Site icon

شیر جنگل کا راجا نہیں شکاری ہے

شیر جنگل کا راجا نہیں شکاری ہے

✍️ ذکی نور عظیم ندوی – لکھنؤ

____________

عام طور پر شیر کو جنگل کا راجہ کہا جاتا ہے اور اس کی قوت و طاقت اور شجاعت و بہادری اس قدر مشہور ہے کہ بہادری سے تشبیہ کے لئے اس سے جامع اور مناسب کوئی اور لفظ نہیں مانا جاتا ۔ لیکن کیا یہ ایسی حقیقت ہے جسے سن کر فوری طور پر تسلیم کر لینا چاہئے یا اس کا صحیح طور پر جائزہ لے کر درست نتیجہ نکالنا اور اس کے بعد کوئی قطعی رائے قائم کرنا زیادہ مناسب ہے؟

شیر کو جنگل کا راجہ کہتے ہی یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ وہ جنگل کے جانوروں میں سب سے عالی نسب اور بلند مقام و مرتبہ رکھتا ہے اور دیگر جانور اس سے کمتر اور اس کے زیر نگیں ہوتے ہیں، لیکن جائزہ لینے اور حقیقت تلاش کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ شیر بلی کی نسل پنتھرالیو (Panthera Leo) میں موجود پانچ بڑی بلیوں میں شامل خاندان گربہ کا ایک رکن یا ممالیہ جماعت (Mummals) اور خاندان بلی کی نسل(Felidae ) سے تعلق رکھنے والا ایک جانور ہے۔

شير کی دوسری نسل بلی کے ساتھ عام طور پر انسانی بچے کھیلتے کودتے بھی ہیں۔شیر اور بلی دونوں کی جسمانی ساخت جیسے پنجے، دانت اور آنکھوں کی بناوٹ میں یکسانیت ،دونوں ہی گوشت خور، شکار کی صلاحیت رکھنے والے اور شکار کے وقت خاموشی سے چلنے اور اچانک حملہ کرنے کیلئے مشہور ہیں، یہ بھی ذہن میں رہے کے بلی کو شیر کی خالہ یوں ہی کیسے کہا جاسکتا ہے۔ لیکن بلی کتے جیسے جانور کو دیکھ کر کچھ اس طرح راہ فرار اختیار کرتی ہے کہ جیسے ادھر ادھر کی کوئی خبر ہی نہیں ۔

لیکن شیر کی قوت و طاقت اور شجاعت و بہادری اس طرح بیان کی جاتی ہے جس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں حالانکہ جنگلی زندگی کی ویڈیوز کا مشاہدہ کرنے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ اکثر و بیشتر گھات لگا کر اور پیچھے سے ہی حملہ کیوں کرتا ہے اور معمولی جانوروں یہاں تک کہ گائے بھینس، بارہ سنگھے اور بعض دوسرے جانوروں کے سامنے آنے پر کبھی کبھی تو راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔

کسی سماج پر حکومت کیلئے اس سماج کی فلاح و بہبود اور ان کی حفاظت راجہ کی سب سے بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن شیر تو جنگل کے جانوروں کی حفاظت اور ان کی فلاح و بہبود کے بجائے ان کے لئے خود سب سے بڑا خطرہ، اپنی بھوک مٹانے کے لئے ان پر حملہ آور ہونے اور ان کو نقصان پہنچاکر اپنا پیٹ پالنے کے لئے جانا جاتا ہے جس کو دیکھتے ہی جنگلی سماج کے دیگر افراد راہ فرار اختیار کرنے اور بچنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔

جنگل کے جانوروں کے ویڈیوز کے مشاہدہ سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ جنگل کے راجہ کے نام سے مشہور شیر خود اپنی نسل کے دوسرے افراد پر بھی اعتماد نہیں کرتے، ایک دوسرے پر برتری قبول نہیں اور ان کی آپسی لڑائیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ صرف ایک نسل کے شیر یا ببر شیر یا کوئی تیسری جنس اپنے ہم جنس ارکان پر بھی اعتماد نہیں کرتی اور وقتا فوقتا آپس میں برسر پیکار اور ایک دوسرے کی جان کے پیاسے بن جاتے ہیں۔

اسی وجہ سے اس وقت عالمی سطح پر شیر اور اس کی نسل کے خاتمہ کا سب سے زیادہ خطرہ مانا جارہا ہے اور عام جائزہ کے مطابق گذشتہ چند سالوں میں ان کی تعداد میں 30سے 50 فیصد تک کی کمی کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ اور حکومتی سطح پر بڑے پیمانے پر کاوشوں کے باوجود اس میں اطمینان بخش اضافہ دیکھنے میں نہیں آرہا۔اس کے اصل اسباب جو بھی ہوں لیکن اس میں حکمرانی کے ضروری عناصر کے بجائے شکار اور درندگی کا کہیں نہ کہیں دخل ضرور ہے۔

اگر شیر کی بھاری جسامت اور اس کا وزن، اس کی بلندی اور سرداری کی وجہ ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ روئے زمیں پر جانوروں میں اس سے کئی گنا زیادہ وزن کے ہاتھی، گینڈے، بھینس، مگر مچھ اور گھڑیال جیسے بے شمار دوسرے جانور بھی پائے جاتے ہیں ۔ لہذا وزن کی حیثیت سے بھی اسے راجہ ماننے یا سرداری کا مقام نہیں دیا جا سکتا۔

