Site icon

حقیقت خرافات میں کھوگئی

حقیقت خرافات میں کھوگئی

✍️سید سرفراز احمد

________________

کسی بھی قوم کا اصل سرمایہ نوجوان ہوتے ہیں تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے کہ دنیا میں جب کبھی بھی انقلاب برپا ہوا اس کی اصل روح اور طاقت نوجوان ہی تھے اگر چہ کہ وہ نوجوان تربیت یافتہ ہو ورنہ سروں کے سمندر سے دنیا کو فتح کرنا تو بہت دور کی بات ہے خود اپنے آپ کا قد بھی اونچا کرنا مشکل ترین کام ہے ایک معصوم بچے کی اصل تربیت گاہ ماں کی گود اور گھر کا ماحول ہوتا ہے وہ جیسی تربیت اور ماحول پائے گا وہ اسی نہج پر اپنی عمر گذارے گا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ماں کا کردار اولاد کی تربیت کے حق میں کتنا اہم ہے اگر چہ وہ ماں تعلیم یافتہ ہوتو یہ اور اچھی بات ہوگی لیکن مائیں غیر تعلیم یافتہ ہوکر بھی کردار و تربیت کی وہ خوشبو بکھیرتی ہے کہ وہ ایک ماں ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین استانی بھی ہوتی ہے ایسی ماؤں کے بھی ڈھیر سارے واقعات تاریخ میں درج ہیں جن کی تربیت نے انقلابی جان باز بنائے ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آج کا نوجوان غیر تعلیم یافتہ نہیں ہے لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ آج کا نوجوان تربیت یافتہ نہیں ہے تعلیم ہنر مند بناتی ہے تربیت کردار کے جوہر سکھاتی ہے آج کے مسلم معاشرے کے نوجوانوں میں اخلاقی تربیت کا سب سے بڑا فقدان نظر آرہا ہے وہ تعلیم سے تو ڈگریوں کی فہرست گنواسکتا ہے لیکن اخلاق و کردار کی خوشبو سے بالاتر ہوکر اگر آج کے نوجوان سے یہ سوال پوچھ لیا جائے کہ وہ دنیا میں سب سے ذیادہ محبت کس سے کرتا ہے وہ لازماً یہ کہے گا اللہ اور اسکے رسول ﷺ سے پھر والدین اقرباء و دیگر لیکن جب کردار اور اخلاق سے اس پیمانے کو ناپا جائے گا تو اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت کے جو تقاضے ہیں کیا اس غیر تربیت یافتہ نوجوان میں نظر آئیں گے؟کیا اخلاق کے گن اس کے اعمال سے جھلکیں گے؟

یقیناً دنیا کا ہر مسلمان اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے سب سے ذیادہ محبت کرے گا حتی کہ ایک شرابی مسلمان کے سامنے بھی جب ذکر نبیﷺ آئے گا تو وہ بھی نشے سے باہر آجائے گا چونکہ حب رسولﷺ میں اللہ نے ایک کشش رکھی سری نگر کی علمی و معتبر شخصیت غلام نبی کشافی نے ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے بتایا کہ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی نے اپنی کتاب مجھے ہے حکم ازاں میں اختر شیرانی کا ایک واقعہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ جب اختر شیرانی نشے میں دھت ہاتھوں میں رعشہ ایک عرب ہوٹل میں بلا کے زہین و شاطر کمیونسٹ نوجوانوں کے درمیان تھے ان نوجوانوں نے اختر شیرانی سے مختلف موضوعات پر بحث چھیڑ دی اس وقت تک وہ دو بوتلیں چڑھا چکے تھے اور ہوش قائم نہ تھاتمام بدن پر رعشہ طاری تھا ، حتیٰ کہ الفاظ بھی ٹوٹ ٹوٹ کر زبان سے نکل رہے تھے ادھر ” انا ” کا شروع سے یہ حال تھا کہ اپنے سوا کسی کو نہیں مانتے تھے جانے کیا سوال زیر بحث تھا فرمایا مسلمانوں میں تین شخص اب تک ایسے پیدا ہوئے جو ہر اعتبار سے”جینیس”(genius) بھی ہیں اور کامل الفن بھی ، پہلے ابو الفضل ، دوسرے اسد اللہ خاں غالب ، تیسرے ابو الکلام آزاد۔

