Site icon

نبی کریم ﷺ کی تعلیمات میں افراد کی قدر دانی

نبی کریم ﷺ کی تعلیمات میں افراد کی قدر دانی

استاذ/محمد قمرالزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

__________________

آج معاشرہ میں اور خاص طور پر تعلیم یافتہ افراد میں ایک عام شکایت یہ ہے کہ کام کے افراد نہیں ملتے، سیکنڈ لائن تیار نہیں ہے، باکمال اور باصلاحیت لوگوں کی بڑی کمی ہے، ادارے، تعلیمی مراکز، تحریکیں اور تنظیمیں، انجمنیں اور سوسائٹیاں اس لیے ناکام اور غیر فعال ہو رہی ہیں کہ ان میں قابل اور لائق و فائق افراد نہیں مل رہے ہیں، جو ان کو بہتر انداز سے چلائیں۔۔۔ میں اس شکایت سے متفق نہیں ہوں، ذاتی طور پر اس شکایت سے مجھے اتفاق نہیں ہے، بلکہ شکوہ کرنے والے سے مجھے خود ہی شکایت ہے۔۔۔ افراد کام کے بنائے جاتے ہیں، ان کی اس نہج سے تربیت کی جاتی ہے کہ وہ خلا اور کمیوں کو پر کریں، افراد کام کے لیے تیار کیے جاتے ہیں، انہیں ڈھونڈا اور تلاشا جاتا ہے ،اس کے لیے محنت کی جاتی ہے، کچھ وقت اور قربانی دینی پڑتی ہے۔۔۔ دنیا 🌎 کی تاریخ گواہ ہے کہ مخلص اور باکردار لوگوں کو کبھی یہ شکایت نہیں رہی کہ افراد نہیں مل رہے ہیں، کام کے لوگوں کا فقدان ہے، باصلاحیت لوگوں کی کمی ہے، باصلاحیت اور کامیاب و فعال لوگوں کی کبھی کمی نہیں رہی اور نہ آج ہے ، اگر ایسا ہوتا تو تاریخ کے تمام ادوار میں کبھی کوئی انقلاب برپا نہیں ہوتا۔ تاریخ میں جو بھی انقلاب برپا ہوا، مثبت ہو یا منفی صحیح ہو یا غلط، لیکن اس کو برپا کرنے والے وہ افراد ہی تھے جن کے اندر صلاحتیں کوٹ کوٹ کر بھری تھیں۔ بقول شخصے فقدان افراد، کا حادثہ ان کے ساتھ ہوتا ہے جو آئینہ خانہ میں بند ہوکر چاروں طرف اپنے ہی کو دیکھتے ہیں، جو اپنے خاندان، عزیر و اقارب، حاشیہ برداروں اور اپنے سے متفق اور ہم آینگ و ہم مزاج لوگوں میں ساری خوبیاں اور صلاحتیں تلاش کرتے ہیں ان ہی کو آگے بڑھانے اور پیش پیش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، جن کی زبانیں دوسروں کے لیے حوصلہ افزا کلمات کہنے سے گنگ رہتی ہیں اور دوسروں کے لیے تنقید کی قینچی بری طرح چلتی رہتی ہیں، جن کے سینے اور قلب و نگاہ تنگ اور آنکھیں چشم پوشی سے محروم ہوتی ہیں۔۔۔۔۔ (ماہنامہ نوائے ہادی فروری ۲۰۰۳)

