کیا مسلمانوں کو سیاست سے دور رہنا چاہیے ؟

کیا مسلمانوں کو سیاست سے دور رہنا چاہیے ؟

تحریر: مسعود جاوید

__________________

مسلمانان ہند کو سیاست سے دور رہنے کی نصیحت کرنے والے دراصل ایسی مبہم بات کرکے عوام کو گمراہ کرتے ہیں ۔ سیاست تو زندگی کا اٹوٹ حصہ ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی کوئی اس سے کنارہ کش نہیں ہو سکتا ہے ۔ اگر آپ سیاست میں فعال طور پر حصہ نہیں لیں گے تو دوسرے آپ کے تعلق سے موافق یا مخالف سیاست کریں گے یعنی فاعل یا مفعول کی حیثیت سے سیاست میں آپ بہر صورت شریک ہوتے ہیں۔
بعض دانشوروں ( ایرکنڈیشند کمروں میں بیٹھنے والے مسلم سواد اعظم سے کٹے ہوئے ) اور ملی تنظیموں کے قائدین عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو صرف اور صرف تعلیم اور روزگار پر توجہ دینی چاہیے! یہ مسلمانوں کے لیے خیرخواہی نہیں بدخواہی ہے ۔ کسی بھی فرد یا قوم کی ترقی کے لئے ہمہ جہت نشوونما لازمی ہوتی ہے جس طرح ایک طالب علم کی ہمہ جہت نشوونما کے لئے اسکول میں صرف نصابی کتب نہیں پڑھائی جاتی ہے صرف پڑھنا اور لکھنا نہیں سکھایا جاتا ہے۔ ان کے لئے اکسٹرا کیریکولم بھی ہوتا ہے کھیل کود ورزش اور پرسنالٹی ڈیولپمنٹ پر توجہ دی جاتی ہے۔ بچے بچیوں کے یونیفارم صاف ستھرے ہوں یہ یقینی بنائی جاتی ہے یہاں تک کہ ان کے بال اور ناخن بھی چیک کئے جاتے ہیں۔

اپنے آئینی حقوق کے لئے اٹھنا اور عوام کو بیدار کرنا سیاسی عمل ہے۔ دستور اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ملک میں نا انصافیوں کے خلاف مظاہرے کرنا سیاست ہے اور مہذب سماج میں جمہوریت کا مظہر ہے۔ ملک کے باشندوں، بلا تفریق مذہب اور ذات برادری، کے خلاف ظلم وزیادتی اور نا انصافی کے خلاف سول سوسائٹی کے ساتھ منسلک ہونا سیاست ہے اور اپنے آپ کو ملک و قوم کا حصہ سمجھنے اور سمجھا جانے کے لئے لازمی ہے۔

سیاست سے علیحدگی کا ایک مفہوم یہ ہے کہ آپ انتخابی سیاست میں سرگرم نہ ہوں۔۔۔۔۔ یہ نصیحت سم قاتل ہے۔ خدارا ایسی باتوں پر توجہ نہ دیں۔

