ابھی آپس میں الجھنے کا وقت نہیں، اپنے ہدف اور نشانہ پر نظر رکھیں
✍️ (مولانا ڈاکٹر ) ابوالکلام قاسمی شمسی
_____________________
جب کبھی ملت اور امت مسلمہ پر کوئی کٹھن اور دشوار موقع آیا ، اور مسلم سماج کے لوگ اس کا مقابلہ کرنے لگے ، تو اکثر ایسا دیکھنے میں آیا کہ ہمارے درمیان ہی ایسے حالات پیش آگئے یا پیدا کر دیئے گئے کہ ملت کے افراد آپس میں الجھنے لگے ، جس کی وجہ سے وہ اپنے ہدف اور نشانہ کو بھول گئے ،اور پھر ان کی طاقت منشر ہوگئی ، وہ اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام ہوگئے
ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں آئین کی حکومت ہے ،ملک کے آئین میں اقلیتوں کو کچھ بنیادی حقوق دیئے گئے ہیں ، ان ہی بنیادی حقوق میں سے مذہبی آزادی کا حق ہے ، حقوق تلفی پر قانونی چارہ جوئی کا حق ہے ، ہندوستان ایسا ملک ہے جس میں مسلمان اقلیت میں ہیں ، انہیں ملک کا آئین تحفظ فراہم کرتا ہے ، اس لئے جب کوئی برا وقت آئے تو ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ملک کے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے حقوقِ کی بازیابی کے لئے کوشش کریں۔
موجودہ وقت میں ہندوستان کے مسلمانوں کے سامنے دو بڑے مسائل آئے ، ایک تحفظ ناموس رسالت کا ، اور دوسرے اوقاف کے تحفظ کا ، ہمارے ملک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے خلاف نیز اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نازیبا کلمات اور بیان کا سلسلہ بڑھ گیا ہے ، جس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہو رہی ہے ، اسی نازک وقت میں اوقاف ترمیمی بل 2024 لاکر مرکزی حکومت نے پورے ملک میں انتشار پیدا کردیا ہے ، جس سے اوقاف کی جائیدادوں پر خطرات منڈلا رہے ہیں ، اس کی وجہ سے مسلمانوں میں بے چینی پائی جارہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
اللہ تعالیٰ کا فضل اور شکر رہا کہ وقف ترمیمی بل 2024 نے ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا کردیا ، جس کی وجہ سے بڑا اچھا ماحول پیدا ہوا ، بہت عرصہ کے بعد ملک میں ایسا ماحول دیکھنے میں آیا ۔
ایسے نازک وقت میں افسوس کی بات یہ ہوئی کہ ایک اہم تنظیم کے ذمہ دار کی جانب سے کچھ ایسے بیانات آئے ، جن کی وجہ سے اتحاد پھر پارہ پارہ ہوگیا ، اور سب اسی میں الجھ کر رہ گئے ، موصوف کے بیان سے مجھے بھی اتفاق نہیں ہے ، اس لئے کہ ہمارا ملک جمہوری ملک ہے ، اس میں آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر شہری کو پارٹی بنانے اور چلانے کا حق ہے ، نیز اختلاف رائے کے کچھ اخلاقی حدود بھی ہیں اور کچھ شرعی حدود بھی ہیں ، ان حدود کی رعایت ضروری ہے ، اگر حدود کی رعایت نہیں کی جائے گی تو ایسے ہی حالات پیدا ہوں گے ،جو موجودہ وقت میں دیکھنے میں آرہے ہیں ، اللہ حفاظت فرمائے۔
سی اے اے ، این پی آر اور این ار سی ملک کے لئے نہایت ہی خطرناک قوانین ہیں ، ان کی خطرناکی کو آسام میں دیکھا جا سکتا ہے ، یہ ملک کے بسنے والے مختلف طبقات کے درمیان بھید بھاؤ پیدا کرنے والا قانون ہے ، اور صدیوں سے ملک میں رہنے والے شہریوں کو شہریت سے خارج کرنے والا قانون بھی ہے ، یہی وجہ ہے کہ جب این پی آر اور این ار سی کی بات آتی ہے ،تو ملک کے شہری اس کی مخالفت پر اتر آتے ہیں ، اس لئے ہمارے قائدین میں سے کسی کی زبان سے اس کے نفاذ کی بات کسی طرح مناسب نہیں ہے ، ایسی بات جس سے ملت کا نقصان ہو ، اس سے بچنا ملی فریضہ ہے۔
