Site icon

مودی کے مسلم مخالف اقدامات: گودھرا حادثہ سے موجودہ دور تک

مودی کے مسلم مخالف اقدامات: گودھرا حادثہ سے موجودہ دور تک

✍️ محمد شہباز عالم مصباحی

سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی

کوچ بہار، مغربی بنگال

___________________

نریندر مودی، جو بھارت کے موجودہ وزیر اعظم ہیں، ایک متنازع شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں، خاص طور پر مسلمانوں کے حوالے سے۔ 2001ء میں گجرات کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد سے، ان کے مسلم مخالف اقدامات نے کئی بار بین الاقوامی سطح پر بھی توجہ حاصل کی ہے۔ اس مضمون میں مودی کے مسلم مخالف کارناموں اور ان کے اثرات کا جائزہ لیا جائے گا۔

گودھرا حادثہ اور گجرات فسادات (2002ء):

مودی کے مسلم مخالف اقدامات کی ابتدا 27 فروری 2002ء کو گودھرا کے قریب ایک ٹرین میں آتشزدگی کے واقعے سے ہوتی ہے۔ اس حادثے میں 59 ہندو یاتری ہلاک ہوئے، اور اس واقعے کا الزام مقامی مسلمانوں پر عائد کیا گیا۔ اس کے بعد گجرات میں جو فسادات پھوٹ پڑے، ان میں تقریباً 1000 سے زائد مسلمان ہلاک ہوئے، اور ہزاروں بے گھر ہوئے۔

مودی پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ نہ صرف فسادات کو روکنے میں ناکام رہے بلکہ انہوں نے ہندو شدت پسندوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا نے ان کی حکومت کو مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث قرار دیا۔ اگرچہ بھارتی سپریم کورٹ نے بعد میں انہیں ان فسادات سے بری کر دیا، لیکن ان کے خلاف الزامات آج بھی برقرار ہیں۔

2014ء کے بعد کا دور: وزیر اعظم بننے کے بعد مسلم مخالف اقدامات:

2014ء میں وزیر اعظم بننے کے بعد مودی کی حکومت نے مسلمانوں کے خلاف متعدد پالیسیاں اپنائیں، جن کا مقصد مسلمانوں کو معاشرتی، اقتصادی، اور سیاسی طور پر پسماندہ کرنا ہے۔

1. گائے کے تحفظ کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنانا:

مودی حکومت کے دوران گائے کے تحفظ کے نام پر متعدد مسلمان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ گائے کا گوشت کھاتے ہیں یا گائے کی تجارت کرتے ہیں۔ اس کی آڑ میں ہندو انتہاپسند تنظیموں نے مسلمانوں کو نشانہ بنایا، اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

2. این آر سی اور سی اے اے:

مودی حکومت نے 2019ء میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (NRC) اور شہریت ترمیمی قانون (CAA) متعارف کرایا۔ ان قوانین کا مقصد مبینہ طور پر غیر قانونی تارکین وطن کو بھارت سے نکالنا ہے، لیکن اس کے تحت مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ اس اقدام کو مسلم دشمنی کا کھلا اظہار سمجھا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں ملک بھر میں احتجاجات کیے گئے اور اب تک کسی نہ کسی شکل میں احتجاجات ہو رہے ہیں۔

3. جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ:

5 اگست 2019ء کو مودی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا۔ آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی کے بعد، کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا اور وہاں کی مسلم اکثریت والے علاقے کو براہ راست دہلی کے کنٹرول میں لایا گیا۔ یہ فیصلہ کشمیری مسلمانوں کے حقوق اور ان کی شناخت کے خلاف ہے۔

4. مسلم مدارس اور دیگر اقلیتی اداروں پر حملے:

مودی حکومت مسلمانوں کے تعلیمی اداروں، جیسے مدارس، اور دیگر اقلیتی اداروں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ وقف امینڈمینٹ بل 2024 کے نام پر وقف بورڈز کی جائیدادوں پر ناجائز سرکاری قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے اور مدرسہ اصلاحات کے نام پر مدارس کو ہدف بنا رہی ہے۔

5. مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی:

مودی کی پارٹی، بی جے پی، کے اراکین اور ہندو انتہا پسند تنظیموں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات اور کاروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ ہندو راشٹر کے نظریے کے تحت مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی تیز کوشش کی جا رہی ہے۔

6. بابری مسجد کا قضیہ اور رام مندر کا قیام:

مودی حکومت کے دور میں 2019ء میں سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے متنازع مقام پر رام مندر کی تعمیر کے حق میں فیصلہ دیا۔ یہ فیصلہ مسلمانوں کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا، کیونکہ یہ جگہ تاریخی طور پر ایک مسجد کے طور پر جانی جاتی تھی۔ اس فیصلے کو بی جے پی اور ہندو تنظیموں نے اپنی بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا، جو مسلمانوں کے خلاف ایک اور اقدام تھا۔

7. "گھس پیٹھیا” کا بیان: مسلمانوں کو ملک دشمن قرار دینا:

مودی نے اپنی تقریروں میں بارہا مسلمانوں کو "گھس پیٹھیا” یعنی در انداز کہا ہے، جو کہ ایک شدید اشتعال انگیز اور نفرت انگیز بیان ہے۔ اس طرح کے بیانات کا مقصد مسلمانوں کو ملک دشمن اور بھارت کے لیے خطرہ قرار دینا ہے۔ ایسے بیانات کے ذریعے مسلمانوں کی وفاداری مشکوک بنائی جاتی ہے اور انہیں بھارتی معاشرے میں الگ تھلگ کرنے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے۔

8. انتہا پسندی کے عظیم ترجمان یوگی آدتیہ ناتھ کو وزیر اعلیٰ بنانا:

یوگی آدتیہ ناتھ، جو کہ ہندو توا کے ایک پرجوش حامی اور مسلم مخالف بیانات کے لیے مشہور ہیں، کو 2017ء میں اتر پردیش کا وزیر اعلیٰ بنایا گیا جو کہ اب تک وزارتِ اعلیٰ کی کرسی پر قابض ہیں۔ یوگی آدتیہ ناتھ کا ماضی مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت پر مبنی رہا ہے، اور ان کی حکومت میں مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کے دور حکومت میں کئی ایسے قوانین بنائے گئے جن کا مقصد مسلمانوں کو ہدف بنانا ہے، جیسے کہ "لو جہاد” کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنانا۔

9. امیت شاہ کو داخلہ وزارت دینا: سخت گیر پالیسیاں:

مودی نے امیت شاہ کو بھارت کا وزیر داخلہ بنایا، جو کہ بی جے پی کے ایک اہم اور متنازع رہنما ہیں۔ امیت شاہ کی قیادت میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (NRC) اور شہریت ترمیمی قانون (CAA) جیسے متنازع قوانین بنائے گئے، جنہوں نے مسلمانوں میں شدید خوف و ہراس پیدا کیا ہے۔ ان قوانین کا مقصد مسلمانوں کو بے وطن کرنا اور ان کے آئینی حقوق کو کمزور کرنا ہے۔

10. معروف مسلم شخصیات پر جھوٹے مقدمات:

مودی حکومت کے تحت کئی معروف مسلم شخصیات پر جھوٹے مقدمات عائد کیے گئے۔ مولانا کلیم صدیقی، عمر گوتم، اور عمر خالد جیسے افراد کو جھوٹے الزامات میں ملوث کر کے جیلوں میں ڈال دیا گیا اور انہیں سخت سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا اور بعض اب تک کر رہے ہیں۔ مولانا کلیم صدیقی کو ضمانت ملی تھی، لیکن لکھنؤ کی ایک عدالت نے پھر انہیں اور ان کے بارہ ساتھیوں کو جبرا تبدیلیِ مذہب کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی ہے، جبکہ دیگر چار افراد کو دس سال کی سزا سنائی ہے۔ ان کیسوں میں مودی حکومت پر تنقید کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین اور مسلم رہنماؤں کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔

خلاصہ:

خلاصہ یہ کہ نریندر مودی کی قیادت میں ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کی لہر میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کے اقدامات نے بھارتی مسلمانوں کو نہ صرف معاشرتی، اقتصادی، اور سیاسی طور پر پسماندہ کیا بلکہ ان کی جان و مال کو بھی شدید خطرات میں ڈالا ہے۔ گودھرا حادثے سے لے کر اب تک، مودی کی سیاست نے بھارت میں سیکولرزم اور جمہوریت کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ مسلمان آج بھی مودی حکومت کے تحت خوف اور عدم تحفظ کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔

یہ واضح ہے کہ مودی کی سیاست اور حکومت نے بھارت کی مسلم آبادی کو نقصان پہنچانے کے لیے کئی حربے اپنائے ہیں، اور یہ سلسلہ تا ہنوز جاری ہے۔

Exit mobile version