شاعر وہ شاذ ہی کسی کو مانتے تھے ، ہم عصر شعراء میں جو واقعی شاعر تھے اسے بھی اپنے سے کم تر خیال کرتے تھے کمیونسٹ نوجوانوں نے فیض کے بارے میں سوال کیا ؟ طرح دے گئے ، جوش کے متعلق پوچھا ؟ کہا وہ ناظم ہے ، سردار جعفری کا نام لیا ، مسکرا دیئے ، فراق کا ذکر چھیڑا ؟ ہوں ہاں ” کرکے چپ ہو گئے ، ساحر لدھیانوی کی بات کی ، سامنے بیٹھا تھا ، فرمایا ” مشق کرنے دو ” ظہیر کاشمیری کے بارے میں کہا نام سنا ہے ، احمد ندیم قاسمی ؟ فرمایا ” میرا شاگرد ہے ” نوجوانوں نے دیکھا کہ ترقی پسند تحریک ہی کے منکر ہیں ، تو بحث کا رخ پھیر دیا ۔
حضرت ! فلاں پیغمبر کے بارے میں کیا خیال ہے ؟
آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں ، نشہ میں چور تھے ، زبان پر قابو نہیں تھا ، لیکن چونک کر فرمایا ” کیا بکتے ہو ؟ "ادب و انشا ، یا شعروشاعری کی بات کرو ، کسی نے فوراً ہی افلاطون کی طرف رخ موڑ دیا ، ان کے مکالمات کی بابت کیا خیال ہے ؟ ارسطو اور سقراط کے بارے میں سوال کیا ؟ مگر اس وقت وہ اپنے موڈ میں تھے ، فرمایا : اجی پوچھو یہ کہ ہم کون ہیں ؟ یہ ارسطو یا سقراط آج ہوتے تو ہمارے حلقے میں بیٹھتے ، ہمیں ان سے کیا کہ ان کے بارے میں رائے دیتے پھریں۔

اس لڑکھڑائی ہوئی آواز سے فائدہ اٹھا کر ایک ظالم قسم کے کمیونسٹ نے سوال کیا آپ کا حضرت محمدﷺ کے بارے میں کیا خیال ہے ؟اللہ اللہ ، ایک شرابی ، جیسے کوئی برق پڑتی ہو ، بلور کا گلاس اٹھایا ، اور اس کمیونسٹ کے سر پر دے مارا ، کہا بد بخت ایک عاصی سے سوال کرتا ہے ، ایک سیاہ رو سے پوچھتا ہے ، ایک فاسق سے کیا کہلوانا چاہتا ہے ؟تمام جسم کانپ رہا تھا ،یکا یکی رونا شروع کیا ، گھگھی بندھ گئی ، تم نے ایسی حالت میں یہ نام کیوں لیا ، تمہیں جرات کیسے ہوئی ؟ گستاخ بے ادب !اس شریر سوال پر توبہ کرو ، تمہارا خبث باطن سمجھتا ہوں ،خود قہر و غضب کی تصویر ہوگئے اس نوجوان کا حال یہ تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں ، اس نے بات کو موڑنا چاہا ، مگر اختر شیرانی کہاں سنتے تھے ، اسے اٹھوا دیا ، پھر خود اٹھ کے چلے گئے ، تمام رات روتے رہے ، کہتے تھے ، یہ لوگ اتنے نڈر ہو گئے ہیں کہ آخری سہارا بھی ہم سے چھین لینا چاہتے ہیں ، میں گنہگار ضرور ہوں ، لیکن یہ مجھے کافر بنا دینا چاہتے ہیں۔

آج کے غیر تربیت یافتہ نوجوانوں کو دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت تو کرتے ہیں لیکن ایسی نہیں جیسی اللہ اور اسکے رسولﷺ چاہتے ہوں قرآن میں اللہ تعالی نے نبی ﷺ کے اخلاق حسنہ کے متعلق کہا کہ اور بیشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو(سورة القلم:آیت نمبر4)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ”تم میں سب سے بہتر وہ ہے جن کے اخلاق سب سے اچھےہوں(ترمذی)یہاں قرآن کی ایک آیت اور اللہ کے رسولﷺ کی ایک حدیث اخلاق کے متعلق پیش کی گئی اب سوال یہ ہے کہ ان غیر اخلاقی کردار کے حامل نوجوانوں کو اخلاق کے متعلق اس سے بڑی دلیل اور کیا چاہیۓ؟ کیا کبھی ہم نے غور و خوض کیا کہ ہمارے اخلاق کس درجہ میں ہے؟یا ہے ہی نہیں؟کیا ہمارے اخلاق سے ہم نے کسی کو متاثر کیا یا نہیں؟ کیا ہماری طرز زندگی اللہ اور اس کے نبیﷺ کے اسوہ پر عمل پیرا ہے یا نہیں؟یا پھر ہم کہیں اس کے برعکس تو زندگی نہیں گذار رہے ہیں؟جو نہ اللہ کو پسند ہے نہ اس کے نبیﷺ کو۔