بہرحال جو ہونا تھا ،وہ ہوگیا ، اب اپنے اہداف اور نشانہ کی جانب رخ ضروری ہے ، ہمارا پہلا ہدف تحفظ ہو ، جان ، مال ،عزت و آبرو کا تحفظ ، اپنے حقوقِ کا تحفظ ، دین و شریعت کا تحفظ ، مساجد و مدارس کا تحفظ ، درگاہ و قبرستان کا تحفظ ، ناموس رسالت کا تحفظ وغیرہ وغیرہ ، ان کے تحفظ کا حق ہمارے ملک کا آئین بھی دیتا ہے ، اگر کسی کے ذریعہ ان حقوقِ کی پامالی کی جاتی ہے ،تو ملک کا آئین آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اس کے خلاف آواز بلند کرنے کا حق دیتا ہے ، نیز قانونی چارہ جوئی کا حق بھی دیتا ہے
کسی بھی نازک موقع پر اس کی رعایت ضروری ہے کہ ہم اپنی ملی اور سماجی قیادت کو ساتھ لے کر چلیں ، انفرادیت میں کوئی قوت نہیں ہوتی ہے ، بلکہ قوت اور طاقت اجتماعی نظام میں ہے ، اجتماعی نظام کے تحت منعقد ہونے والے پروگرام بہت سے خطرات سے محفوظ رہتے ہیں۔
ہمارے ملک میں کچھ فرقہ پرست ذہنیت کے لوگ ماحول خراب کرنے کے لئے ہندو اور مسلمان کی بات کو ہوا دیتے رہتے ہیں ، ان کی سازش کو توڑنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم برادران وطن میں سے جو سیکولر ذہن کے ہیں ، ہم ان کو اپنے پروگرام میں ساتھ رکھیں ، تاکہ کسی کو ہندو اور مسلم کی سازش کرنے کا موقع نہ ملے۔
حق تلفی پر خاموشی سے ظالم کا حوصلہ بلند ہوتا ہے ، اس لئے حق تلفی یا ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہمارا آئینی حق ہے ، مگر موجودہ وقت میں تحفظ بنیادی ضرورت ہے ، کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جو ملک کے آئین کے خلاف ہو ، آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے محفوظ صورت حال میں حق تلفی پر آواز بلند کی جاسکتی ہے ، اس کی چند صورتیں حسب ذیل ہیں
(1) حق تلفی اور ظلم کے خلاف محفوظ جگہ پر پروگرام کر کے حکومت تک اپنی آواز پہنچائی جا سکتی ہے ، جیسا کہ موجودہ وقت میں وقف ترمیمی بل کے خلاف احتجاج کئے جارہے ہیں ، پر امن احتجاج پٹنہ کے باپو سبھا گار میں امارت شرعیہ کی جانب سے اور اے این سنہا انسٹی ٹیوٹ کے کا نفرنس ہال میں آل انڈیا ملی کونسل بہار کی جانب سے کیا گیا ، اسی طرح ممبئی اور کولکاتہ میں پروگرام کئے گئے۔
(2) حکومت کے اعلی ذمہ داروں تک اپنی بات پہنچانے کے لئے میمورنڈم مہم چلایا جائے ، اس کی شروعات بلاک سطح سے کی جائے ، اور ایک دن ہر بلاک کے بی ڈی اور کو میمورنڈم دیا جائے ، پھر ڈی ایم کو ، اپنے علاقہ کے ایم ایل اے اور ایم پی کو ، پھر اعلی افسران کو ، اس طرح اپنی تحریک کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔
(3) پر امن احتجاج کے لئے موثر طریقہ یہ بھی ہے کہ ملی تنظیموں کے اشتراک سے یہ پروگرام منعقد کیا جائے ، جس کے تحت ایک دن ایک گھنٹہ کا پروگرام کیا جائے ، جس میں پورے شہر میں تمام لوگ متعینہ وقت پر اپنے مطالبہ کا بینر لے کر اپنے گھر کے سامنے کھڑے ہو جائیں ، تاکہ میڈیا کو پروگرام نشر کرنے میں آسانی ہو ، یہ نہایت ہی محفوظ طریقہ ہے۔
(4) حق تلفی کے خلاف ملک کا آئین قانونی چارہ جوئی کا حق بھی دیتا ہے ، لور کورٹ ، ہائی کورٹ ، ڈبل بینچ ، ٹریپل بیچ ، سپریم کورٹ ، اس سے بھی آگے ، ہم کہیں بھی حسب ضرورت ملکی قانون کے مطابق قانونی چارہ جوئی کر سکتے ہیں ، غرض ہمیں کسی بھی حال میں مایوس نہیں ہونا چاہئے۔
خلاصۃ یہ کہ ہم جو بھی کام کریں ، اس میں اپنی قیادت کو ساتھ رکھیں ، ملک کے آئین اور قوانین کو پیش نظر رکھیں ، پر امن رہیں ، اپنے تحفظات کو پیش نظر رکھیں ، اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے۔