Site icon

معاشرہ میں بڑھتی ہوئی زنا بالجبر کی بیماری: اصل سبب تک پہونچنے کی ایک مختصر کوشش

معاشرہ میں بڑھتی ہوئی زنا بالجبر کی بیماری: اصل سبب تک پہونچنے کی ایک مختصر کوشش

✍️ حکیم محمد عادل خان

___________________

زنا بالجبر کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے، چند مہینے کی چھوٹی بچیوں سے لیکر بوڑھی خواتین تک کی عزتیں محفوظ نہیں ہیں، اور خواتین ہی کیا اب تو جانوروں کی عزتیں بھی سلامت نہیں رہیں، ہر دن جنسی زبردستی کا کوئی نیا واقعہ پیش آتا ہے، دس بارہ سال کے چھوٹے بچے ہوں یا ۷۰ سالہ کھوسٹ بوڑھے ہر طرح کے مرد اس گھناونے جرم میں ملوث ہیں، اور معاشرہ اس جنسی بے راہ روی پر شور و واویلہ کے سوا کچھ کرنے کو تیار نہیں، نہ ہی معاشرے کو اس جنسی بے راہ روی کے اصل اسباب کا ادراک ہے، اور جنہیں کچھ شد بد ہے وہ مصلحتا یا معاشرتی دباؤ کی وجہ سے اس موضوع پر کھل کر بات کرنے کو تیار نہیں ہیں ـ

برسوں پہلے معاشرہ یہ سمجھتا تھا کہ عورت کے چھوٹے کپڑے، اس کا رہن سہن زنا بالجبر کو دعوت دیتا ہے، اس نظریہ میں جنسی بے راہ روی کی کچھ نہ کچھ جھلک ضرور ہے لیکن زنا بالجبر کی اصل وجہ یہ نہیں ہے، کیونکہ موجودہ دور میں ستر پوش خواتین، گھر سے نہ نکلنے والی بوڑھی خواتین، اور چند مہینوں کی بچیاں یہاں تک کہ گائے، بکریاں تک محفوظ نہیں ہیں، اگر صرف چھوٹے کپڑے یا ننگی ٹانگوں اور پیٹ و پستان کا مسئلہ ہوتا اور جنسی کشش ہی بگاڑ کا اصل سبب ہوتا تو مذکورہ بالا افراد اس جنسی زیادتی سے محفوظ رہتےـ

زنا بالجبر کی جو اصل وجہ ہے وہ میری سمجھ کے مطابق انٹرنیٹ پر موجود مواد ہیں، انٹرنیٹ کا کوئی بھی خانہ اس گندگی سے پاک نہیں ہے، یہاں تک کہ دینی اداروں کی ویب سائٹس تک پر گندے ایڈز آتے ہیں ـ انٹرنیٹ اتنی گندگی سے بھرا ہوا ہے کہ اگر ہم ایمانداری سے کہیں تو ہم اپنے گھر والوں کے ساتھ چند ساعتوں تک اجتماعی طور پر کوئی چیز نہیں دیکھ سکتے، کسی نہ کسی پہلو میں کوئی نہ کوئی ایسی ویڈیو، ایسا ایڈ سامنے آہی جاتا ہے جو جنسی ہوس کو ابھارنے والا ہوتا ہے!

آپ یوٹیوب کھولیں اس میں دینی پروگرام سنیں لیکن شروعات میں یا درمیان میں آپ کو ایڈ دیکھنا ہوگا، اور ان ایڈز میں کوئی استثناء نہیں ہے، وہ کنڈوم کا ایڈ بھی ہوسکتا ہے یا صابن کا یا یا شیو کرنے والی مشین کا یا کسی بھی چیز کا، لیکن اس ایڈ کا جو سب سے لازمی جزء ہے وہ ہے ایک عورت جو چھوٹے کپڑوں میں اپنی جنسی اداؤں کے ساتھ اس پروڈکٹ کا پرچار کر رہی ہوتی ہےـ انسٹا گرام، فیسبک، اسنیپ چیٹ ہو یا کوئی دوسرا سوشل میڈیائی ایپ اس میں جنسی بے راہ روی کا سامان بھر بھر کے انسانی ذہنوں کو پروسا جارہا ہے، اور اس انٹرنیٹ کی پہنچ ہر انسان تک ہے، اب تو بچے بھی بغیر موبائل دیکھے کھانا نہیں کھاتے، چند برس بڑے ہوئے تو گیم کا شوق لگ گیا اور گیمنگ کی دنیا میں ایسے ایسے گیم ہیں جن میں کیریکٹر کے طور پر عورت کو رکھا گیا ہے اور اس کے کپڑے، اس کے ناک و نقشے اور دیگر جنسی اعضاء کو ایسا دکھایا گیا ہوتا ہے کہ ایک نابالغ بچہ بہت جلد بالغ ہوجائے!