ہم جس اسلامی مہینے سے گذر رہے ہیں یہ مہینہ انتہائی بابرکت کا حامل ہے چونکہ اللہ کے نبیﷺ کی بعثت اسی ماہ ربیع الاول میں ہوئی آپﷺ کی پیدائش سے قبل اور پیدائش کے بعد اللہ تعالی نے جو جلوئے اور کرامات دکھائے وہ نہ کبھی اس دنیا میں دکھائے گئے نا دیکھے گئے جس نبیﷺ کو اس دنیا کے لیئے رحمت بناکر بھیجا گیا آج ان ہی کی امت نے اپنے لیئے زحمت کے راستے کا انتخاب کرلیا جس نبی نے راستے سے کانٹے ہٹائے آج اس نبی کی امت راستوں میں رکاوٹیں پیدا کررہی ہیں جس نبی نے ناچنے بجانے سے منع فرمایا آج اس نبی کی امت ناچنے بجانے کےجلوے دکھا رہی ہے حیرت تو اس بات پر ہے کہ یہ سب خرافات اور بدعات اللہ کے نبیﷺ کی ولادت کے جشن پر ہی ہورہی ہیں کیا اللہ کے نبی کی یہی تعلیمات ہیں؟کیا اللہ ایسے جشن سے خوش اور راضی ہوگا؟ کیا اس طرح کے جشن سے ہم حب رسولﷺ کے تقاضوں کو پورا کررہے ہیں؟ ہرگز نہیں تو پھر ان نوجوانوں کو کس نے یہ تعلیمات سکھائی کہ میلادالنبی کا جشن منانا چاہیئے۔

اس ملک کے الگ الگ گوشوں میں خصوصیت کے ساتھ شہر حیدرآباد میں کچھ سالوں سے جشن عید میلاد النبی کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے وہ سوائے بدعات خرافات کے علاوہ کچھ نہیں ہے لیکن یہ بات اس جلوس کی قیادت کو اور ان نوجوانوں کو ہرگز بھی سمجھ میں نہیں آرہی ہے اس بار بھی جلوس بڑے ہی تزک واحتشام سے نکالا گیا عقیدت کے پھول نچھاور کیئے گئے اللہ کے رسولﷺ سے محبت کے نام پر شور و غل کیا گیا سڑکیں گھنٹوں جام رہی ڈی جے زور و شور سے بجایا گیا اقبال کے شاہین اچھل اچھل کر ناچ رہے تھے چہروں پر خوشیاں بکھری بکھری اچھل کود کررہی تھیں اللہ اکبر اور حی علی الفلاح کی صدائیں اپنے رب کی طرف بلارہی تھی لیکن ملت کے مستقبل کا سرمایہ حب رسولﷺ کے جشن میں جو مسرور تھا بھلا ان نوجوانوں کے نزدیک اس سے بڑی محبت کیا ہوسکتی جو سوائے وبال کے کچھ اور نہیں نوجوان گاڑیوں کے کرتب بازی میں جو مصروف تھے سبز رنگ کے علم ایسے لہرائے جارہے تھے جیسے یہ کسی جنگ کو فتح کرچکے ہوں جس قوم کو دنیا کی امامت کے لیئے اس زمین پر بھیجا گیا تھا جنھیں اس دنیا کو راہ راست لانا تھا آج امت کے یہی نوجوانوں کو اغیار شور و غل سے بچنے کی ترغیب دے رہے تھے انھیں دھکے دے دے کر آگے بڑھا رہے تھے حد تو یہ بھی پار ہوگئی تھی کہ امت کے یہ نوجوان حب رسولﷺ میں اتنے سرشار تھے کہ جلوس کو آگے بڑھانےپولیس کو لاٹھیاں برسانی پڑھی۔

