Site icon

سپریم کورٹ نے ٹھیک کیا ! 

سپریم کورٹ نے ٹھیک کیا!

✍️شکیل رشید

( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )

___________________

مسلم تنظیموں ، بالخصوص جمعیۃ علماء ہند کے دونوں دھڑوں کی عرضیوں پر ، ملک کی سب سے بڑی عدالت نے شنوائی کرتے ہوئے ’ بلدوزر جسٹس ‘ پر یکم اکتوبر تک کے لیے پابندی لگا دی ہے ، جس کا اطلاق ملک بھر پر ہوگا ۔ یہ خبر مسلمانوں کے لیے خوش آئند ہے ، اس لیے کہ ملک بھر میں جن عمارتوں ، دکانوں اور مکانوں کو بلڈوزر کے ذریعے تباہ و برباد کیا جا رہا تھا ، ان میں چند ایک کو چھوڑ کر تمام کے تمام مسلمانوں کے تھے ۔ مطلب یہ کہ مسلمانوں کی املاک کو ریاستی حکومتوں نے ، یا یوں کہہ لیں کہ ، اُن ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی حکومتیں ہیں ’ نشانہ ‘ بنا لیا گیا تھا ۔ حالانکہ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ کے مذکورہ حکم پر اعتراض اٹھایا کہ اس طرح کا حکم انتظامیہ کے ہاتھ باندھنے کے مترادف ہے ، لیکن عدالتِ عظمیٰ نے ان کی سُنی نہیں اور ہر طرح کی بلڈوزر کارروائی پر ، سوائے ناجائز قبضہ جات کے ، پابندی کا فیصلہ سُنا دیا ۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا کا ، عدالت کے روبرو کیا گیا ایک دعویٰ دلچسپ ہے ، انہوں نے کہا کہ ، ’’ کہا جا رہا ہے کہ ایک خاص برادری کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ لیکن آج مجھے یہ بولنے پر مجبور ہونا پڑا ہے کہ ہندو فرقہ سے تعلق رکھنے والوں پر کاروائی انجام دی گئی ہے ، حالانکہ آج عدالت میں صرف یہ بتایا جارہا ہے کہ مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلایا گیا ۔‘‘ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اُنہیں یہ تک نہیں پتا کہ ملک بھر میں مسلمانوں کی کتنی املاک پر بلڈوزر چلائے گیے ہیں ! یہ تعداد کوئی ایک یا دو یا دس اور بیس نہیں ہے ، یہ کئی ہزار میں ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق دو برسوں کے دوران ڈیڑھ لاکھ املاک کو بلڈوزروں کے ذریعے منہدم کیا گیا ، اور زیادہ تر گھر اور دکانیں مسلم فرقے کی تھیں ۔ یہ سب کے سب گھر اور دکانیں غیر قانونی نہیں تھیں ، ان میں سے زیادہ تر کو صرف ایک ایف آئی آر کی بنیاد پر ڈھایا گیا تھا ۔ اور اگر کوئی دکان یا مکان غیر قانونی بھی تھی ، تب بھی اس کے انہدام کے لیے جو ضابطہ ہے ، جو قانونی طریقۂ کار ہے ، اس کو نظرانداز کیا گیا ، حکام بس بلڈوزر لے کر چلے اور مکان اور دکان کو منہدم کر گیے ۔ ایک ضابطہ بنایا گیا ہے ، نوٹس دینے کا ، جواب طلب کرنے کا ، لیکن مسلمانوں کے معاملے میں ضوابط کی دھجیاں اڑا دی گئیں ۔ چھتر پور اس کی ایک مثال ہے ، جہاں قیمتی گاڑیوں تک پر بلڈوزر چڑھا دیا گیا ! گاڑیاں کیسے غیر قانونی ہو گئیں ۔ اور پھر مسلم نوجوانوں کو قطار میں کھڑا کرے ، بازار میں گھما کر ان سے یہ نعرہ لگوانا کہ ’ پولیس ہماری باپ ہے ‘ کیسے قانونی عمل ہو گیا ! سالیسٹر جنرل چاہے جو کہیں سچ یہی ہے کہ مسلمانوں کے گھروں اور ان کی دکانوں کو دانستہ نشانہ بنایا گیا ، اس کا مقصد مسلمانوں کو ’ سبق ‘ سکھانے کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے ! سالیسٹر جنرل نے پوری کوشش کی کہ سپریم کورٹ بلڈوزر کارروائی پر پابندی نہ لگا سکے ، لیکن جسٹس اے آر گوائی اور جسٹس وشواناتھن کی بنچ نے پابندی نہ لگانے سے صاف صاف انکار کر دیا ، اور اچھا ہی کیا کہ اگر پابندی نہ لگتی تو آنے والے دنوں میں معمولی بات اور معمولی قصور پر لوگ اجاڑ دیے جاتے ۔ اب اس معاملہ میں سپریم کورٹ آئندہ سماعت میں ممکن ہے کہ گائیڈ لائن طے کرے ، بتائے کہ کن گھروں اور دکانوں وغیرہ کو ، اور کس ضابطے کے تحت منہدم کرنا ہے ، اور کسے نہیں ۔ ویسے عدالت عظمیٰ نے یہ تو واضح کر ہی دیا ہے کہ کسی ملزم یا کسی مجرم کا نہ گھر ڈھایا جا سکتا ہے ، اور نہ ہی دکان یا کوئی اور املاک ۔ جمعیۃ کے دونوں ہی دھڑوں نے سپریم کورٹ کے سامنے کچھ اہم نکات گائیڈ لائن کے طور پر رکھے ہیں ، یقیناً جج صاحبان اُن پر غور کریں گے ، اور امید ہے کہ وہ ایک ایسا فیصلہ دیں گے ، جو اس ملک کے متعصب حکمرانوں کے ہاتھوں کو ناانصافی کرنے سے روک دے گا ۔ جمعیۃ کے دونوں ہی دھڑوں کا شکریہ لازمی ہے کہ انہوں نے عرضیاں داخل کیں اور ان پر سماعت کو ممکن بنایا ۔

Exit mobile version