Site icon

خالد نیموی کی اُردو نوازی: جہات و خدمات کے حوالے سے

خالد نیموی کی اُردو نوازی: جہات و خدمات کے حوالے سے

✍️ عین الحق امینی قاسمی

معہد عائشہ الصدیقہ بیگوسرائے

_________________

زبان ایک انسانی ضرورت بھی ہے اورقوموں کی عادات واطواراور قومی مناقب ومحامد کی عکاس بھی۔ زبان چاہے کوئی بھی ہو ،جب وہ ادب واصطلاحات، اشاریہ، رموز، اور اپنے جمالیاتی پیرائے سے بول چال اور لکھنے پڑھنے سے لے کر عام گفتگو میں استعمال ہونے لگتی ہے ،تووہ نہ صرف سخن فہمی میں معین ومددگا ثابت ہوتی ہے ،بلکہ وہ زندہ قوموں کی علامت بن کر ایک مضبوط رابطے کی زبان بھی بن جاتی ہے ،اردو زبان بھی اپنی انہیں خصوصیات کی وجہ سے ہمیشہ نہ صرف بولی اورلکھی جاتی رہی ہے ،بلکہ اپنی تمام تر خصوصیات اور شناختوں کے ساتھ نیشنلیٹی حاصل کر چکی ہے، بہت سے نثر نگاروں ،ادیبوں اورشاعروں نے اردو کو پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کئے ،انہوں نے افہام وتفہیم کے طور پر اردو کی بزم آرائی کو اپنا اخلاقی فریضہ جا نا ، پوری زندگی اردو نثرنگاری کومیدان عمل بنایا ،شاعروں نے اردوکے قالب میں مشاعرے پڑھے اور ادیبوں نے اردو کی اہمیت ،جامعیت اور برتریت کو خدمت کا معیار بنایا ،نظمیں اور غزلوں نے چمن آرائی کے لئے مقناطیسیت کا جلوے بکھیرے۔ یہ ایک طویل سلسلہ ہے جو مختلف جہتوں سے تا ہنوز شان بان سے جاری ہے۔

اردو کے نشر واشاعت اوراس کے فروغ اور اس کی آبیاری کے لئے جد وجہد کے حوالے سے علماءومشائخ نے ہمیشہ بے مثال خدمات انجام دی ہیں ،اسی سلسلة الذ ہب کے حوالہ سے معاصر علماءمیںنمایاں مقام خالد نیموی کو حاصل ہے، جنہوں نے گذشتہ تین دہائی سے مسلسل ادب وصحافت کے ذریعے اردو کی مشعلیں روشن کی ہیں ،اردو کے تئیں ان کی بیداری ،حساسیت ، فکرو عمل، تندہی اور جمال وکمال ایک مثال ہے ،انہوں نے کئی جہتوں سے اردو کے فروغ کے لئے کوششیں کی ہیں،وہ خود بھی نہایت پاکیزہ ذوق کے مالک ہیں اور اردو کی پاکیزگی کو نبھانے، اس کو وسعت دینے ،اس کے ساتھ ہورہے سوتیلا رویوں کو ختم کرنے،اس کو رابطے میں لانے اور اردو کو ذریعہ معاش سے مربوط کرنے کے تعلق سے ان کی مسلسل جد وجہد ،ایک جلی عنوان ہے ۔یوں تو وہ عربی زبان میں بھی بے تکلف لکھنے پڑھنے پر قدرت رکھتے ہیں ،تاہم وہ اپنی مادری زبان اردو کے منجھے ہوئے باوقارقلم کار اورائٹر ہیں،ان کے لکھے ہوئے مقالے اعتماد کے ساتھ پڑھے جاتے ہیں، اہل اردو کی میز پر،ان کی تحریریں کامیاب نثرنگاری کا پر تو مانی جاتی ہیں ،وہ اب تک ملک وبیرون ملک درجنوں تاریخی، ادبی، سماجی، اور علمی واصلاحی سیمیناروں میں اپنے مقالے پیش کرچکے ہیں،عصر ی تقاضوں میںاردوکے تئیں،انہوں نے اپنا قلم رواں رکھا ہے ،اُن کے اردو مضامین سے اندازہ ہوتاہے، کہ ان کی تحریریں مواد،اسلوب اورتسلسل اور سہل نگاری جیسی خوبیوں سے بھرپور ہوتی ہیں،ان کی اردو تحریروں کاایک خاص وصف یہ بھی ہے کہ وہ آسان اور عام فہم ہونے کے ساتھ ہی زبان وادب کی چاشنی سے آشنا ہوتی ہیں، جس سے اول وَہلہ میں مضمون کے تئیں عام قاری کی دل چسپی بڑھنے لگتی ہے،تقریبا تمام ہی مضامین میں، بلکہ ان کے قلم کا خاصہ ہے کہ ہر پیرا گراف، مابعد اور ماقبل پیرا گرافوں سے نسبتاً جڑا ہوا ہوتاہے، تحریروں میں جامعیت کے پیش نظر،عام احساس یہ ہے کہ ہرپیرا گراف پر ایک مختصرمضمون مکمل کیا جا سکتا ہے،اس لئے ان کی تحریروں کو تر جیحی طور پرمجلّوں میںجگہ ملتی ہے اور واقفِ حال، اشاعت کے مرحلوں تک بے صبری سے انتظار کی گھڑیاں گنتے رہتے ہیں۔

