Site icon

ہاں! راجیش مسلمان نہیں تھا

ہاں! راجیش مسلمان نہیں تھا

✍️معصوم مرادآبادی

__________________

یہ کوئی 35برس اُدھر کا واقعہ ہے۔ اکتوبر1989کے اواخر میں یوپی کے شہر بدایوں میں خوفناک فساد پھوٹ پڑا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ اترپردیش اسمبلی میں اردو کو ریاست کی دوسری سرکاری زبان بنانے کا بل پیش ہوا تھا۔کانگریس اقتدار میں تھی اور وزیراعلیٰ کی کرسی پر نارائن دت تیواری براجمان تھے۔ اسمبلی میں اردو کابل پیش ہوتے ہی فرقہ پرست اور فسطائی طاقتیں سڑکوں پر نکل آئیں۔ ان کا نعرہ تھا
”اردو تھوپی لڑکوں پر تو خون بہے گا سڑکوں پر“۔
اردو کی مخالفت میں سب سے زیادہ شر انگیزی بدایوں میں ہوئی اور وہاں اردو کے خلاف انتہائی اشتعال انگیز نعروں کے ساتھ جلوس نکالا گیا، جس نے بعد کو ایک بھیانک فساد کی شکل اختیار کرلی۔ تقریباً پچاس بے گناہ افرادہلاک ہوگئے۔ ہم اس فساد کی رپورٹنگ کرنے کے لیے بدایوں کی طرف چل پڑے۔ انگریزی روزنامہ ”ٹیلی گراف“ کے سینئر رپورٹر یووراج گھیمری اور فوٹو گرافر راجیش کمار ساتھ تھے۔ پہلے ہم بریلی پہنچے اور وہاں سے بدایوں کی طرف روانہ ہوئے۔ شہر میں کرفیو لگا ہوا تھا اور حالات انتہائی کشیدہ تھے۔ پولیس نے ہمیں تنبیہ کی کہ ان حالات میں فسادزدہ علاقوں میں جانا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ مگرہمیں اپنا کام کرنا تھا۔ جہاں خطرہ زیادہ ہوتا ہے وہیں ہم اخبارنویسوں کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔ بہرحال ہم کرفیو پاس بنوانے کے بعد بدایوں کی سرحد پر پہنچے تو پولیس نے ہمیں روک لیا۔ ہم نے انھیں کرفیو پاس دکھایا مگر ایک پولیس اہل کار نے راجیش کمار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ”انھیں یہیں چھوڑ جائیں۔ ان کو خطرہ زیادہ ہے۔“ہم نے کہا کیوں؟ توپولیس افسر نے کہا کہ یہ مسلمان ہیں اور حالات بہت خراب ہیں۔ دراصل راجیش کے چہرے پر گھنی داڑھی تھی اور وہ شکل سے مسلمانوں جیسا نظر آتا تھا۔ میں نے پولیس افسر سے اپنا تعارف کرایا کہ مسلمان تو میں ہوں یہ تو راجیش ہے۔ کچھ دیر کی جھک جھک کے بعد ہم تینوں بدایوں میں داخل ہوئے۔ فسادزدہ علاقوں کا دورہ کیا۔ مورچری میں لاشوں کے انبار دیکھے اور شام تک اپنی رپورٹنگ مکمل کرکے ہم لوگ بریلی واپس آگئے۔ رات کو ایک ہوٹل میں قیام کیا اور صبح دہلی کے لیے روانہ ہوگئے۔ راجیش کی کھینچی ہوئی دردناک تصویریں یووارج گھیمری کی تفصیلی رپورٹ کے ساتھ ”ٹیلی گراف“،’’روی وار“ اور”سنڈے میگزین‘‘کے علاوہ میری رپورٹ کے ساتھ ہفتہ وار "نئی دنیا” میں شائع ہوئیں۔ اس کے بعد راجیش نے داڑھی صاف کرادی۔ کیونکہ خطرہ بڑھ رہا تھا۔ ایودھیا کی تحریک اپنے شباب پر تھی۔فساد روز کا معمول بن چکے تھے۔ راجیش اپنے کیمرے سے ان کی رپورٹنگ کرتا رہااور اس کا نام دہلی کے اہم فوٹو گرافروں میں شامل ہوگیا۔اس سے اکثر پریس کلب یا پارلیمنٹ میں ملاقات ہوتی تو میں اسے ”مسلمان“ کہہ کرچھیڑتا تھا۔ وہ خوب لطف لیتا اور کبھی قہقہے بھی لگاتا۔ اسی راجیش نے کل شام دہلی کے ایک اسپتال میں آخری سانس لی اور ابھی ابھی نگم بودھ گھاٹ پر اس کی آخری رسومات ادا کی گئی ہیں۔ میں اس کی روح کی شانتی کے لیے دعاگو ہوں۔ ایک بہترین دوست اور بہترین انسان کی جدائی کا غم دیر تک ستائے گا۔

Exit mobile version