سیرت نبوی ﷺ کا مطالعہ کیجئے تب آپ کو معلوم ہوگا کہ نبی کریم ﷺ کس طرح صحابہ کرام کی تربیت کرتے تھے، ان کی خوابیدہ صلاحتیوں کو اجاگر کرتے تھے، خاک کو کندن بناتے تھے، زرے کو مہتاب بناتے تھے اور کس طرح اپنے اصحاب اور ساتھیوں کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔۔ سیرت نبویﷺ سے اس کے چند نمونے ہم آپ قارئین باتمکین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ نے یہ ارشاد فرمایا اور ان کا حوصلہ یوں بلند کیا ان کی کد و کاوش اور دین کے لیے محنت و جد و جہد اور قربانی پر یہ حوصلہ افزا کلمہ اور جملہ کہا : کہ اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو خلیل و دوست بناتا تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بناتا اور انسانوں میں میرے اوپر سب سے زیادہ احسان ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کا ہے۔۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ فرمایا اور ان کی ہمت افزائی کی کہ اگر میرے بعد نبوت کا سلسلہ جاری رہتا تو عمر رضی اللہ عنہ نبی ہوتے، اللہ تعالی نے عمر کی زبان اور دل پر حق جاری کر دیا ہے، عمر جس راستے پر چلتے ہیں شیطان اس راستے پر نہیں چلتا۔۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا کہ وہ میری امت کے سب سے حیا دار انسان ہیں، فرشتے بھی ان سے حیا کرتے ہیں۔
حضرت علی کرم اللہ وجھہ کے بارے زبان رسالت ﷺ سے یہ کلمات نکلے کہ یہ میرے لیے ایسے ہی ہیں جیسے ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے تھے۔
حضرت خالد بن ولید کے بارےمیں فرمایا خالد تو اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہیں۔
حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا کہ ہر امت میں ایک امین ہوتا ہے اور میری امت کے امین ابو عبیدہ بن جراح ہیں۔
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا۔ میری امت میں حلال و حرام کے سب سے بڑے عالم معاذ ہیں۔
حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا کہ ہر نبی کا حواری یعنی خاص معاون و رفیق ہوتا ہے میرے حواری زبیر ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ سے سوال کیا گیا کہ ہم آپ کے بعد کس کو امیر و خلیفہ متعین کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم ابو بکر کو امیر بناو گے تو تم انہیں امانت دار، دنیا سے بے رغبت اور آخرت کا طالب صادق پاو گے، اور اگر تم عمر کو امیر بناو گے تو تم ان کو امانت دار، اللہ کے دین کے معاملے میں بے لچک اور سخت اور کسی ملامت سے نہ ڈرنے والا پاو گے اور اگر تم علی کو امیر بناو گے اور میں نہیں سمجھتا کہ تم ایسا کرو گے، تو تم انہیں ہدایت یافتہ، ہدایت کی راہ پر لے جانے والا پاو گے۔۔۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو عین جوانی اور عنفوان شباب میں لشکر اسلام کی قیادت کا منصب عطا فرمایا جب کہ اس لشکر میں کبار صحابہ شامل تھے۔
حضرت عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ نوجوان صحابی تھے بیس سال کی عمر میں اکابر صحابہ کی موجودگی میں آپ نے انہیں مکہ کا والی و گورنر مقرر فرما کر قائدانہ صلاحیتوں کا اظہار فرمایا۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جوانی میں یمن کا حاکم و قاضی بنا کر بھیجا۔
فتح مکہ کے دن حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی یوں قدر دانی فرمائی کہ جو ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے گا وہ بھی مامون ہے۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ثالث اور ترجمان بنا کر قریش سے مذاکرات کے لیے بھیجا۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ جو غریب الدیار تھے فارس سے آیے تھے ان کی اجنبت کو دور کرنے اور اپنے سے مانوس کرنے کےلیے فرمایا سلمان تو ہمارے ہیں اور ہمارے گھر والے کی طرح ہیں۔۔۔
حضرت حذیفہ بن یمان کو اپنا راز دار بنایا اور ان کو منافقین کی پوری فہرست بتا دی۔ پڑھے لکھے اور کتاب کرنے والے صحابہ کو کتابت وحی کی ذمہ داری سونپی اور ان کا مقام بلند کیا۔
حضرت زید بن ثابت کو مختلف زبانیں سیکھنے اور ذاتی خطوط وغیرہ لکھنے اور دوسری زبان میں دین کی ترجمانی کی ذمہ داری ڈالی۔
الغرض سیرت نبوی ﷺ میں ایسے نمونے بکثرت موجود ہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھل کر اپنے صحابہ کی حوصلہ افزائی فرمائی اور ان کی قدر دانی کی اور یوں اپنے بعد کار نبوت کے فریضہ انجام دینے کے لیے وارثین انبیاء کی پوری کھیپ تیار کردی۔۔۔
اگر ہم اپنے اندر بھی پیارے آقاﷺ کی یہ صفت پیدا کرلیں اور اپنے دامن کو خلوص کی دولت سے بھر کر نبی کریم ﷺ کے اس اسوہ کو اختیار کرلیں تو انشاء اللہ فقدان افراد کا شکوہ نہیں رہے گا اور سیکنڈ لائن کے افراد تیار ملیں گے۔۔ یہ سچ ہے کہ جو اخلاص کے ساتھ کام کرتے ہیں مقصد دین کی بلندی اور اسلام کی خدمت ہوتا ہے ان کے ارد گرد افراد اس طرح اکھٹا رہتے ہیں جس طرح شمع پر پروانے جمع ہو جاتے ہیں۔۔ ماوں کی کونکھیں بانجھ نہیں ہوگئی ہیں، کام کے افراد ہر زمانے میں پیدا ہوتے رہتے ہیں، لیکن ہماری ناقدری اور بے توجھی سے برباد اور ضائع ہوجاتے ہیں اور کسی کام کے نہیں رہ جاتے۔۔ اج حالت یہ ہے اور امت کا المیہ یہ ہے کہ افراد کی قدر دانی نہیں کی جاتی، مستحق اور قابل و لائق افراد کو کنارے لگا دیا جاتا ہے اور کم اہلیت کو ان پر ترجیح دی جاتی ہے ۔ اور ان سے کام لیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قابل اور لائق افراد میدان بدل دیتے ہیں،، ۔۔ ضرورت ہے کہ پیارے آقاﷺ کی تعلیمات اور ان کے اسوہ کی روشنی میں ہم قدر شناسی اور حوصلہ افزائی والا مزاج پیدا کریں اور لائق اور قابل افراد کو ضائع ہونے سے بچائیں۔

Exit mobile version