منزل سے زیادہ حسین سفر
(پہلی قسط)
✍️ ظفر امام قاسمی کھجورباڑی
دارالعلوم بہادرگنج،کشن گنج
__________________
”سفر“ ایک ایسا بھیانک لفظ ہے جسے سنتے ہی عام طور پر انسان بدک اٹھتا ہے،اس کی روح کانپ اٹھتی اور اس کی تیوری پر بل پڑنے لگ جاتے ہیں،اس کے چہرے کی سلوٹیں ابھر آتیں اور اس کے نین نقش پل بھر کو مرجھا جاتے ہیں،طبیعت منقبض ہوجاتی اور دل فرار کے راستے ڈھونڈنے لگ جاتا ہے،یہ لفظ جتنا شہرۂ زمانہ اور معروفِ روزگار ہے اس سے کہیں زیادہ لوگ اس سے خوف کھاتے اور کڑھتے ہیں،سفر کے کلفتوں بھرے ریگستانوں اور اس کی کانٹوں بھری راہوں میں جادہ پیما ہونا ہر انسان کے بس کا روگ نہیں،اِس خاردار وادی میں وہی لوگ قدم اندازی کی ہمت جٹا پاتے ہیں جو عزائم کے پکے اور بلندہمتی کے پیکر ہوتے ہیں،مگر کچھ سفر ایسی رنگین مسکراہٹوں، دل رُبا تبسموں،حسین قہقہوں اور خوبصورت رفاقتوں کے زیر سایہ وقوع پذیر ہوتے ہیں جو منزل سے زیادہ حسین اور خوبصورت ہوتے ہیں اور وہ سفر کتابِ زیست کے اوراق میں ایک بیش بہا اضافہ اور ایسے تاریخی بن جاتے ہیں جن کے اَن مٹ نقوش ذہن و دل سے کبھی محو نہیں ہوتے۔
ایسے ہی ہمیں ایک مختصر سے مگر خوبصورت اور یادگار سفر کا اتفاق اس موقع سے پیش آیا جب ٢/ستمبر ٢٠٢٤ء بروز اتوار گیارہ نفوس پر مشتمل ہمارا بےتکلف،مزاج آشنا اور ہم خیال دوستوں کا ایک قافلہ اتر دیناجپور مغربی بنگال کے سفر پر روانہ ہوا،گو کہ ہمارا یہ سفر تفریحی اور ہواخوری جیسی نوعیت کا حامل نہیں تھا بلکہ ایک جنازے میں شرکت کی غرض سے وقوع پذیر ہو رہا تھا مگر جس کارواں کے سارے اعضاء و ارکان ہم مزاج و ہم خیال ہوں،اور اس طرح کا سفر زندگی کے حسین اتفاقات میں سے ہو تو نہ چاہتے ہوئے بھی وہ سفر تفریحی بن جاتا ہے۔
٢/ستمبر سہ پہر کا وقت تھا جب ہمیں یہ روح فرسا خبر ملی کہ دارالعلوم بہادرگنج کے مقبول ترین اور مایہ ناز استاذ جناب حضرت قاری سالم انظر صاحب مدظلہ العالی (شاہ پور بنگال) کی والدہ محترمہ بقضائے الہی وفات پاچکی ہیں اور جنازے کا وقت بعد مغرب متعین کیا گیا ہے،ایک تو حضرت قاری سالم صاحب کی شخصیت ہی کچھ ایسی نستعلیقی،نرالی اور سجیلی ہے کہ انسان کا دل اولِ نظر ہی میں آپ کا گرویدہ بن جاتا ہے،علاوہ ازیں دارالعلوم بہادرگنج میں موجود اکثر اساتذہ کا شمار آپ کے خوشہ چینوں میں ہوتا ہے،لہذا اساتذہ کی اچھی خاصی تعداد جنازے میں شرکت کے لئے تیار ہوگئی، تعداد کی کثرت کو دیکھتے ہوئے ہمیں سواری اجرت پر لینی پڑی،ہم جس سواری میں سوار تھے اس میں بشمول راقم الحروف کے جناب مولانا معمور احمد صاحب مجگواں،جناب قاری شارق انور صاحب باغیچہ،جناب حافظ شاہ عالم صاحب کوچہا، جناب مولانا ثاقب صاحب باغیچہ،جناب مولانا ارشاد عالم صاحب بھاگلپور،جناب حافظ اسامہ زکریا صاحب التاباڑی، جناب مولانا عبدالسبحان صاحب ضمیرا ڈانگا،جناب حافظ انظار صاحب دہی بھات، جناب حافظ سالم انظر صاحب درنیاں اور برادرِ محترم جناب شائق صاحب باغیچہ (صاحبِ سواری) کے اسماء قابلِ ذکر ہیں۔
تقریبا ساڑھے چار بجے کا وقت تھا،موسم میں امس بھری ہوئی تھی،ہواؤں میں اب بھی سمومی کیفیت طاری تھی،آسمان کی نیلگوں فضا پر ابرِ نیساں کی کچھ ٹکڑیاں چہل قدمی کر رہی تھیں،جب ہمارا یہ مختصر سا قافلہ روانہ ہوا اور تھوڑی ہی دیر میں ہماری سواری ہائی وے پر اس طرح سپاٹے بھرنے لگی اور پیش منظر پس منظر میں اس تیزی سے تبدیل ہونے لگے کہ سڑک پر نگاہیں ٹکانا بھی ہمارے لئے دشوار ہوگیا،سواری کی تیزگامی کے ساتھ سواروں کی رگِ ظرافت بھی پھڑک اٹھی،دوستوں کے ساتھ جب فرصت کے لمحات میسر ہوں اور چند گھنٹے ان کے ہمراہ بتانے کا موقع فراہم ہو تب جاکر ان کی ظرافتِ طبعی،بذلہ سنجی اور خوش مذاقی کا کماحقہ علم ہوتا ہے،اُدھر گاڑی کسی برقی رَو کے مانند راستہ قطع کرتی جا رہی تھی اور اِدھر دوستوں کی زبانیں کسی آبشار کے مثل روح افزاء لطائف ریزی و ظرائف افشانی میں مصروف تھیں،ابھی ایک زبان خاموش نہ ہو پاتی کہ دوسری بول پڑتی اور پھر پوری محفل قہققہ زار ہوجاتی۔