جیسا کہ گذشتہ سطور میں یہ بات آچکی ہے کہ آپ کے اردو مقالوں کی تعداد ہزاروں صفحات پر مشتمل ہے ، جو وقتاً فوقتاً مختلف موضوعات پر لکھے گئے ہیں، مثلاً : ”ہند کو ایک مرد کامل نے جگایا خواب سے “ یعنی ہندوستان تشریف لانے والے پہلے صحابی رسول ؓ۔یہ ایک محقق طویل مضمون ہے ،جسے سب سے پہلی با ر ہفت روزہ الجمعیة نئی دہلی نے مکمل شائع کیا ،اس کے بعد کئی دیگر اردو مجلوں میںبھی شائع ہوا ، ” شقاق بین الزوجین کی وجہ سے فسخ نکاح “ ” جدید مفطرات ِصوم اور اس کے احکام “۔ طہارت ونجاست میں تبدیلی ماہیت کے اثرات ۔“کرنسی نوٹ کی شرعی حیثیت ۔“ ”کھیل کود اور تفریح کی شرعی حیثیت ۔“ یہ مقالے فقہی موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔ ان مقالوں سے خالد نیموی کی فقہی بصیرت اور مسائل کے استخراج کی صلاحیت عیاں ہوتی ہے اورمسائل شرعیہ کو اردو ادب کے سانچے میں ڈھالنے کی لیاقت بھی مترشح ہوتی ہے ۔انشاءاللہ ان کے فقہی مقالات اردو زبان میں فقہی ر موز کا کام کریں گے۔

سوانح میں ” مفتی نسیم احمد قاسمی “ کی شخصیت کے تعلق سے بعض اہم گوشوں پر سند کی حیثیت سے یہ مضمون بھی انفرادیت کا حامل ہے ،جسے اردو عربی کے بلند پایہ ادیب مولانا نور عالم خلیل امینی استاذ عربی ادب دارالعلوم دیو بند نے اپنی کتاب ” پس مر گ زندہ “ میں ادارہ علم وادب افریقی منزل قدیم سے شائع کروایاہے۔بانی ہمدرد جناب حکیم عبد الحمید کے انتقال پر ہمدرد مجسم ہمدرد حقیقی کی بارگاہ میں “کے زیر عنوان ماہنامہ دار العلوم دیوبندمیں شائع ہوا۔ ان کے علاوہ ،آفتاب فقہ حضرت مفتی نظام الدین اعظمی ،اور مرتب فتاوی دار العلوم دیوبند حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین مفتاحی پر بھی متاثر کن مضامین ہیں ،جو ہفت روزہ نقیب پٹنہ میں شائع ہوئے ۔ بعض موضوعات تو ایسے ہیں کہ بطور ایک موضوع کے سب سے پہلے آپ نے باضابطہ اس پر قلم اٹھا یا اور مفصل اور مبسوط مقالہ تحریر فرماکر موضوع کاحق ادا کردیا ۔ان مقالات میں قابل ذکر یہ مقالات ہیں (۱)حضرت مولانا ابوالمحاسن سجادؒ اور تحریک خلافت ۔(۲) ادارہ حربیہ اور سول نافرمانی کی تحریک ۔مولانا سجادؒ کی مجاہدانہ زندگی کا شاہکار ۔(۳)حضرت مولانا منت اللہ رحمانیؒ اور جنگ آزادی میں آپ کی خدمات (۴) حضرت مولانا عبد الباری فرنگی محلیؒ اور تحریک خلافت۔حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی اعلی ذہانت اور علمی استحضار کے نمونے ۔یہ تمام مقالات بھی مستقل کتابوں میں شائع ہوچکے ہیں ۔ تاریخ میں ” علماءہند اور خدمت حدیث “ کے موضوع پر طویل تر مستند مقالہ ہے ، ماہنامہ دارالعلوم دیوبند سے مسلسل دوقسطوں میں شائع ہوا ،دوسری قسط اداریہ کے طورپرشائع کیا گیا ، جس پر آپ کو ماہنامہ دارالعلوم کے ایڈیٹرواستاذ حدیث حضرت مولانا حبیب الر حمٰن اعظمی مدظلہ کے ہاتھوں گراں قدر انعام سے بھی نوازا گیا ۔ اس سلسلے میں مزید خود صاحب ِتذکرہ کے مضمون کے اس حصے کو پڑھئے جو انہوں نے ” بیگوسرائے کی علمی وادبی روایات میں اردو کی حصہ داری “ کے موضوع پر ضلع مجسٹریٹ کے اشارے اور صدر ایس ڈی او کے تقاضے پرشعبہ رابطہ عامہ سے نکلنے والے سرکاری میگزین کے لئے لکھا۔یہ یادگار مجلہ یوم بہار تقریبات کے ضمن میںشائع ہونا تھا ۔خالد نیموی نے ڈی ایم موصوف کو آمادہ کیا کہ اس کا ایک حصہ اردو میں بھی شائع ہونا چاہیے۔ تاکہ جشن بہار مکمل ہوسکے، چنانچہ پہلی بار ہندی کے ساتھ اردو میں بھی یہ یاد گا مجلہ شائع ہوا ۔اس یادگار مجلے میں آپ نے لکھا تھا ۔
” بندہ محمد خالد حسین نیموی بھی تاریخ، سوانح، سماجی، تعلیمی،و فقہی موضوعات پر عربی اور فارسی زبانوں کے ساتھ اردو میں حسب توفیق لکھتارہتا ہے، اس کے مضامین ومقالات درجنوں کی تعداد میںملک وبیرون ملک ،کے باوقار رسائل ومجلات میںشائع ہوچکے ہیں،کئی عدد کتابیں بھی زیور طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں، جن میں خواتین کی عظمت اور اس کے حقوق اسلام کی نظر میں( شائع کردہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ) جمہوری نظام میں الیکشن سے متعلق مسائل، خدمت حدیث میں علماءہند کا حصہ، علامہ ظہیر احسن شوق نیموی، حیات اور کارنامے، تدریس میں تسہیل کی اہمیت اور اس کے لئے وسائل کا استعمال، تحقیق کا فن اور اس کا طریقہ کار، تفریح اور کھیل کود کی شرعی حیثیت، ہندوستان تشریف لانے والے پہلے صحابی رسول ﷺ، تفسیر اور اصول تفسیر،ایک تعارف،اور حادیث النواہی وغیرہ اہم ہیں۔ “ ( مقالات نیموی، ص: ۵)

