Site icon

اسرائیل کی غزہ اور لبنان پر جارحیت: عرب دنیا کا اتحاد وقت کی اہم ضرورت

اسرائیل کی غزہ اور لبنان پر جارحیت: عرب دنیا کا اتحاد وقت کی اہم ضرورت

ازقلم: محمد شہباز عالم مصباحی

سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی

کوچ بہار، مغربی بنگال

___________________

حالیہ دنوں میں اسرائیل کی جانب سے فلسطین اور لبنان پر بڑھتی ہوئی جارحیت ایک سنگین صورتحال اختیار کر چکی ہے۔ غزہ کی پٹی میں جاری حملوں کے بعد اب اسرائیل نے لبنان کو بھی اپنی عسکری کارروائیوں کا نشانہ بنایا ہے۔ دونوں ممالک میں انسانی زندگیوں کا نقصان، تباہ شدہ عمارتیں، اور بے گناہ شہریوں کی بے بسی عالمی سطح پر ایک تشویشناک صورت حال پیش کرتی ہیں۔ تاہم، سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اسرائیل کی ان جارحانہ کارروائیوں کے باوجود عرب ممالک، جو کہ اس خطے کے اہم کردار ہیں، خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

اسرائیل کی غزہ اور لبنان میں جارحیت

غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی جانب سے طویل عرصے سے بمباری اور حملے جاری ہیں، جس میں نہ صرف حماس کے خلاف کارروائیوں کا دعویٰ کیا جاتا ہے بلکہ بے گناہ فلسطینی عوام بھی شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ بچوں اور عورتوں سمیت ہزاروں افراد شہید ہو چکے ہیں، اور ہزاروں زخمی ہیں۔ اسرائیل کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ حملے دہشتگرد تنظیموں کے خلاف ہیں، لیکن حقیقت میں یہ حملے فلسطینی عوام کی روزمرہ زندگی کو مکمل طور پر مفلوج کر چکے ہیں۔

لبنان کی صورت حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ حالیہ حملوں میں اسرائیل نے لبنان کے جنوبی علاقوں کو نشانہ بنایا، جہاں حزب اللہ کے خلاف کارروائیوں کے نام پر عام شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لبنانی عوام خوف و دہشت میں مبتلا ہیں اور عالمی برادری کے خاموش رہنے کے باعث اسرائیل کو اپنے حملے جاری رکھنے کا بھرپور موقع مل رہا ہے۔

عرب ممالک کی خاموشی

ان حالات میں عرب دنیا کی خاموشی اور عدم اتحاد افسوسناک ہے۔ وہ ممالک جو اسلام، انصاف، اور عرب قوم پرستی کے دعویدار ہیں، اسرائیل کی ان جارحانہ کارروائیوں کے خلاف موثر اقدام اٹھانے سے قاصر ہیں۔ عرب لیگ، جو کہ عرب ممالک کا مشترکہ فورم ہے، اسرائیل کی جارحیت کے خلاف کوئی مؤثر حکمت عملی ترتیب دینے میں ناکام رہی ہے۔ یہ خاموشی عرب دنیا میں سیاسی اور عسکری کمزوری کا واضح مظہر ہے۔

عالمی برادری کا رویہ

جہاں ایک طرف عرب دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، وہیں دوسری طرف عالمی برادری بھی اسرائیل کے حق میں جھکی ہوئی نظر آتی ہے۔ امریکہ اور یورپی یونین جیسے ممالک کھلم کھلا اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں، جو کہ فلسطینی اور لبنانی عوام کے حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے بھی اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانے میں ناکام رہے ہیں، جس کی وجہ سے اسرائیل کو مزید حوصلہ ملتا ہے۔

عرب دنیا کا اتحاد: وقت کی ضرورت

اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ عرب ممالک اسرائیل کی جارحیت کے خلاف ایک مضبوط اور متحد موقف اختیار کریں۔ انفرادی سطح پر کچھ ممالک نے مذمتی بیانات تو دیے ہیں، لیکن عملی طور پر کوئی بھی متحدہ محاذ نہیں بن سکا۔ فلسطین اور لبنان کے عوام کو عرب دنیا سے امید ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف ایک متحد حکمت عملی اپنائیں گے۔

عرب دنیا کو اپنے اندرونی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسرائیل کے خلاف مشترکہ اقدام اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ وقت تقاریر اور مذمتوں کا نہیں بلکہ عملی اتحاد کا ہے۔ اگر عرب ممالک متحد ہو کر عالمی سطح پر اسرائیل کی مخالفت کریں، تو یہ ممکن ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اسرائیل پر دباؤ ڈالا جائے اور فلسطینیوں اور لبنانیوں کو انصاف دلایا جا سکے۔

سفارتی اور معاشی حکمت عملی

عرب ممالک کو نہ صرف سفارتی محاذ پر اسرائیل کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے بلکہ معاشی دباؤ بھی ڈالنا چاہیے۔ اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات رکھنے والے عرب ممالک کو فوری طور پر ان تعلقات پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور اسرائیل کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ اگر وہ اپنی جارحیت سے باز نہیں آتا، تو اس کی معاشی بنیادوں کو نقصان پہنچایا جائے گا۔

اختتامیہ

اسرائیل کی غزہ اور لبنان میں جاری جارحیت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب عرب دنیا خود اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔ عرب ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنی ترجیحات کو واضح کریں اور اپنے عوام کے حقوق کی حفاظت کے لیے متحد ہو جائیں۔ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف عرب دنیا کا اتحاد نہ صرف فلسطینیوں اور لبنانیوں کو ایک نئی زندگی دے سکتا ہے، بلکہ پورے خطے میں امن کی بحالی کے لئے بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اگر عرب ممالک نے اس وقت اپنی ذمہ داریوں کو نظر انداز کیا تو یہ ان کے عوام اور پوری عرب دنیا کے لیے ایک طویل المیعاد نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ وقت کی پکار ہے کہ عرب ممالک اسرائیل کے خلاف متحد ہو جائیں اور اپنی قوم کی عزت و وقار کو بحال کریں۔

Exit mobile version