اگر شیر کی دھاڑ اور دور تک اس کی آواز پہنچنے کی وجہ سے اسے سرداری کے خطاب سے نوازا جاتا ہے تو ہاتھی کے چنگھاڑ اور گدھے کے ڈھینچوں کی آواز بھی کم دور تک نہیں جاتی، اور اگر اس کی آواز سننے والوں میں اس کا رعب اور خوف پیدا ہونے کی وجہ سے اسے سردار مانا جاتا ہے تو اسے خطرناک دشمنوں ، فسادیوں اور ڈاکؤوں کا کردار تو قرار دیا جاسکتا ہے لیکن کسی طرح بھی سرداری کی صفت نہیں مانا جاسکتا۔

بادشاہت یا راج کے لئے ماتحتوں کے ذریعہ راجہ کے احکام کی رعایت، اس کا احترام اور اس کے نظام کے نفاذ میں اس کا تعاون لازمی طور پر مطلوب ہوتا ہے لیکن کیا شیر کی زندگی سے واقف کوئی شخص یہ دعوی کر سکتاہے کہ جنگل کے عمومی مفاد اور تحفظ کے لئے شیر نے کبھی کوئی حکم جاری کیا ہو، جنگل میں اس کے حکم کو قدر کی نگا ہ سے دیکھا اور تسلیم کیا گیا ہو اور اس کے طے کئے ہوئے نظام کے نفاذ میں اس کے تعاون کا تصور بھی کیا گیا ہو۔ اور اگر صورت حال ایسی نہیں تو ایسی مخلوق کبھی بھی راج نہیں کرسکتی اور نہ ہی اس کی رعایا اس کے راج کو کبھی قبول کرکے اسے راجہ مان سکتے ہیں۔

بلکہ حقیقت یہ ہے کہ شیر کو اپنے علاوہ کسی کی فکر نہیں ہوتی وہ تو اپنا پیٹ بھرنے کیلئے جنگل کے دوسرے جانوروں پر حملہ آور ہونے ، ان کے خون پینے، چیڑ پھاڑ کرنے، ان کی زندگیوں سے کھلواڑ کرنے، ان کے بچوں کو خوراک بنانے، دوسرے سب جانوروں کے حقوق سے بے پرواہ اور کبھی کبھی تو اپنے ہم جنس جانوروں سے بھی لڑنے جھگڑنے کے لئے جانا جاتا ہے لہذا وہ راجہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اسےتو ایسا درندہ اور خونخوار شکاری ہی کہا جاسکتا ہے جو دوسروں کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔

لیکن افسوس کہ مختلف ملکوں میں راج کرنے اورحکومت کا موقع پانے والے افراد مضبوط حکمرانی کا دعوی کرتے ہوئے کس طرح شیر بننے کی کوشش کرتے ہیں اور اس حقیقت کو نہیں سمجھتے کہ شیر جنگل کا بھی راجہ نہیں بلکہ وہ تو صرف ایک درندہ، خونی اور بڑا شکاری ہے۔ اسی وجہ سے جنگل راج کو بے انتظامی اور بدعنوانی کے استعارہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔

حکمراں تو وہ ہوتےہیں جو رعایا کے مفاد عامہ کے محافظ ہوں۔ ان کی تمام ضرورتوں کی تکمیل کی فکر اور فراہمی کے لئے کوشش کریں ، آنے والے خطرات سے حفاظت کے لئے تدبیریں، مستقبل اور اس کی ضرورتوں کا جائزہ لے کر اس کے لئے مناسب منصوبہ بندی کریں، آپس میں پیار و محبت کا ماحول پیدا کرنےکیلئے ماحول سازی اوربیداری کا ثبوت دیں، پورے سماج کو ایک ایسی عمارت کی شکل میں پرو دینے کی کوشش کریں جس سے ایک دوسروں کو تقویت ملے، ہرمظلوم کی مدد کریں، ظالم کو سزا دیں ،معصوم اور بے گناہ افراد کوخطرات سے بچائیں، حقدار کو حق دلائیں، سماج کے کسی ایک فرد کی کسی طرح کی پریشانی یا دشواری کو پورے سماج کے لئے نقصاندہ مانیں.ان کی تکلیف محسوس کریں۔

حكمراں کےلئے سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ یہ کوشش کرے کہ سماج میں کسی بھی فرد یا طبقہ کے ساتھ ایسی کوئی صورت حال پیش نہ آئے جس کی وجہ سے وہ آپس میں منتشر اور بر سر پیکار ہوجائیں اور ان کی تمام بنیادی ضرورتوں خاص طور پر غذا، علاج، رہائش ، تعلیم اور روزگار کے یکساں مواقع فراہم کرنے کیلئے مناسب پروگرام بنا کر اسے نافذ کریں ۔ اگر کوئی حکمراں اس میں کامیاب ہوتا ہے تب تو وہ حکمراں کہلانے اور احترام کا مستحق ہوگا ورنہ اسے صحیح معنی میں حکمراں ماننا درست کیسے ہو سکتا ہے۔

Exit mobile version