اردو بہار کی دوسری سرکاری زبان ہے، لیکن اس کے دفاتر میں عام طور پر اردو کاچلن نہیں ہے ،خالد نیموی نے دفاتر میں اردو کے چلن کو عام کرنے کے لیے بارہا حکام بالا کو متوجہ کیا ،خوداپنے عمل سے اس کی مثال قائم کرنے کی کوشش کی ۔محکمہ اقلیتی فلاح کے تحت طلبہ ہاسٹل بیگوسرائے میںقائم ہے ۔جس کے سپرنٹنڈنٹ خالد نیموی ہیں ۔بطور سپرنٹنڈنٹ اس ہاسٹل کی تمام کاروائیاں اردو زبان میں انجام دلواتے ہیں،خود حکومت بہار کے پرنسپل سکریٹری کے نام جو ماہانہ رپورٹ بھیجتے ہیں وہ بھی اردو ہی میں لکھتے ہیں ،سارے اعلانات اردو میں آویزاں کیے جاتے ہیں ۔اور طلبہ جو انجینیرنگ ،پی جی ،گریجویشن ،انٹر وغیرہ درجوں سے تعلق رکھتے ہیں انھیں اردولکھنے پڑھنے کی ترغیب دی جاتی ہے ۔انھیں اردو سے قریب کرنے کے لیے اکثر اردو اخبارات منگوائے جاتے ہیں ؛اسی طرح لائبریری کے لیے بھی کثیر تعداد میں اردو کتابیں فراہم کی گئیں ۔
وفاق المدارس اسلامیہ امارت شرعیہ پٹنہ کی دعوت پر عربی مدارس کے تربیتی پروگرام میں ایک محاضر کی حیثیت سے انہوں نے مستقل شرکت کی ہے اور متعدد تدریسی موضوعات پر آپ نے تحریری محاضرے پیش کیے ہیں۔جن میںجامعہ ربانی منوروا شریف، سمستی پور اور جامعہ سراج العلوم سیوان میں تدریس میں تسہیل کی اہمیت اور اس کی لیے وسائل کا استعمال “،دار العلوم سجادنگر بیگوسرائے میں” منطق وفلسفہ کی تدریس کا طریقہ“ اور اور جامعہ فضل رحمانی بیلاہی سہرسہ میں”تفسیر اور اصول تفسیر کی تدریس “کے زیر عنوان محاضرے پیش کیے ۔ دھنباد کے دارا لعلوم سرکار ڈیہہ میں آپ کے محاضرے کاعنوان تھا : ”تحقیق کا فن اور اس کا طریقہ کار “ اس موضوع پر آپ نے اپنا مقالہ پیش کیا ، ارباب علم وفن نے اس کے فکری انداز اور باریک بینی کو مثبت ،سنجیدہ اور مو¿ثر قرر دیا۔اس میں وہ تحقیق کے مفاہیم کی تعیین کرنے کے بعد اقسام پر بحث کر تے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ تحقیق کے مختلف میدانوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو تحقیق کی دو قسمیں سامنے آتی ہیں( ۱) تجزیاتی تحقیق (۲) تاریخی تحقیق ۔لسانیات میں بھی دوقسمین اہم ہیں، زبانوں کا عہد بہ عہد ارتقا دیکھنا ،تاریخی لسانیات ہے اور کسی زبان یا بولی کاایک دور میںمطالعہ کرنا ،تجزیاتی تحقیق ہے۔موضوع سے ہٹ کر تحقیق کی دوقسمیں ہیں:
( ۱) سندی تحقیق (۲)غیر سندی تحقیق۔

سندی تحقیق وہ ہے جویونیورسٹیوںاور جامعات مین ڈگری کے حصول کے لئے کی جاتی ہے اور غیر سندی تحقیق ڈگریوںکے حصول کے لئے نہیں کی جاتی ہے اسے عام طور پرڈگری یافتہ ماہرین،اساتذہ یا اہلِ شوق کرتے ہیں۔سندی تحقیق کے لئے تین چیزیں لازم ہوتی ہیںجن کی وجہ سے وہ غیر سندی تحقیق کے مقابلے میں ناقص ہوتی ہے(۱) اس کے لئے مدت کا تعین ہوتا ہے ، جس کے اندر مقالہ مکمل کرنا ہے(۲)اس میں نگراں کی ضرورت ہوتی ہے(۳) اس تحقیق کو ممتحنو ں کے سامنے سے گذرنا ہے جب کہ غیر سندی تحقیق میںاسکالر بالکل آزاد ہوتا ہے اور اس کے لئے کوئی مدت متعین نہیں ہوتی“
(مقالات نیموی ص:۲ )