میلاد النبی کا یہ جلوس اور اغیار کے جلوس میں کوئی امتیاز باقی نہیں رہا آج ملت اسلامیہ کے نوجوان ان اغیار قوم کی مشابہت اختیار کرچکے ہیں اور شائد کہ وہ اغیار کی مشابہت سے ہی اغیار سے مقابلہ کرنا چاہتے ہوں جو کہ سراسر خلاف سنت اور اسلامی عقائد کے مغائر بھی ہے۔ باطل طاقتیں یہی چاہتی ہیں کہ ہماری قوم کا یہ جم غفیر ایسے ہی سڑکوں پر جمع ہوتے جائیں اور انھیں منتشر کرکے پولیس لاٹھی چارج کرے اور اندھا دھن گرفتاریوں کو انجام دے سکیں لیکن ان غیر اخلاقی کردار کے نوجوانوں کو کون سمجھائے سوال یہ بھی ہے کہ میلاد النبی کے جلوس سے کون خوش ہوا اور کون ناراض ؟یقیناً باطل طاقتیں اس جلوس سے خوشی سے سرشار ہونگی کہ ہماری محنتوں کے نتائج برآمد ہورہے ہیں وہ قوم جو کبھی باطل کو اخلاق کی طاقت سے زیر کرتی تھی آج وہی قوم اغیار کی مشابہت اختیار کرچکی ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ جلوس میلاد النبی کا تھا اور امت کے نوجوانوں نے اغیار کو خوشیوں کا تحفہ دیا اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی سرکشی کی انھیں ناراض کیا روز محشر میں ہم کس منہ سے اللہ کے نبیﷺ سے شفاعت کی سفارش کریں گے؟

نوجوانوں اور جلوس کی قیادت کو اس بات کا جائزہ اور احتساب کرنا لازمی ہے کہ کیا ہمارے اس جلوس سے اللہ کی رضا حاصل ہوگی؟کیا اللہ ہمارے اس اعمال سے خوش ہوگا؟میرے عزیز بھائیو ان بدعات خرافات اور غیر اسلامی کاموں سے باہر نکلیں اور اپنے اخلاق کو اللہ کے نبیﷺ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں ہم اگر اغیار کی مشابہت میں ڈھل جائیں گے تو اس سے ہماری دنیا اور آخرت تباہ و برباد ہوجائے گی اور باطل تو خوشیاں منائے گا ملک کے موجودہ حالات انتہائی بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں مسلمانوں کے ساتھ سازشیں رچی جارہی ہیں اور ہم ان ہی باطل قوتوں کا کام آسان کرنے جارہے ہیں غنیمت جانو جوانی کو بڑھاپے سے پہلے غنیمت جانو زندگی کو موت سے پہلے نوجوانوں!ہم ہماری امت کا اصل سرمایہ ہے ہمیں اپنے آپ میں انقلاب لانے کی ضرورت ہے ہماری جوانی کو اسلام کی اشاعت میں لگانا چاہیئے ہمیں اپنی شخصیت کو سنوارنا چاہیئے ہم اپنے کردار کو بہتر بنائیں اخلاق کو بلند کریں مطالعے کی عادت ڈالیں خصوصیت کے ساتھ ملی تنظیمیں آئمہ مساجد و خطیب حضرات بھی نہ صرف ربیع الاول بلکہ بارہا ان خرافات کو ختم کرنے کے لیئے مہمات چلائیں وعظ و نصیحت کرتے رہیں کیونکہ اصلاح کے میدان میں تشنگی ہمیشہ برقرار رہتی ہے ہمیں امید ہے کہ ہمارے نوجوان اپنے آپ کو بدلیں گے بشرطیکہ وہ بدلنے کی پہل کریں۔

مولانا آزاد کے اس اقتباس پر اپنی بات ختم کرتا ہوں "تم نے غفلت کو آزما لیا، تم نے نافرمانیوں کی صدیوں تک کڑواہٹ چکھ لی، تم نے گناہ اور معصیت کے پھل سے اچھی طرح اپنے دامن بھر لیے، تم نے دیکھ لیا کہ ایک خدا کی چوکھٹ سے تم نے سرکشی کی اور ساری دنیا تم سے سرکش ہو گئی اور ایک اسی کے روٹھنے سے کس طرح تمام دنیا تم سے روٹھ گئی، پس مان جاو اور بھی باز آجاو، گناہوں کو آزما چکے آو تقوی اور راست بازی کو بھی آزما لیں، سرکشیوں کو چکھ چکے ، آو اطاعت کا بھی مزہ دیکھ لیں، غیروں سے رشتہ جوڑ کے تجربہ کر چکے،آواسی ایک سے پھر کیوں نہ جڑ جائیں جس سے کٹ کر ذلتوں اور خواریوں ، ٹھوکروں اور راند گیوں کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہ آیا،تمہارے سفر عمل کا پہلا قدم یہ ہے کہ تو بہ کرو، تو بہ کرو اور اس طرح رو اور اس قدر تڑپو کہ اسے تم پر پیار آجائے”۔
شاعر مشرق علامہ اقبال نے امت کی اسی بدحالی پر کیا خوب کہا
حقیقت خرافات میں کھوگئی
یہ امت روایات میں کھوگئی

Exit mobile version