری ہے کبھی اوقاف کا مسلہ کھڑا کیا جاتا ہے تو کبھی توہین رسالت کا معاملہ سامنے آتا ہے تو کبھی ہجومی تشدد کا واقعہ رونما ہوتاہے غرضیکہ کچھ لوگ ملک میں بدامنی پھلانا چاہتے ہیں اور مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں ان تمام واقعات کی روک تھام کے لئے ایک مضبوط لائحہ عمل کی ضرورت ہے اور اس کے لئے بڑی بڑی شخصیتوں کو آگے آنا ہوگا اب وقت آگیا ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ ، آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ، جمیعۃ علماء ہند، ملی کونسل جیسی بڑی بڑی تنظیموں کے ساتھ ملک کی بڑی بڑی خانقاہوں کے ذمہ داران میدان میں آئیں اور سیاسی صف بندی کو مضبوط کرنے کی مہم چلائیں کیونکہ آج ملک کے جو حالات ہیں اور مسلمانوں کے جو مسائل ہیں وہ سارے مسائل سیاسی ہیں اور سیاسی بنیاد پر اپنے مسائل کو حل کرنے اور کرانے کا اختیار آئین نے ہر ہندوستانی کو دیا ہے ایوان میں مسلم ممبران پارلیمینٹ و اسمبلی کی موجودہ وقت میں چاہے کتنی بڑی تعداد کیوں نہ ہو اس سے مسلمانوں کا بھلا ہونے والا نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی پارٹی کی گائڈ لائن سے ہٹ کر کچھ بھی نہیں کرسکتے اسی وجہ سے تو ان کی زبان ہر موقع پر بند رہتی ہے لہذٰا ایسی صورت میں ملی کمیٹیوں و تنظیموں اور خانقاہوں کے ذمہ داران کو آگے بڑھ کر ملک و ملت کی فلاح و بقا کے لئے کمان سنبھالنے کی ضرورت ہے تاکہ وطن عزیز حاسدین کے حسد اور مفسدین کے فساد اور شریروں کے شر سے محفوظ رہے اور مسلمانوں کا سیاسی پلیٹ فارم بھی تشکیل پاسکے جو آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کی لڑائی لڑسکے،، آخر مسلمان کب تک نام نہاد سیکولر پارٹیوں پر بھروسہ کرتا رہے گا تمام پارٹیاں مسلمانوں کی سیاسی شناخت کو مٹانا چاہتی ہیں پارلیمانی الیکشن میں خود کانگریس نے مہاراشٹر ، چھتیس گڑھ اور جھارکھنڈ سے ایک بھی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا تھا پھر بھی مسلمانوں نے کانگریس کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچایا اور سماجوادی پارٹی کا بھی سیاسی وجوہ بچایا مگر ان پارٹیوں کا مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک ہے وہ پوری طرح عیاں ہے اس لئے مسلم پرسنل لاء بورڈ کو عالیشان ہوٹلوں میں میٹنگ کرنے اور مذمت کرنے سے اوپر اٹھ کر زمینی سطح پر کام کرنا ہوگا ، جمیعۃ علماء ہند کو سیاسی نعرہ لگانا ہوگا اور خانقاہوں سے بھی مریدین اور پوری عوام کے نام سیاسی بیداری کا پیغام دینا ہوگا اس لئے کہ سیاست ہی ماسٹر چابی ہے اور سیاست سے ہی ہر مسائل کا تصفیہ ممکن ہے۔