Site icon

مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے

مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے

✍️ محمد فاروق ندوی نصیرآباد

استاد/مدرسہ نورالاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ _________________

مولانا ابو بکر صدیق ندوی صاحب مرحوم سنیچر کی رات میں تقریبا دو بجے دلی میں اس دار فانی سے عالم جاودانی کی طرف منتقل ہوگئے ، وہ اپنے گھر سے علاج کی غرض سے وہاں گئے ہوئے تھے، مولانا مرحوم ادھر ایک سال سے دل کے مریض تھے اور ان کا علاج غازی آباد کے ایک حکیم صاحب کے یہاں سے چل رہا تھا ، جب پہلی بار حکیم صاحب کو دکھایا تو انھوں نے بتایا کہ آپ کے دل کی دونوں نالیاں بلاک ہورہی ہیں ، انھوں نے دوا دیا، مولانا نے تین چار مہینے دوا استعمال کرنے کے بعد دوبارہ دکھایا تو حکیم صاحب نے بتایا کہ اب آپ ستر 70/فیصد ٹھیک ہیں، اس کے بعد مولانا دوا منگواتے رہے اور استعمال کرتے رہے تھوڑی بہت تکلیف رہتی تھی مگر اللہ کا یہ مخلص بندہ مدرسہ کے کاموں میں اس قدر مشغول رہتا تھا کہ اپنی بیماری اور صحت پر بھی زیادہ توجہ نہیں دیتا تھا ، بس کبھی کبھار اتنا کہتے تھے کہ ,, ہماری طبیعت اندر سے ٹھیک نہیں رہتی ہے ،،اور اس دوران کوئی جانچ وغیرہ بھی نہیں کرائی جس سے مرض کی پوزیشن اور صورتحال واضح ہوجاتی، جب 15/ستمبر کو مدرسہ میں ششماہی امتحان کے بعد چھٹی ہوئی تو اپنے گھر (دھوریا ، تلولی ، سدھارتھ نگر) چلے گئے تھے، گھر میں طبیعت خراب ہوئی تو علاج کی غرض سے دلی تشریف لے گئے ، جانچ رپورٹ کے مطابق 85/فیصد آپ کے وال خراب ہو گئے تھے، 28/9/2024/بروز سنیچر کو اسپتال میں بھرتی ہونا تھا اور اس کے بعد مکمل علاج ہونا تھا مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا، رات تقریباً 1/بجے اٹیک پڑ گیا اور حالت بگرتی چلی گئی، اسپتال لے جایا گیا مگر کچھ حاصل نہ ہوا اور 2/بجے رات میں روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ انا لله وانا إليه راجعون

دلی سے ان کے آبائی گاؤں (دھوریا) لایا گیا ، جہاں ان کی نماز جناب حضرت مولانا اسد اللہ ندوی صاحب مہتمم مدرسہ نورالاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ نے پڑھائی اور وہیں مرحوم کی تدفین ہوئی ، ان کی نماز جنازہ اور تدفین میں مدرسہ نورالاسلام کنڈہ و موئی کے اساتذہ ، موئی گاؤں ، بسنت گنج، دین گنج ،بندہ گنج، گنگا پار، نصیرآباد اور ضلع پرتاپ گڑھ و رائے بریلی کے دیگر مقامات سے 70-80/احباب اور شاگرد شریک ہوئے تھے۔

مرحوم مولانا ابو بکر صدیق ندوی بن حاجی خیر الانام بن حافظ محمد خلیل بن حافظ شکور صاحب (پر دادا کے نام میں شک ہے، البتہ یہ بات یقینی ہے کہ حافظ وہ بھی تھے، اس اعتبار سے مرحوم خود، ان کے دادا اور پر دادا تینوں حافظ قرآن تھے، اور ان کے صاحبزادوں میں بھی دو بچے عزیزم ظفر احمد ندوی اور عزیزم عزیر احمد ندوی حافظ قرآن اور عالم دین ہیں) اپنے گاؤں دھوریا ، موضع تلولی ، تحصیل بانسی ،تھانہ شیونگر ڈڑئ ، ضلع سدھارتھ نگر ،یوپی ، انڈیا میں 1968/میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے مکتب (مدرسہ اسلامیہ عربیہ تعلیم الاسلام) میں حاصل کی، اس کے بعد 4/5/ماہ اپنے ماموں کے گاؤں( پیڑی) میں بھی تعلیم حاصل کی تھی، اس کے بعد حفظ قرآن مجید کے لئے مدرسہ ,,اصلاح المسلمین ،، جمدا شاہی، بستی میں داخلہ لیا اور وہیں حفظ قرآن مکمل کیا ، اس کے بعد ثانویہ کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے مدرسہ ,,فلاح المسلمین،، تیندوا ، راۓ بریلی میں داخلہ لیا ، اور عالمیت و فضیلت عالمی درسگاہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے کی، اور 1994/میں سند فراغت حاصل کی ،
فراغت کے بعد 4/5/ماہ اپنے گھر ہی رہے، پھر سال 1994/ کے اخیر میں مدرسہ نورالاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ میں بحیثیت مدرس تدریسی خدمات انجام دینا شروع کیا، مرحوم نے اتنے خلوص، محنت، لگن، فکر ، وقت کی پابندی کے ساتھ کام کیا کہ بہت جلد مدرسہ کے ذمہ داروں کا اعتماد حاصل کر لیا اور نگراں پھر نگران اعلیٰ بنا دیے گئے، جب مدرسہ نورالاسلام موئی کلاں کا قیام عمل میں آیا تو آپ کو وہاں کا منتظم اور نائب مہتمم منتخب کیا گیا ، مدرسہ ھذا کے مہتمم جناب حضرت مولانا اسد اللہ ندوی صاحب نے مرحوم کی نماز جنازہ سے پہلے اپنے تعزیتی کلمات میں کہا تھا ,,مولانا ابو بکر صدیق ندوی صاحب مرحوم کی خدمات اور قربانیاں مثالی اور قابل تقلید ہیں ،وہ میرے معتمد تھے ،اور میری نیابت کرتے ہوئے تمام انتظامی امور انجام دیتے تھے ،وہ ہمارے قوت بازو تھے، ان کے اچانک چلے جانے سے ادارہ كا بہت بڑا نقصان اور خلا ہوگیا ہے، ان کی وفات میرے لیے ذاتی حادثہ ہے، کیونکہ وہ میرے عزیز، رفیق اور معاون تھے۔

Exit mobile version