گرمی کی اس قہرباری میں بھی گاڑی کے اندر کا ماحول نہایت پرسکون،لطیفہ زار اور خوشگوار تھا،اُدھر وقت کی سوئی بنا رُکے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھی،اب ہمیں چلے تقریبا گھنٹہ بھر سے زائد کا عرصہ گزرچکا تھا،ہم بنگال کی حدود میں داخل ہوچکے تھے،بنگالی تہذیب و تمدن اور بود و باش کی سگندھ ہمارے مشام جاں کو معطر کر رہی تھی،شام رات میں تبدیل ہونے لگی تھی،شام کے دھندلکے وادیوں میں اپنے پر پھیلا چکے تھے،پرندے اپنے آشیانوں کی راہ ہو رہے تھے،تاحد نگاہ کیاریوں میں دھان کی سبز چادریں لہلہا رہی تھیں، بعض خیابانوں میں چائے کی زرد پتیاں بھی جھوم رہی تھیں،غرض یہ کہ پورا تختۂ ارض سبزہ زار بنا ہوا تھا۔
ابھی ہم قدرت کی ان جمال آرائیوں اور فطرت کی ان کمال کاریوں سے حظ اٹھا ہی رہے تھے کہ ہماری گاڑی منزلِ مقصود پر پہونچ گئی،دیکھا کہ مرحومہ کا جنازہ عقیدت مندوں اور ارادت کیشوں کا مرکز نگاہ بنا ہوا ہے،اتفاق کہیے یا مرحومہ کی نیکوکاری کا ثمرہ کہ جس دن مرحومہ کا انتقال ہوا اسی دن آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت قاری اختر کمال صاحب کے مدرسے کی مسجد میں تبلیغی جوڑ اختتام پذیر ہوا تھا مرحومہ کی خبرِ وفات سن کر جوڑ میں شرکت کرنے والوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ٹھہر گئی،اس طرح اللہ نے بآسانی ان لوگوں کو بھی جنازے میں شرکت کی سعادت بخش دی جو شاید عام حالات میں شرکت سے محروم رہ جاتے،علاوہ ازیں مرحومہ کے دونوں صاحبزادوں کے سینکڑوں شاگردین،محبین،مخلصین، متعلقین اور آپ کے درجنوں نواسوں،دامادوں (جن میں اکثروں کی تعداد حفاظ اور علماء کی تھی)اور رشتہ داروں کی شرکت نے اس بےپناہ ہجوم میں اتنا اضافہ کردیا کہ جنازہ گاہ میں تِل دھرنے کی بھی گنجائش نہ رہی، اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ اس نیک خاتون نے تو اپنی پوری زندگی راہِ خدا کے لئے وقف کردی تھی،نہ انہوں نے کبھی دنیوی مال و منال کی پروا کی اور نہ ہی تارِ عنکبوت سے مرکب اس دنیوی زندگی کا خیال کیا،آپ ایک دیندار شوہر کی دیندار خاتون تھیں،آپ نے اپنی اولاد و احفاد کو مکمل طریقے پر اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے لئے تعینات کردیا تھا جس کا ثمرہ اللہ نے آپ کے جنازے میں علماء و حفاظ سمیت ہزاروں عقیدت مندوں کی شرکت کی شکل میں مرحمت فرمایا،رحمھااللہ رحمة واسعة۔
مغرب کے فورًا بعد صف بندی ہوگئی،ادارہ فیض القرآن ٹھیکری باڑی کے مہتمم مفسرقرآن حضرت اقدس الحاج مولانا ممتاز عالم صاحب مظاہری مدظلہ العالی کا مختصر مگر جامع اور بصیرت افروز خطاب ہوا، مرحومہ کی نمازِ جنازہ پڑھانے کی سعادت دارالعلوم بہادرگنج کے انتہائی فعال،متحرک اور کامگار نائب ناظم عمومی حضرت اقدس الحاج قاری مسعود الرحمن صاحب کے نصیبے میں آئی، جنازہ کے بعد مدرسے کے پیچھے موجود مقبرہ میں مرحومہ کے جسد خاکی کو آپ کے شوہر نامدار کے پہلو میں یہ کہتے ہوئے مٹی کی چادر کے حوالے کردیا گیا کہ:
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
غنچۂ نورِستہ اس گھر کی نگہبانی کرے