خالد نیموی کا قلم شروع سے رواں رہا ہے ، آج وہ نہ صرف اردو کے ممتاز قلمکاروں میں شمار کئے جاتے ہیں ،بلکہ اردو کی آبیاری کے لئے وہ انتھک کوشش بھی کر تے رہے ہیں،دارالعلوم دیوبند کی زندگی میں جب وہ درجہ چہارم پنجم کے طالب علم تھے ،انہوں نے مضمون لکھنا پڑھنا شروع کردیا تھا ،اردو ایڈیشن میں قومی آواز ایک بڑا اخبار تھا ،جس میں مختصرمضامین اور مراسلے برابر شائع ہوتے رہے ،مگر مادر علمی کے ترجمان میں ان کا سب سے پہلا مضمون ” اسلامی قانون کی جامعیت “ کے موضوع پر ”آئینہ دارالعلوم “ میں پہلی بار شائع ہوا تھا ، آج بھی بہت سے اہل ذوق، خالد نیموی کی رہنمائی سے صاحب ِطرز ادیب اور مضمون نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ہم درسوں کے علاوہ بھی ایک بڑی تعداد ان طلبا کی رہی ،جنہوں نے باضابطہ مضمون نویسی ، مقالہ نگاری اور اردو لکھنے پڑھنے کا شعور حاصل کیا ۔ دارالعلو م کے ماحول میں بیک وقت کئی عدد دیواری پرچوں کے آپ ایڈیٹر بھی ہوا کرتے تھے،جن میں الہلال ،شاہیں،النادی الادبی کاترجمان النھضہ اور سجاد لائبریری کا عربی ترجمان الفضیلہ شامل ہے؛ بلکہ الفضیلہ کے آپ بانی ایڈیٹر ہیں۔اس سے پہلے سجاد لائبریری کا کوئی عربی ترجمان شائع نہیں ہوتا تھا ۔اس پلیٹ فارم سے بھی آپ نے قلمی اصلاح کا زبر دست رجحان پیدا کیا اور درسیات کے علاوہ طلبا ءکو خارجی مطالعے کا ذہن بنا کران میں اپنے وقت کا صحیح استعمال کرنے کا احساس جگایا،اردو کے تئیں یہ ایک بڑااہم کام ہے جو عام طورپر نہیں ہو پاتا ہے یا کم لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول ہوپاتی ہے ،خالد نیموی کا امتیاز ہے کہ انہوں نے اردو کی پائدار آبیاری کے لئے شروع سے اس پہلو پر توجہ دی ،حالانکہ اہلِ فن اس دشوار گذار گھاٹی کے خطرات کو بخوبی جانتے ہیں کہ نئی پود کے نوک پلک کو درست کرنا اور اس کو اپنے عمل کا دیوانہ بنا دینا ،بہت سہل نہیں ہے ، اس کے لئے طویل تجربہ اور ایک مدت کار کی ضرورت ہوتی ہے، مگر خالد نیموی نے اپنے قلمی سفر کے بالکل ابتدائی دور سے ہی استاد گری شروع کردی تھی، جس کے نتیجے میں صرف ا حاطہ دارالعلوم میں ان کے قلمی شاگردوں کی تعداد سیکڑوں سے متجاوز ہے۔

قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ کا دارالعلوم الاسلامیہ کے قیام کے تعلق سے ایک خواب تھا کہ یہاں کے طلبا نہ صرف کتابی صلاحیت میں ممتاز مقام کے حامل ہوں، بلکہ وہ زمانے کے رمز شناس ہونے کے ساتھ ساتھ زبان وقلم میں بھی انفرادی صلاحیت کے مالک ہوں۔ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے انھوں نے خالد نیموی کو دار العلوم دیوبندکے معین مدرس رہتے ہوئے دارالعلوم امارت شرعیہ کے لیے منتخب کیا اور پھر صدر مدرس کے طور پر مقرر کیا ۔وہ اپنی فکری وفنی صلاحیت اور اپنے مضبوط قلم کے ذریعے امارت شرعیہ میں مستند مانے جارہے تھے ، انہوں نے حضرت قاضی صاحبؒ کے عزائم ونصب العین کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی غرض سے احاطہ دارالعلوم پٹنہ میں چند ہونہار طلبہ کو ساتھ لے کر ابتداءً ”ترجمان دارالعلوم“ کے نام سے ایک دیواری پرچہ نکالنا شروع کیا ،جس کا اجراءحضرت مولانا قاضی عبدالجلیل قاسمی قاضی شریعت پھلواری شریف پٹنہ اور جناب مولاناشاہ بدراحمد مجیبی ندوی صاحبان کے مبارک ہاتھوں عمل میں آیا۔جو طلبہ اس تحریک سے بہت زیادہ فیص یاب ہوئے ان میں مولانا محبوب عالم قاسمی گریڈیہوی ،(موجودہ معاون ایڈیٹر بحث ونظر حید ر آباد،مولانا فیض الحق قاسمی کٹیہاری ،صدر مدرس مدرسہ تحفیظ القرآن سمن پورہ پٹنہ ۔مولانا جعفر امام (شاعر )مولانا مفتی آفتاب عالم قاسمی مدرس دار العلوم الاسلامیہ، مفتی شہنواز قاسمی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

