Site icon

برقی مواصلاتی آلات اور دنیا کا مستقبل

برقی مواصلاتی آلات اور دنیا کا مستقبل

✍ سلمان فاروق حسینی

____________________

لبنان اور شام میں لگ بھگ 5/ہزار پیجرز حملوں کے بعد الیکٹرانک مواصلاتی آلات جیسے وائرلیس لیپ ٹاپ ریڈیو کمپیوٹر اور جی پی آر ایس کے ذریعہ سائبر اٹیک کرکے ہزاروں دھماکے کئے گئے جس میں دو بچوں سمیت 40 کے قریب لوگ شہید ہوچکے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہیں جن میں بیس سے پچیس سال کی عمر کے نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، اس سانحہ کے بعد بی بی سی لبنانی اور ایرانی میڈیا رپورٹس کا خلاصہ یہ ہے کہ بیروت میں بی بی سی رپورٹرز کے سوال پر ایک 45/ سالہ خاتون نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ہم اس سے اور زیادہ مضبوط ہوں گے، جس کی ایک آنکھ ضائع ہوئی ہے وہ دوسری کے ساتھ لڑے گا، ہم سب ساتھ ہیں، رپورٹرز نے ایک نوجوان سے سوال کیا کہ کیا وہ کسی زخمی ہونے والے کو جانتا ہے؟ نوجوان نے جواب دیا کہ یہاں ہر کوئی ہر کسی کو جانتا ہے، یہ تکلیف بہت زیادہ ہے، جسمانی بھی اور دلی بھی، لیکن ہم اس کے عادی ہیں اور ہم مزاحمت جاری رکھیں گے، بی بی سی نمائندوں سے لوگوں نے صاف کہا کہ یہ دھماکے انسانیت کے خلاف بہت بڑا جرم ہیں اور اس سے ان کی مزاحمت و عزم مزید مضبوط ہوں گے، یعنی مزاحمت اور لبنانی عوام کے مورال اور بلند ہوچکے ہیں، رپورٹرز نے جب اس معاملے پر تل ابیب میں ایک سابق اسرائیلی افسر سے رابطہ کیا تو اس نے تلمود کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایسے وقت میں سمجھدار افراد خاموش رہتے ہیں، امریکہ نےصفائی دی ہے کہ اس میں ہمارا ہاتھ نہیں ہے جبکہ خود متاثرین تک نے اس پر اس بابت الزام نہیں لگایا ہے، بھارتی میڈیا کے حوالے سے یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اس سائبر اٹیک سے قبل اس امریکی جنگی جہاز نے عرصہ دراز بعد اڑان بھری ہے جس میں ہر قسم کی الیکٹرانک ڈیوائسز کو ہیک کرنے کی صلاحیت موجود ہے، ایک بھارتی میڈیا کا اینکر پرسن چیخ پڑا کہ اس قسم کے واقعے نے پوری دنیا کی سکیورٹی ایجنسیوں کے لئے نیا چیلنج کھڑا کر دیا ہے اور کوئی بھی محفوظ نہیں ہے، یہ کسی بھی ملک کو بلیک میل کرنے کا آسان حربہ ہے۔

بی بی سی کے پال ایڈمز کے تجزیئے کا بنیادی پہلو یہ ہے کہ اس پر کوئی شک نہیں کہ ایک بڑی تعداد میں حزب اللہ کے اراکین ان حملوں میں متآثر ہوئے ہیں، اب وہ پہلے سکیورٹی کی اس ناکامی کی وجوہات کو شناخت کریں گے، پھر حزب اللہ کی جانب سے انتقامی کاروائیوں میں شاید تھوڑا وقت لگے لیکن کاروائیاں ضرور ہوں گی، اس قسم کے حملوں کا اقدام اس بات کو ممکن بناتا ہے کہ اسرائیل لبنان پر کوئی بڑا حملہ کرنے جا رہا ہو یا پھر اسرائیل کو خطرہ ہو کہ تنظیم حزب اللہ اسرائیل پر کوئی بڑا حملہ کرنے میں پہل کرنے والی ہے، بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اس قسم کے حملوں سے تبدیلی آئے گی؟ تو جواب ہے کہ ہرگز نہیں، تمام حقائق کو مدِنظر رکھنے کے باوجود بھی کوئی یہ پیش گوئی کرنے سے قاصر ہے کہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان القدس تنازعہ مستقبل میں کیا رُخ اختیار کرنے والا ہے، تازہ اطلاعات کے مطابق حزب اللہ نے اسرائیل پر دوہرے اٹیک کا آغاز کر دیا ہے جس کی نوعیت کس قسم کی ہے اس بارے میں کوئی اطلاعات نہیں ہیں، ایران نے بھی اقوامتحدہ میں اسماعیل ہانیہ کے بعد لبنان میں ایرانی سفیر پر حملے کے جواب کا دوسرا قانونی حق محفوظ رکھنے کا اعلان کردیا ہے، قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد سے پچھلے کچھ ماہ تک اسرائیل نے خلیج فارس سے خلیج عدن کے درمیان 14/ایرانی بحری جہازوں کو نشانہ بنایا، اس کا جواب دیتے ہوئے ایران نے 12/اسرائیلی جہازوں کو ٹارگیٹ کیا جس کے بعد چند ہفتوں ہی قبل اسرائیلی عہدیداروں نے کہا ہے کہ اب بحری لڑائی کو بند کردیا جائے، اس کا واضح مطلب ہے کہ لڑائی ایک محاذ پر رکے گی تو دوسرے پر شروع ہوجائے گی یعنیٰ جنگ بندی کا کوئی سوال ہی نہیں ہے بلکہ ایران یا اسرائیل میں سے ایک کے خاتمے تک جنگ آگے بڑھے گی اور وسیع تر ہوگی کیونکہ پوری دنیا کی عسکری طاقت دو حصوں میں منقسم ہوچکی ہے۔

