Site icon

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام

از ـ محمود احمد خاں دریابادی

_________________

ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم پیدائش منایا جاتا ہے اسی مناسبت سے ملک میں عام چھٹی کا اعلان ہوتا ہے ـ ……….. ۱۲ ربیع الاول کے موقع پر عام مسلمان مختلف تقاریب، سیرت کے جلسے، میلاد، لنگرونیاز وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں، بہت سے شہروں میں جلوس بھی نکلتا ہے ـ

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ مذکورہ تمام تقاریب کی بنیاد حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا یوم میلاد ہے، جو ۱۲ ربیع الاول کو منایا جاتا ہے اس لئے اس موقع پر جو تقریبات و رسومات برسوں سے منائی جارہی ہیں اُن کو ۱۲ ربیع الاول کو ہی منعقد ہونا چاہیئے، ان تقریبات تاریخوں کو آگے پیچھے کرنا دراصل اس جمہوری ملک میں ایک غلط روایت کو رائج کرنا ہوگا جو آگے چل ہمارے لئے شدید ترین دشواریوں کا سبب بن سکتا ہے ـ

امسال مہاراشٹرا میں ۱۲ ربیع الاول کو برادران وطن کے ایک تہوار گنپتی کا آخری دن پڑتا ہے۔ اسی دن یہاں کے ہندو گنپتی کی مورتیوں کو جلوسوں کی شکل میں سمندر میں بہانے لے جاتے ہیں، اس لئے ہمارے کچھ لوگوں نے ہندو مسلم بھائی چارہ ( اس میں بھائی کون ہے اور چارہ کون؟ یہ الگ بحث ہے ) قائم رکھنے لئے بغیر کسی حکومتی دباو کے خود اپنی طرف سے یہ اعلان کردیا کہ میلاد النبی کا جلوس ۱۲ ربیع الاول کو نہیں نکلے گا بلکہ دو دن بعد نکالا جائے گا ـ ……….. ابھی عید میلاد النبی اور اس کے جلوس کی شرعی حیثیت پر بحث کا موقع نہیں ہے ـ اس وقت ایک بہت بڑے عالم دین جو تعزیوں کے مخالف تھے، انگریزی دور حکومت میں جب موصوف کو پتہ چلا کہ کسی علاقے میں انگریز تعزیہ پر پابندی لگانا چاہتے ہیں تو انھوں نے خاص طور پر کہلا بھیجا کہ خبردار کسی حکومت کے کہنے سے تعزیہ داری بند مت کرنا ـ پھر اس کی وجہ بھی بتائی کہ ” حکومت تعزیہ داری اس لئے بند نہیں کرارہی ہے کہ بدعت اور حرام ہے، بلکہ حکومت تعزیہ کو اسلام اور دین کا حصہ سمجھتی ہے، تعزیہ بند کراکے دراصل وہ اسلام پر ضرب لگانا چاہ رہی ہے، آج تعزیہ ہے کل دوسرے شعائر خدانخواستہ اذان اور نماز کا نمبر بھی آسکتا ہے ـ ” ……….. بالکل اسی طرح آج جلوس آگے بڑھا ہے کل کو خدانخواستہ عید کی نماز کے لئے بھی دباو آسکتا ہے دو دن بعد پڑھی جائے، یا قربانی ایک دن پہلے کرلی جائے ـ ………. اس موقع پر حالات خراب ہونے کا خوف ظاہر کیا جاتا ہے، جو کسی حد تک درست بھی ہے، حالانکہ حالات درست رکھنا، امن وقانون، لاءاینڈ آڈر کی صورت حال کو قابو میں رکھنا حکومت اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے، حکومت اس بات کی پابند ہے کہ تمام باشندگان وطن کو برابر کے حقوق دے، ہر ایک کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کے لئے آسانیاں فراہم کرے، جو حکومت ایسا نہیں کرسکتی اُس کو اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں ـ

یاد پڑتا ہے کہ ۱۲ ربیع الاول کے جلوس کو اس سے پہلے بھی ایک دن کے لئے موخر کیا جاچکا ہے، م لیکن اس بار ایک نئی بات بھی ہوئی ہے جس کو ہم اس جمہوری ملک میں اپنے لئے انتہائی خطرناک تصور کرتے ہیں ـ ۱۲ ربیع الاول کو میلاد النبی کی جو چھٹی ہوتی تھی اُس کو بھی اپنے لوگوں نے حکومت سے باقاعدہ مطالبہ کرکے دو دن آگے بڑھا دیا ہے، اب وہ چھٹی 16 ستمبر کے بجائے 18 ستمبر جس دن جلوس نکلے گا اس دن ہوگی، ……….. گویا ہمارے لوگوں نے یہ تسلیم کرلیا کہ ہمارا تہوار اصل میں ۱۲ ربیع الاول نہیں کو نہیں بلکہ اُس دن ہوتا ہے جس دن ہم جلوس نکالتے ہیں، چاہے دو دن بعد نکالیں یا چار دن بعد چھٹی اسی دن ہوگی ـ

ذرا سوچئے کئی سال پہلے ہمارے لوگوں نے جلوس کو ایک دن موخر کرکے ایک غلط روایت قائم کی تھی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس سال جلوس دو دن موخر کرنا پڑا، کیا امسال ہم میلاد کی چھٹی دو دن موخر کراکے ایک اور غلط روایت نہیں قائم کررہے ہیں؟………… اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ یہ غلط روایت خدانخواستہ عیدالفطر، عیدالاضحیٰ، اور عاشورہ محرم کے لئے نظیر کے طور استعمال نہیں ہوگی ؟

حکمت و مصلحت کے ساتھ برادران وطن اور انتظامیہ کے ساتھ بات کرکے ایسا درمیانی راستہ ضرور نکالا جاسکتا تھا جس میں نہ جلوس کو موخر کرنے کی نوبت آتی نہ ہی چھٹی کو آگے بڑھانے کی ضرورت پڑتی ـ ایسا کیوں نہیں ہوا ؟ کس نے نہیں کرنے دیا؟ کیا دباو تھا؟ ………. یہ سب باتیں اس وقت ہمارے موضوع سے خارج ہیں، اب وقت گزر چکا ہے، ہماری خوش قسمتی ہوگی اگر ہماری یہ تحریر آئندہ ایسے مواقع پر کسی کام آجائے ـ ورنہ

اب تویہ بھی نہیں رہا احساس
درد ہوتا ہے یا نہیں ہوتا

Exit mobile version