مضمون نویسی کی تحریک اور” پیام دارالعلوم “ کی مسلسل اشاعت نے طلبا ءمیں غیر معمولی حوصلہ عطاکیا ،پیام کے لئے مجلس ادارت میں ہونہار طلبا کے انتخاب ، ایڈیٹر ،نائب ایڈیٹر کی تعیین وغیرہ نے اردو نویسی کے تعلق سے نئی امنگ،نئے جوش و جذ بہ کا ساماحول تیار کردیا ،اس طرح مضمون نگاری کی طرف نیا رجحان بننا شروع ہوگیا اور بڑی تعداد میں لکھنے والے طلبا سامنے آگئے ،پیام کے محدود صفحات ناکافی ہوگئے اور مضامین کی اشاعت کے تعلق سے طلبا کا مسلسل اصرار روز بروز بڑھتا جارہا تھا ،ایسے میں ” پندرہ روزہ شاہین “ کی اشاعت کا فیصلہ ناگزیر ہوگیا ۔ اس حوصلے کے پیچھے ان طلبا کے لئے نعمت ِ غیر مترقبہ کے طور پر خالد نیموی جیسے مستند ،لائق و فائق صاحب قلم کی وہاں موجودگی اور ان کا تحریکی مزاج،طلباءسے ہمدردی اور اردو کے تئیں ان کی فکر مندی وغیرہ کا بڑا دخل رہا اس کے بعد اور کئی مجلہ کی اشاعت حسب ضرورت عمل میں لائی گئی ۔ اس تحریک کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ جہاں دوسرے بہت سے اداروں کو لکھنے پڑھنے والے افراد با آسانی دستیاب ہوئے ، وہیں خود اندرون ِدارالعلوم الاسلامیہ، ان چیزوں کی داغ بیل پڑ گئی ۔ دارالعلوم الاسلامیہ کی تاریخ جب مرتب ہوگی توتاریخ نویس، خالد نیموی کی ان عظیم کوششوں اور قربانیوںپر ضرور روشنی ڈال کر حضرت قاضی صاحبؒ کی روح کو سکون بخشنے کا فریضہ بھی انجام دیں گے۔

قابل ذکر ہے کہ طلبہ کی انجمن کو آپ نے ہی فقیہ ملت حضرت قاضی مجاہد الاسلام کے نام معنون کرتے ہوئے ”بزم قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ “رکھا ۔
خالد نیموی دو دہائی سے زیادہ عرصے سے باضابطہ درس وتدریس کی خدمت انجام دے رہے ہیں، درس وتدریس میں افہام وتفہیم کے لئے اردو کو انہوں نے ذریعہ بنایا ہوا ہے ، ایشیاءکی عظیم دینی مرکزی یونیورسٹی دارالعلوم دیوبند میں بھی دوبرس انہیں کلاس لینے کا موقع ملا ،جہاں انہوں نے ہزاروں طلباءکو اردو سےمستفید ہونے کا شرف بخشا۔ ریاست بہارمیں امام وفقیہ مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ سابق قاضی القضاة امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کا قائم کردہ ادارہ دارالعلوم الاسلامیہ پٹنہ میں بھی آپ نے اردو کی آبیاری کا سلسلہ جاری رکھا اور کوئی سات برس تک یہاں کے ماحول میں درس وتدریس سے لے کربحیثیت ایچ ایم اردوکے فروغ کے لئے کام کرتے رہے ہیں۔اپنے ضلع بیگو سرائے میں بھی مرکزی ادارہ مدرسہ بدرالاسلام میں رہ کر دسیوں سال سے درس وتدریس کا کا م زیادہ تر وہ ا ردو زبان میں ہی کررہے ہیں۔ان کی تدریسی خدمات میں،اردو کے تئیں صرف افراد سازی کے پہلو پرتجزیہ کریں توایک اندازے کے مطابق ایسے سینکڑوں افراد ہیں جواپنے اپنے طور پر ملک کے طول وعرض میں مختلف جہتوں سے ہزاروں افراد کو نہ صرف اردو سے جوڑنے کا کام کررہے ہیں ،بلکہ اردوکی شمعیں روشن کرنے اور اس کے فروغ کے لئے مثالی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس طرح خالد نیموی کے درسی فیضان کے نتیجے میں آج ہزاروں افراد، اردو کی اشاعت وحفاظت کی جد وجہد کرتے نظر آرہے ہیں۔

اردو میں جناب نیموی کے خطبات بڑے سلجھے ہوئے ہوتے ہیں، ان کے خطبات کا ایک خوبصورت پہلو یہ ہے کہ ذمہ دارانہ گفتگو ہوتی ہے،دمدار آواز کے ساتھ عام فہم اندازمیں کچھ دینے کے جذبے سے ان کی باتیں ہوتی ہیں،عام طور پر لوگ انُ کے خطاب کو نہایت دل چسپی اور اپنی اصلاح کے جذبے سے ہمہ تن متوجہ ہوکر سماعت کرتے ہیں، ان کا خطاب اردو اد ب کا مرقع ہوتا ہے ،فکری ،سماجی،اصلاحی اورعلمی مواد پر مشتمل،ان کی گفتگو سننے سے تعلق رکھتی ہے، علم وادب کی مجلسوں میں وہ دوران گفتگو ہنسنے ہنسانے اور تفریح طبع والے بیان سے مکمل پرہیز کرتے ہیں،خطاب کے معاملے میں وہ بڑے محتاط رویہ اپنانے کے قائل ہیں،اسی لئے وہ اکثر کم وقت میں بہت کام کی باتیں کرجاتے ہیں،وہ گفتگو میں عالمانہ شان کے منافی حلیہ بنانے اورغیر مستند باتوں یا کوئی منگھڑت کہانی، چٹکلے بیان کرنے کے قطعاً قائل ہی نہیں، بلکہ وہ کہتے ہیں کہ یہ طریقہ دینی مجلسوں کی عظمت کے بھی خلاف ہے ،یہی وجہ ہے کہ پیشہ ورانہ تقریر سے وہ خود بھی بچتے ہیں اور اپنے معاصرین کوبھی ہرممکن ایسی دینی مجالس ( جو شکلاًہنسی کی محفل معلوم ہو )سے احتیاط برتنے کی نصیحت کرتے ہیں۔اُن کا ماننا ہے کہ” بلاوجہ پیچ دار گفتگو سے بچا جائے ،گفتگو مربوط اور عام فہم ہونی چاہئے ،افہام وتفہیم کے معاملے میں، اردو سہل ترین زبان ہے ،اِس کا خوبصورتی کے ساتھ استعمال کیا جا نا چاہئے“ یہی وجہ ہے کہ ضلع بھر میں کہیں نہ کہیں ہر ہفتے باضابطہ ایسا ایک دو پروگرام ضرور منعقد ہوتا ہے جہاں اردو زبان میں اُن کی اطمینان بخش گفتگو ہوتی ہے ، جس میں علم وادب سے وابسطہ احباب کی ایک معتد بہ تعداد رہا کرتی ہے ،اِس طرح اگر دیکھیں گے تو خالد نیموی کے بیانات کا ایک طویل سلسلہ ہے ،جس میں وہ اردو کے لئے ، لکھتے پڑھتے دیکھا ئی دینے میںاپنے ہمعصروں سے آگے ہیں۔