الیکٹرانک آلات میں دھماکوں کے تعلق سے میڈیا پر بہت ساری باتیں کہی جارہی ہیں لیکن جہاں تک مجھے فزیکس اور کمیسٹری کا ٹوٹا پھوٹا علم ہے اس کے مطابق بنا کوئی دھماکہ خیز مواد نصب کئے صرف کسی بھی قسم کے سگنل کے ذریعہ وائرس ویوز سپیم یا اس جیسی کوئی چیز بھیج بیٹری میں موجود ڈی سی کرنٹ کے الیکٹرانز کو تیز رفتاری دے کر آلات میں لگے بنیادی ڈائیوڈ ٹرائیوڈ کیپسیٹر آئی سی و دیگر پارٹس کو انتہائی گرم کیا جاسکتا ہے جس سے ان پرزوں میں دھماکہ خیز مادہ جیسا مہلک دھماکہ ممکن ہے، چونکہ اب استعمال ہونے والی مقبول لیتھیم بیٹری میں ڈسچارج/استعمال ہوتے وقت الیکٹرانز اینوڈ (منفی) سے کیتھوڈ (مثبت) کی طرف چلتے ہیں اس لئے نیٹورک سے نہ جڑے ہوئے الیکٹرانک آلات میں بھی مختلف خاص طور سے گاما شعاؤں کا استعمال کرکے یہ عمل ممکن ہے یعنیٰ لیتھیم خود دھماکہ خیز مواد نہیں بنے گا لیکن دھماکے کی وجہ بنایا جاسکتا ہے، بند الیکٹرانک آلات پر اس قسم کے حملوں کے اثرات کے امکانات اس لئے کم ہیں کہ گاما شعاؤں کی بارش لہر کی طرح تیزی سے آتی اور چند سیکنڈ میں یکسر ختم ہوجاتی ہے، بند بیٹریز کو ہتھیار جیسا ایکٹو کرنے کے لئے اس بارش کو لگاتار بھیجنا پڑسکتا ہے جو انسانوں جانوروں اور نباتات کو بھی واضح طور پر متآثر کرے گا اس لئے اس میں کھلم کھلا پکڑے جانے کا خطرہ ہے لیکن لیتھیم بیٹری والے بند آلات بھی محفوظ نہیں ہیں، سائنس کی دنیا میں لگ بھگ چوتھائی صدی سے ہتھیار کی طرح استعمال کے لائق سخت گاما شعاعوں پر مکمل کنٹرول کی ہوڑ سائنس کے کسی ادنیٰ طالبعلم تک سے پوشیدہ نہیں ہے جو ممکن ہے کہ حاصل کرلی جاچکی ہو، اس پر ہالی ووڈ کئی دلچسپ فلمیں بنا چکا ہے جو محض تصورات نہیں ہیں، گاما ویوز کی ایک بھیانک خاصیت یہ ہے کہ یہ منفی ہوتی ہے اور اسے صرف مخصوص آلات میں الیکٹرانز ہی کی مدد سے پکڑا جاسکتا ہے بہ صورت دیگر نہیں اور الیکٹران بھی منفی ہوتا ہے، گاما شعاؤں کو روکنا صرف سیسہ کی دیوار سے ممکن ہے بقیہ ہر دھات سے یہ آرپار ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ اسے منعکس بھی نہیں کیا جاسکتا، میرے خیال میں ڈی سی کرنٹ اے سی کرنٹ سے زیادہ طاقتور اور خطرناک ہوتا ہے لیکن عام طور پر لوگ اے سی کرنٹ کو طاقتور اور خطرناک سمجھتے ہیں، میں تو ہارپ جیسی ٹیکنالوجی کو بھی ناممکنات یا پروپیگنڈا گمان نہیں کرتا، اگر کسی نے محض انٹرمیڈیٹ تک ہی فزیکس اور کمیسٹری ڈھنگ سے پڑھی ہے تو وہ بخوبی یہ جانتا ہے کہ ہر دھات میں موجود الیکٹرانز پروٹانز اور نیوٹرانز کے آربٹ میں چھیڑ چھاڑ کتنے بھیانک نتائج خارج کرسکتی ہے، میرے پاس پیلے رنگ کا ایک قدیم پیجر تھا جو بڑا عزیز تھا، ایام علالت میں دھیان نہیں دے سکا اور چند ہفتوں قبل ہی یاد آیا تو علم ہوا کہ وہ گم ہوچکا ہے۔

