مسلمانوں کی ملک میں اوقات:
اور ان کے دست وگریباں ہونے کی داستان
✍️ جاوید جمال الدین
__________________
گزشتہ دو ہفتے میں ملک میں مسلمانوں کی پٹائی کے متعدد واقعات منظرعام پر آئے ہیں،جن میں موب لانچینگ،بیف کے نام پر ایک بزرگ کی چلتی ٹرین میں پٹائی،ہریانہ میں دوبنگالی مزدوروں کی گئو رکھشکوں کے ہاتھوں موت، یوپی میں اسکول کے 7سالہ مسلم بچے پر فرقہ پرست پرنسپل کی جانبداری،راجستھان، اترپردیش میں سرکاری بلڈوزر کارروائیاں اور سپریم کورٹ کے سخت رویہ کے بعد گجرات کے سورت شہر میں مسلم نوجوانوں کی معمولی سڑک کے بعد پولیس کے ذریعہ مبینہ پٹائی اور اُن کی دکانوں کو بلڈوزر سے مسمار کرنا شامل ہیں۔
ملک میں سرکاری مشینری اور محکمہ پولیس کو فوری انصاف کرنے کا درپردہ خفیہ حکم دینے کا شبہ ہوتا ہے،کسی بھی معاملہ میں مسلمان نام سامنے آنے پر بس اس کے عالیشان گھر کو بلانوٹس اور ہدایت گھنٹوں میں زمین بوس کردینااور قابل تعظیم عدالت عالیہ گائیڈنس لائنز بنانے میں پندرہ دن لگاتی ہے اور سورت پولیس اور انتظامیہ غریب مسلمانوں کے مکانات اور دکانیں بڑی دیدہ دلیری سے توڑ پھوڑ رہی ہیں،انہیں اس بات کا احساس بھی نہیں ہے کہ سپریم کورٹ میں مقدمہ زیر سماعت ہے ۔
مہاراشٹر میں گستاخ رسول رام گیری کی وزیراعلی شندے حمایت کرتے ہوئے اور بوناقد نتیش رانے مساجد میں گھس کر چن چن کر مارنے کی کھلی دھمکی دیتا ہے اور پولیس ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیتی ہے۔جو درج ہوتی ہیں،ان ہرکوئی کارروائی نہیں کی جاتی ہے۔
البتہ بی جے پی کے زیر اقتدار ریاست راجستھان میں پولیس اتنی چاک وچوبند نظرآتی ہے کی صرف واٹس ایپ پیغام ڈیلیٹ کرنے کے نتیجے میں ایک معلم کو گرفتار کرلیاجاتا،مگر افسوس صد افسوس نتیش رانے اور رام گیری کو متعدد ایف آئی آر درج ہونے کے بعد بھی پولیس نے انہیں بیان درج کرانے کے لیے پولیس نے اب تک طلب نہیں کیا ہے۔
دراصل ایک سرکاری اسکول کے پرنسپل کو امن میں خلل ڈالنے کے الزام میں اس وقت گرفتار کیا گیا جب اس نے گنیش چترتھی کی مبارکباد کے پیغامات کو حذف کر دیا تھا، جو لوگوں کی طرف سے واٹس ایپ گروپ پر پوسٹ کیے گئے تھے۔
گنپتی کی مبارکباد کو حذف کرنے پر لوگوں نے پرنسپل کی گرفتاری کا مطالبہ کیا اور پولیس سرگرم ظوگئی۔
دراصل راجستھان کے ضلع کوٹہ میں ایک سرکاری اسکول کے پرنسپل کو گنیش چترتھی کی تقریبات سے متعلق واٹس ایپ پر کئی پوسٹس ڈیلیٹ کرنے پر گرفتار کر لیا گیا۔پولیس کے مطابق لٹوری کے گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول کی کمیٹی کا ایک واٹس ایپ گروپ ہے جس میں گاؤں کے رہائشی بھی شامل ہیں۔
گاؤں کے رہنے والوں میں سے ایک نے ہفتے کے روز گروپ میں گنیش چترتھی کے موقع پر لوگوں کو مبارکباد دیتے ہوئے ایک پیغام پوسٹ کیا تھا۔ تاہم سکول کے پرنسپل شفیع محمد انصاری نے ایک ٹیچر کے پیغام کو ڈیلیٹ کر دیا اور تقریباً دو گھنٹے بعد اسی طرح کا پیغام بھی پوسٹ کیا، جسے پرنسپل نے بھی ڈیلیٹ کر دیا۔
اس کے بعد گاؤں والوں نے انصاری کی برطرفی اور گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج کیا۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر کارروائی کی یقین دہانی کرائی۔ گاؤں والوں نے پرنسپل کے خلاف شکایت درج کرائی۔
ان کی شکایت کی بنیاد پر پولیس نے ایف آئی آر درج کی اور انصاری کو علاقے میں امن خراب کرنے کے الزام میں گرفتار کیا۔جبکہ دوسری طرف گستاخ رسول نوپور شرما،جندال ،رام گیری،نتیش رانے اور سدرشن ٹی وی کا ایڈیٹر ومالک آزاد گھوم رہے ہیں اور انہیں سرکاری پشت پناہی حاصل رہی ہے۔
مسلمانوں کاحال!
ان سبھی معاملات میں کارروائی نہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو بتایاہے کہ تمہاری اوقات کیا ہے اور کتنی بھی طاقت لگادیں ،انہیں انصاف نہیں ملے گا۔خود مسلمانوں کی حالت زار انتہائی تشویشناک ہے،حال میں اترپردیش کا ایک ویڈیو وائرل ہوا ہے،جس میں مسجد کے انتظامات پر کنٹرول کرنے کے لیے دو گروپ دست وگریباں ہیں۔اور آزادنہ لاٹھی اور ڈنڈوں کا استعمال کررہے ہیں۔ممبئی میں بھی کئی مرتبہ مسلک اور مقتدیوں وٹرسٹیوں کے درمیان تصادم کے واقعات پیش آئے ہیں ۔ مجھے ایک پولیس افسر نے پوچھاکہ "غیر مسلموں کے تہوار کے جلوس کے مسجد کے سامنے سے گزرنے پر مسلمان لاؤڈ اسپیکر پر گانے اور ڈی جے وغیرہ کو مسجد کی بے حرمتی بتاکر بند کروا دیتے ہیں،لیکن مسجدوں میں آپسی تشدد پر انہیں کیااس کااحساس نہیں ہوتاہے۔” میں لاجواب تھا،مگر چیخ و پکار کرنے والوں کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی ہیں۔