اردو کی زمین کو ہموار کرنے کی غرض سے آپ نے ہمیشہ مقابلہ جاتی پروگرام کا انعقاد بھی کیا ہے اور اہل تعلق کو اس طرف توجہ دلانے کا مثالی کردار نبھایا ہے ،یہاں ضلع میں بھی آپ کی شہ پر سرکاری ونیم سرکاری اداروں میں متعدد بار اردوب کے فروغ کے لئے میٹرک اور انٹر سطح پرکار گل بھون میں اردوتحریری مقابلہ جاتی پروگرامس منعقد کرعصری اداروں میں زیر تعلیم نئی نسل کی حوصلہ افزائی کا تاریخی کا م کیا گیا اِسی طرح اردومیں تقریری صلاحیتوں کے فروغ کے لئے ” حب الوطنی اور اسلام“ جیسے اچھوتے موضوع پر طلباءمدارس کے درمیان یک روزہ شاندار مقابلہ اور حوصلہ افزا ءپروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں درجنوں مدارس کے ہونہار طلباءنے حصہ لے کر اردو اور اپنے وطن سے حب الوطنی کا شاندار مظاہرہ کیا۔جس کے اگلے روز تمام اخباروں نے نیموی صاحب کے بیان کے حصے کو ہیڈ لائن بنا کر مکمل تصویر کے ساتھ اپنے اپنے پیج پر پہلی خبر کے طور پر شائع کیا ۔اس کردار سے جہاں ارداں طبقے نے مبارک باد پیش کی وہیں اہل مدار س نے یہ کہتے ہوئے آپ کا شکریہ ادا کیا کہ” مفتی صاحب آپ نے اہل مدارس کی طرف سے ترجمانی کا حق اداکردیا ،جس کے لئے ہم آپ کے شکر گذار ہیں“۔

خالد نیموی کہنہ مشق خطیب بھی ہیں اوربلند پایہ مصنف ومؤلف بھی، وہ فقہ وفتاویٰ کے ماہر اگر ہیں تو کلیات وجزئیات کے دقیقہ سنج و ماہر فلکیات بھی ہیں،جہاں وہ شاندار نثرنگاری میں ممتاز مقام رکھنے کے ساتھ ہی اردو کے بال وپُر سے واقف کا ر ادیب ونقاد بھی ہیں، وہ کامیاب طریقے سے اردو کے صنفِ نظم میں بھی طبع آزمائی کر چکے ہیں،۔ایک طویل نظم کا چندبند ملاحظہ کیجئے اور اردو زبان میں اُن کی قادر الکلامی کا اندازہ لگائیے:

ہم نہ ہوں کیوں سر بسجدہ رب ِ کعبہ کے حضور
چوں کہ لازم ہے خرد پر، شکر ِ مولیٰ بالضرور

فضل ِمولیٰ ہے یقیناً کہ عطا اُس نے کیادخترِنو، نیک اختر، جو کے ہے نورِ صدور
اس کی آمد سے یقیناً ہوگیا روشن چمن
کھِل رہا ہے میرے دل میں، ہر گھڑ ی اعلیٰ سرور
نام تیرا رکھ رہے ہیں دل سے ہم نور الصباح
چوں کہ اس سے ہو رہا ہے ،پیار والفت کا ظہور
ہے شبِ سموار کو نسبت مبارک ذات سے
چوں کہ جلوہ گرہوئے ،اس آن میں میرے حضور
درحقیقت تو ہے ہم سب کے لئے خیروں کا باب ہے تو ہی آنکھوں کی ٹھنڈک ، ہے توہی دل کا سرور
ہو رہے ہیں نازاں تجھ پر سارے گلشن کے گلاب ان کے ہونٹو ں پر، دعا مچلا کرے گی تا نشور
ہے دعا خالد کی یہ باقی رہے جب تک جہاں
رکھیو مولا! نور کو بھی ہر مصیبت سے تو دور
ملک کے مؤقر شخصیات کے تآثرات:

آپ کی تحریری صلاحیتوں کا اعتراف بہتوں نے اپنے اپنے اعتبا سے نثر ونظم میں کیا ہے ان میں چند ایک کا مختصرتذکرہ یوں بھی کیا جا سکتا ہے ،خالد نیموی کی کتاب ” خواتین کی عظمت اور ان کے حقوق ۔ اسلام کی نظر میں “کے حوالے سے عربی و اردو دنیا کے ممتاز ادیب ونقاد ، صاحب طرز انشاءپرداز، صدر جمہوریہ ایوارڈ یافتہ عالم دین مولانا نور عالم خلیل امینی استاذادب دارالعلوم دیوبند اس کتاب کے مقدمے میں لکھتے ہیں : ” پیش نظر رسالے کی زبان از اول تا آخرایسی ہے کہ کسی پڑھنے والے کو ان شاءاللہ کسی طرح کے تعب اور تکان کا احساس نہ ہوگا اور موضوع سے متعلق معلومات از خود ذہن میں اتر تی اور قلب میں پیوست ہوتی چلی جائیں گی“۔اردو کے بہترین رائٹر اور کئی کتابوں کے مصنف ،ماہر سراجی مفتی اشتیاق احمد قاسمی زید مجدہ استاذ دارالعلوم دیوبند ، کتاب ِ مذکور پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :میری ناقص نظر میں اردو زبان میں اتنی مختصر ،جامع،تحقیق سے پُر، دلائل سے لبریز،اور زبان وادب کی چاشنی لئے ہوئے یہ پہلی کتاب ہے ،جس پر ” بقامت کہتر بہ قیمت بہتر “ کا محاورہ بالکل صحیح معنوں میںچسپاں ہوجاتا ہے ۔زبان وادب کے معیار پر پورے اتر نے کی سند اس کتاب کو حاصل ہے “ اردو کے مشہور ومعروف نقاد ،تبصرہ نگار صاحب ِقلم ڈاکٹر محمد قاسم فریدی صدرشعبہ اردو اورنگ آباد کالج نے، خالد نیموی کی کتاب” خواتین کی عظمت “پر شاندار تنقیدی تبصرہ تحریر فرمایا ،جو روزنامہ قومی تنظیم پٹنہ کے ۷۲اگست ۴۰۰۲ءکے شمارہ میں شائع ہوا۔وہ لکھتے ہیں :”اس کتاب پرایک نظر ڈالتے ہی فور ا ًاندازہ ہوجاتا ہے کہ مفتی خالد حسین نے قرآن کریم اور احادیث نبوی کے حوالہ سے ثابت کردیا ہے کہ خواتین کو شریعت محمدیہ نے ذلت وحقارت سے نکال کر عزت واحترام اور تعظیم وتوقیر کے بلند منازل تک پہنچادیا ہے ۔اور اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے مطابق اسلام کی نظر میںعورت مقام ومرتبہ کے لحاظ سے مردوں کے ہم پلہ ہیں۔اس کے بعد ایک ایک باب کا ڈاکٹر قاسم فریدی نے تجزیہ پیش کیا ہے ،اور اخیر میں لکھا ہے ”قصہ مختصر یہ کہ موجودہ مسلم معاشرہ کے پیش نظر جناب مفتی خالد قاسمی کا یہ تحفہ نادر اور انمول ہے ۔“
کتاب کے دوسرے ایڈیشن کے پیش لفظ میں امیر شریعت حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب امیر شریعت وجنرل سکریٹری آلانڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے یہ الفاظ بھی سند کا درجہ رکھتے ہےںاور روشن مستقبل کے لیے دعا کا درجہ بھی :”مقام شکر ومسرت ہے کہ میری خواہش پر ہونہار عالم دین مولانا مفتی محمد خالد حسین نیموی نے اس موضوع پر قلم اٹھایا اور دل نشیں انداز اور خوبصورت پیرایہ میں عورتوں کے اسلامی حقوق کو خالص کتاب وسنت اور دین فطرت کی روشنی میں مستند طریقہ سے مرتب کیا ۔اللہ ان کی سعی کو قبول فرمائے “
قاضی القضاة مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کی رحلت پر ماہنامہ” ترجمان دارلعلوم“ نئی دہلی نے قاضی صاحب مرحوم پر ایک خوبصورت اور جامع نمبر نکالا، جس میں ملک کے چنندہ قلم کاروں کو جگہ دی گئی تھی،اس تاریخی مجلے میں ایک ممتاز قلم کار اور قاضی صاحب کی شخصیت کے پرتو کے طور پر خالد نیموی صاحب کی بھی شرکت رہی ،آپ کا عنوان تھا ” قاضی مجاہدالاسلام قاسمی کی اعلی ذہانت اور علمی استحضار کے چند نمونے“ ہفت روزہ نئی دنیا دہلی میں اس خاص نمبر پر تبصرہ شائع ہوا ،میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب میںنے دیکھا کہ نئی دنیا کے مبصر بھی خالد نیموی کے قلم کے جادو سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور انھوں نے اس پر شاندار تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ: ” خالد حسین نیموی کا مضمون ندرت کا حامل ہے،جس میں قاضی صاحب کی ذہانت و فطانت ،بر جستگی اور علمی استحضار کے حسین نمونے پیش کئے گئے ہیں “۔(نئی دنیا دہلی ۶اکتوبر ۲۰۰۲ئ)

آپ کی ایک دوسری تصنیف ”جمہوری نظام میں الیکشن سے متعلق شرعی مسائل “کے مقدمہ میں مشہور انشاء پردازقائد ملت حضرت مولانا اسرار الحق قاسمی ؒسابق ایم پی تحریر فرماتے ہیں ”:مبار ک باد کے مستحق ہیں عزیزمکرم مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی جنھوں نے جمہوری نظام میں الیکشن سے متعلق شرعی مسائل نامی کتاب لکھ کر اپنی ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی نبھایا ۔ایسی کتاب کی کافی عرصہ سے شدید ضرورت محسوس کی جارہی تھی ۔صاحب کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ وہ جو بیان کرتے ہیں وہ دلائل کے ساتھ بیان کرتے ہیں ؛در اصل وہ وہ ایک لائق عالم دین ہیں ان کی قابلیت وصلاحیت کی بنیاد پر ہی انھیں دار العلوم دیوبندنے معین مدرس منتخب کیا تھا اور دار العلوم دیوبند کے بعد قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نے دار العلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ کی صدارت تدریس کے لیے منتخب کیا ۔کتاب کے عناوین اور جگہ جگہ سے مواد پر نظر ڈالنے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ الحمد للہ کتاب معلوماتی ہے، سلیقہ سے مسائل کو اٹھایا گیا ہے ۔پھر ان کا مدلل جواب دیا گیا ہے ۔ملت اسلامیہ کے افراد کے لیے اس کتاب کا مطالعہ اردو ادب کے حوالے سے بھی بے حد مفید ہے ۔“