کوئی بھی مہذب سیکولر جمہوری ملک انتخابی سیاست سے کنارہ کشی کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ آپ ١٨ برس کے ہوگئے ووٹ کرنا آپ کا قومی فریضہ ہے۔
لیکن بندھوا مزدور کی طرح صرف ووٹ کرنا فریضہ نہیں ہے مکمل شراکت کا مفہوم ہے کہ ہر ذات برادری مذہب کے لوگ، اکثریت اور اقلیت میں تفریق کئے بغیر، قانون ساز اداروں؛ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں بھر پور نمائندگی کی جائے۔ اپنے اپنے حلقۂ انتخاب میں، بلا تفریق مذہب اور ذات، عوام کی خدمت کر کے اپنی پہچان بنائی جائے تاکہ عوام مذہب یا اقلیت و اکثریت کی بنیاد پر نہیں، خدمت کی بنیاد پر آپ کو ووٹ کریں۔
دستور ہند انتخابی سیاست کرنے کا حق یہاں کے ہر ایک شہری کو دیتا ہے۔ خواہ وہ ووٹ کرنے کا عمل ہو یا سیاسی پارٹی کی تشکیل کا۔ تاہم مسلمانوں کے تعلق سے یہ مسئلہ تھوڑا پیچیدہ اور حساس ہے۔ ماضی میں مذہبی بنیاد پر سیاسی پارٹی کی تشکیل ؛ ہندو مہاسبھا اور مسلم لیگ ، سے بہت سی تلخ حقائق وابستہ ہیں اسی کے پیش نظر مذہب کی بنیاد پر سیاسی پارٹی کی تشکیل ناپسندیدہ ہے۔ مسلمانوں نے ایسی سیاسی پارٹیوں کی تشکیل کر کے فائدہ نہیں نقصان ہی اٹھایا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ان پارٹیوں کے نام سے بھی یہی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ یہ خالص مسلمانوں کی پارٹی ہے؛ مسلم مجلس، علماء کونسل، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین!
‘ بھارتیہ جنتا پارٹی’ کیا اس نام سے کسی کا ذہن اس طرف جاتا ہے کہ یہ صرف ہندوؤں کی پارٹی ہے؟ ظاہر ہے نہیں۔ مزید یہ کہ شمولیت کے لئے اس کے دروازے ہر مذہبی فرقہ کے لئے کھلے ہوتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اس کی بعض سیاسی رجحانات اور عمل کی وجہ سے مسلمانوں کی اس پارٹی میں شمولیت بہت کم ہوتی ہے۔
کل ہند مجلس اتحاد المسلمین ہندوستان کی باضابطہ ایک سیاسی پارٹی ہے باضابطہ کا مطلب یہ کہ ہندوستانی دستور اور قانون کے دائرے میں ہے اور الیکشن کمیشن آف انڈیا سے معترف بہ ہے۔ اس کے بعد کسی بھی شخص کو اس کی تشکیل اور وجود کو لے کر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کی اجازت سے وہ پورے ملک میں جہاں کہیں سے اور جہاں جہاں سے الیکشن لڑنا چاہے لڑ سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن کی اجازت کے بعد ہم اور آپ کون ہوتے ہیں اسے حکم دینے والے کہ وہ حیدرآباد تک محدود رہے! ہاں "آل انڈیا” کے تناظر میں ان سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ آپ پہلے آندھرا اور اب تلنگانہ میں بلا تفریق مذہب عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں ناکام کیوں ہیں! بالخصوص پارلیمانی انتخابات میں تلنگانہ اور آندھراپردیش سے پارلیمنٹ تک آپ اکیلے ہی کیوں پہنچتے ہیں! پرانے حیدرآباد کے روایتی اور جذباتی ووٹروں کے علاوہ مجلس کی عوامی مقبولیت دوسرے علاقوں میں کیوں نہیں ہے!
آسام میں بدرالدین اجمل صاحب نے ایک سیاسی پارٹی آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ قائم کیا اور نہ صرف قائم کیا بلکہ چند سال قبل تک کافی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ بھی کیا۔ تاہم ” آل انڈیا ” کے باوجود دوسری ریاستوں تک توسیع نہیں کی اس لئے کہ ان کی پارٹی کے لئے زمین تیار نہیں تھی۔

بہار میں مجلس سرگرم ہوئی۔ انتخابات میں کتنی کامیابی ملی اس سے قطع نظر اقتدار میں شراکت کا موضوع اٹھا کر نام نہاد سیکولر پارٹیوں میں الارم تو بجا دیا۔ تاہم خالص مسلم پارٹی کی وجہ سے عام لوگوں بالخصوص دیگر برادران وطن کو تحفظات فطری ہے۔ نام نہاد سیکولر پارٹیوں ( راجد، جدیو اور کانگریس) کا رویہ مسلم ٹکٹ طلبگاروں کے تئیں بعض اوقات اہانت آمیز ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ان پارٹیوں سے وابستہ اکثریتی فرقہ کے بہت سے لوگ پارٹی کی آئیڈیالوجی کے برعکس اپنی نفرت انگیزی اور فرقہ پرست ذہنیت کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہماچل پردیش میں ان دنوں ایسا ہی دیکھنے کو مل رہا ہے۔

پارٹی کی آئیڈیالوجی کو طاق پر رکھ کر اور شمولی پالیسی کو یکسر نظر انداز کرنے کی وجہ سے بہت سے مسلمانوں کو پرشانت کشور کی جن سوراج میں امید کی کرن نظر آ رہی ہے۔ اللہ کرے یہ دوسرے انا ہزارے ٹابت نہ ہوں۔ اب ان کا معلنہ آئیڈیالوجی، اغراض ومقاصد اور لائحہ عمل مسلمانوں کو وابستگی پر مائل کر رہا ہے۔
اترپردیش ! ؟ ! ؟ اپنی آدھی ادھوری قیادت یا طے شدہ شراکت اور بارگیننگ پاور سے کوسوں دور ہے!

Exit mobile version