جب ناپختہ ذہنوں کو جنسی بے راہ روی کی ٹیوشن ہر وقت دی جاتی رہے گی، انہیں ایسے ویڈیوز ملتے رہینگے جو انہیں وہ سب کرنے پر ابھارتے ہوں جو وہ دیکھ اور سن رہے ہیں تو ان کا ذہن اس چیز کو کرنے پر آمادہ ضرور کرے گاـ اس آمادگی اور نفسانی خواہش کی تکمیل کے جو بھی اسباب ہونگے وہ اس کے پیچھے جائیں گے، وہ سوشل میڈیا پر لڑکیوں کے انباکس میں گھسیں گے، وہ اپنے رشتہ داروں کے گھروں میں موجود بچیوں سے رابطہ کرینگے، یا پھر اسکول میں موجود کلاس میٹ لڑکیوں سے اس خواہش کی تکمیل کرنا چاہینگے، خواہش کی تکمیل آسانی سے ہوگئی تو ٹھیک ورنہ پھر وہ اپنے ہم جولیوں کو اس جنسی بے راہ روی میں کامیاب ہوتا ہوا دیکھینگے تو ان کے اندر ایک مسابقے کی کیفیت پیدا ہوگی، اور پھر یہ مسابقہ انہیں زنا بالجبر کی طرف لے جائے گاـ اور ایسا صرف بچوں کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ جوان اور بوڑھے بھی اسی طریقہ کار پر زنا بالجبر میں مبتلا ہورہے ہیں!

اب اس سے اگلے مرحلے کو دیکھتے ہیں، ویڈیوز میں جنسی عمل کے دوران کچھ چیزیں مخصوص ہوتی ہیں، مثلا چھوٹے کپڑے، شوخ لپسٹک، نین مٹکے، اور مخصوص ادائیں، اسی طرح خاص قسم کی میوزک اور شراب و کباب کا ماحول وغیرہ. جب انسان ان چیزوں کو دیکھتا اور سنتا ہے تو اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ یہ عمل اور یہ آواز جنسی تکمیل کے دوران ہوتا ہے، پھر جب وہی چیزیں کسی دوشیزہ میں دیکھتا ہے تو اس کے ذہن میں بیٹھا ہوا سبق اسے یاد آتا ہے اور وہ اسی ماحول کو دوہرانا چاہتا ہے جو اس نے ویڈیوز میں دیکھا ہوتا ہے، اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے واقعات اکثر اوقات کسی کالج یا کمپنی فنکشن کے بعد رونما ہوتے ہیں، اس کے پیچھے بھی یہی نظریہ کام کرتا ہے کہ جب انسان ویڈیوز اور فلموں میں اس طرح کے فنکشن کے بعد ہونے والے جنسی عمل کو دیکھ چکا ہوتا ہے تو اس کے تصور میں یہی ہوتا ہے کہ اس کے اپنے فنکشن کے بعد بھی یہی عمل وہ کر سکتا ہے، پھر جب اسے رضاکارانہ طور پر یہ موقع میسر نہیں ہوتا تو وہ نشے ور مدہوشی میں زنا بالجبر کی طرف بڑھ جاتا ہے!

زنا بالجبر کے دوسرے اسباب بھی ہوتے ہیں، مثلا خاندانی دشمنی، ذاتی رنجشیں یا کوئی مذہبی منافرت وغیرہ لیکن یہ سارے اسباب ہمارے مذکورہ اسباب کے مقابلے کم پیش آتے ہیں.

اگلا سوال یہ ہے کہ اس پر روک کیسے لگائی جاسکتی ہے، تو یہ لمبی بحث ہے اور اس کے بہت سے راستے ہوسکتے ہیں لیکن شاید بہت سی چیزوں کو اپنانے کے لئے ہمارا معاشرہ ابھی ذہنی بلوغ کی حد تک نہیں پہنچا۔

Exit mobile version