خالد نیموی کے مضامین ومقالات ملک وبیرون ملک کے معیاری مجلات وجرائد میں تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے تھے ،اسی درمیان ایک’مضمون ”خواتین خیر کا سرچشمہ“ کے زیر عنوان ماہنامہ عالمی سہارا ۹اگست ۳۰۰۲ءکے شمارہ میں شائع ہوا ۔یوں تو اس مضمون سے ہزاروں لوگوں نے استفادہ کیا؛ لیکن :”قدر جوہر شاہ داند یا بداند جوہری“ ۔کے مطابق جب اس مضمون پر بھوپال کے عظیم علمی گھرانے سے تعلق رکھنے والی ذی علم شخصیت جناب مولانا ابوجنید احمد سعید نعمانی ندوی کی نظر پڑی، تو وہ خالد نیموی اور ان کے قلم کی جادو بیانی سے بہت متاثر ہوئے اور وہ اپنے کو نہ روک سکے اور پذیرائی کا ایک شاندار خط خالد نیموی کو لکھا:
آپ کا مکرمت نامہ سرفراز ہوا ،والا نامہ دیر سے ہی ملا اور مسرت سے ہم کنار کیا۔ یقین جانئے حد درجہ
مسرت ہوئی ۔کیوں کہ اس زمانے میں ایسی تحریر یں نظر آنا محال نہیں تو ناممکن ضرور ہوچلا ہے ۔آج کا
پڑھا لکھا طبقہ تعلیم یافتہ ضرور ہے ؛لیکن تہذیب وتمدن سے یکسر عاری ہے ۔آپ سعی پیہم ،فکر مسلسل اور کاوش دوام پر گام زن نظر آرہے ہیں ۔جن بزرگان دین کے ایماءواشراف میں کام کررہے ہیں لائق ستائش ہے ۔جن رسائل میں آپ کی تحریرات شائع ہوئی ہوں اگر آسانی سے میسر ہوں تو ارسال فرماکر مطالعہ کا موقع دیں ۔خادم دین متین ابو جنید احمد سعید نعمانی ۔مورخہ ۵۲ اکتوبر ۶۰۲ء

5 اکتوبر 2014 میں صدر جمہوریہ ہند کے ہاتھوں عربی اور فارسی اسکالر کی حیثیت سے آپ کونیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا ،دہلی سے وطن واپسی پر یہاں استقبال کے لئے مختلف تنظیموں اور اداروں کے پلیٹ فارم سے علم وفن کی مجلسیں سجائی گئی تھیں ،اس موقع پر اردو کے رمز شناس دانشور شاعرجناب ماسٹر ہارون الرشید معین مظفروی نے گلہا ئے عقیدت کے عنوان سے خالد نیموی کے علم وفن اور ان کی باوقار شخصیت پر اپنی عقیدت کا اظہار اس طرح کیا ہے:

علم کی شمع کو د شمن تیرگی کہئے
فکر وفن کی قندیل کو خا لدِ قاسمی کہئے
گفتگو کا سلیقہ جن کو خوب آتا ہے
وہی ہے ماہر افتا ء اُ سی کو نیموی کہئے

اسی نے نام روشن کردیا دینی ا دارے کا
کہ جس نے قوم وملت کو عطا کیا روشنی کہئے
اس پر ناز ہے ہم کو وہی ہے رشک کے قابل
ملا جن کو اعزاز صدر سے ان کو آفریں کہئے
زبانوں میں لطافت ہے صداقت ہی صداقت ہے
خطابت میں نزاکت کی بھری ہے شیرنی کہئے
عجب مضمون نگاری ان کی رسائل میں چھپی یارو
پڑھا ہے ہم نے بھی اکثر معین مظفروی کہئے

جب آپ ترکی کے شہر استنبول کی ایک بین الاقوامی علمی کانفرنس سے واپس تشریف لائے تو یہاں معہد عائشہ کھاتوپو ر بیگوسرائے میںایک شاندار استقبالیہ دیا گیا تھا، جس میں مولانا اعجاز ہاشمی نے اپنا خوبصورت کلام پیش کیا ،جسے سامعین نے نہ صرف پسند کیا بلکہ ان کے روشن مستقبل کے لئے ڈھیروں دعائیں دیں:
آپ کا تشریف لانا حضرتِ خالد حسین
رحمتوں کاشامیانہ حضرت ِخالد حسین
آپ آئے تو فضا نے مسکرا کر یہ کہا
آگیا موسم سہانا حضرت خالد حسین
اہل ہندکی طرف سے ہومبارک آپ کو
مل گیا سب کو بہا نا حضرت خالد حسین
مفتی عین ا لحق امینی اور علماء آپ کو
چاہتے ہیں والہانہ حضرت خالد حسین
اہل ایماں کی طرف سے ہو مبارک آپ کو
دین کی شمعیں جلانا حضرت خالد حسین
ہے دعا اعجاز کی ہو مرتبے کا آپ کے
معترف سارا زمانہ حضرت خالدحسین
تادم تحریر اپنے آبائی وطن بیگوسرائے میں ہی مختلف جہتوں سے اردو ادب کی خدمات کا سفر جاری ہے، خالد صاحب کے حوصلوں اور افکار وخیالات کی بلندیوںکو پڑھئے تو حرف حرف روشنی کا سا احساس ہوگا اور ان کے کردارو عمل اور اردو کی عظیم تر خدمات واثرات سے یوں گویا ئی کی صدا آئے گی:
میں کہاں رکتا ہوں عرش و فرش کی آواز سے
مجھ کو جانا ہے بہت اونچاحد پرواز سے

Exit mobile version