سابقہ ملازمت کے دوران اس کمپنی کے جی ایم صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ بھیا یہ جو ہمارے ہاتھ میں موبائیل فونز ہیں نا، یہ ہماری جیبوں میں پڑے چلتے پھرتے چھوٹے چھوٹے بم ہیں تو اسٹاف اس بات پر حیرت کرتا اور کئی ہنستے تھے، ردعمل میں وہ انتہائی اطمینان اور آرام سے کہتے کہ جس دن یہ پھٹیں گے تب سمجھ میں آئے گا، آج سات آٹھ سالوں میں ہی یہ ثابت ہوگیا کہ وہ درست تھے، مختصر یہ کہ اس تخریب کاری نے جنگوں کو ایک نئی سمت اور اس نظریہ کو بے پناہ تقویت دے دی ہے کہ دنیائے انسانیت اپنی تہذیب و ٹیکنالوجی کے اس مقام پر آگئی ہے جہاں سے زوال ہوجاتا ہے اور اس کا آغاز ہوچکا ہے، یعنیٰ جس طرح طوفان نوح مہاجل پلاون نینوا عاد ثمود مآرب پومپئی مہابھارت راون ودھ جیسی سچی یا میتھالوجیکل داستانیں ہیں اسی طرح ہماری جدید گلوبل تہذیب و ٹیکنالوجی بھی داستان بننے کی جانب گامزن ہوچکی ہے، والد محترم ڈاکٹر سید ہارون حسینی علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ جتنی ٹیکنالوجی بھارت میں محفوظ ہوسکتی ہے اس میں کی قدیم کے باقی رہنے کے امکانات ہیں اور مکمل دنیا سے موجودہ ٹیکنالوجی کا خاتمہ ہو جائے گا، بیس سالہ امریکہ افغان جنگ، 2012ء کے بعد ہونے والی مشرق وسطیٰ کی خانہ جنگی اور لڑائیاں، روس ایران اتحاد اور یوروپ میں یوکرین جنگ، نیز حالیہ القدس تنازعہ میں شامیوں (موجودہ لبنانیوں) کے ساتھ عراقیوں اور یمنیوں کی عسکری مداخلت اور ٹیکنالوجی کے خاتمے کا آغاز وغیرہ ان کی پیش گوئیاں جس سرعت سے پوری ہو رہی ہیں اس کے مطابق فی الحال مجھے اس بات کا امکان ہوچکا ہے کہ وہ دن بھی غالباً دور نہیں جب ہم آپ میں کے بہت لوگ ابراہیمی مذاہب کے مطابق مہدی و عیسیٰ علیہم السلام اور آریہ مذہب (یعنیٰ سناتن و مجوس) کے مطابق کلک اوتار و آخری نجات دہندہ کو دیکھیں گے، سوال یہ ہے کہ کیا خدا کا وہ مقررہ وقت آپہنچا ہے کہ جب دنیائے انسانیت قتل ہابیل بن آدم سے پہلے کے اس سنہرے دور میں داخل ہوجائے گی جس کی پیشین گوئیاں تمام آسمانی مذاہب میں موجود ہیں، کیا اب مکمل کرہ ارض پر آریہ مذہب کے مطابق اس سورن یگ یا رام راج اور ابراہیمی مذاہب کے مطابق کنگڈم آف ہیوین یا حکومت الہیہ کا نفاذ ہوگا کہ جہاں خالق کائنات کے حضور ایک سجدے کی قیمت دنیا ومافیہا سے قیمتی ہوجائے گی۔

Exit mobile version