Site icon

امرِت ولسن کی کتابچہ "Hindutva and its Relationship with Zionism” (2023): ایک تعارفی مطالعہ

امرِت ولسن کی کتابچہ "Hindutva and its Relationship with Zionism” (2023): ایک تعارفی مطالعہ

✍️ محمد شہباز عالم مصباحی

سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی

کوچ بہار، مغربی بنگال

____________________

امرِت ولسن کی کتابچہ "Hindutva and its Relationship with Zionism” (2023) ہندوتوا اور صیہونیت کے درمیان نظریاتی اور سیاسی تعلقات کا تفصیلی جائزہ پیش کرتی ہے۔ اس کتابچہ میں ولسن نے دونوں تحریکوں کی تاریخی بنیادوں، ان کی حکمت عملیوں، اور ان کی انکارِ شمولیت والی قوم پرستی کے نظریات کا گہرائی سے تجزیہ کیا ہے۔ آئیے ہم اس کے اہم موضوعات کو اردو زبان میں تفصیل سے بیان کرتے ہیں:

1. ہندوتوا اور صیہونیت کا تاریخی پس منظر:

امرِت ولسن ہندوتوا اور صیہونیت کی تاریخی پس منظر کو بیان کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ دونوں تحریکیں مختلف سیاق و سباق میں تشکیل پائیں، مگر دونوں کا مقصد اپنی مذہبی یا قومی شناخت کو اپنے ما سوا اثرات سے بچانا تھا۔ صیہونیت ایک قوم پرست تحریک کے طور پر انیسویں صدی کے آخر میں ابھری، جس کا مقصد یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن کا قیام تھا، جو 1948ء میں اسرائیل کی ریاست کے قیام پر منتج ہوا۔ اسی طرح، ہندوتوا بیسویں صدی کے اوائل میں، ونائک دامودر ساورکر جیسے رہنماؤں کی قیادت میں، برطانوی استعماریت اور ہندوستان میں مسلم اثر و رسوخ کے ردِ عمل کے طور پر ابھری۔

دونوں تحریکیں اپنے مذہبی اور قومی تشخص کی بازیابی کی جدو جہد پر مبنی ہیں۔ صیہونیت یہودی بالادستی کے تصور پر قائم ہے جبکہ ہندوتوا کا مقصد ہندوستان کو ایک ہندو ریاست کے طور پر قائم کرنا ہے، جہاں مسلم اقلیت کو سماجی اور سیاسی طور پر کمزور کیا جائے۔

2. نظریاتی بنیادیں: قوم پرستی اور خارجیت پالیسی:

امرِت ولسن کا مؤقف ہے کہ ہندوتوا اور صیہونیت دونوں نظریے اقلیتی گروہوں کو اپنے قومی تشخص سے خارج کرتے ہیں۔ ہندوستان میں، ہندوتوا کے نظریے کے مطابق ہندوستان ایک ہندو قوم ہے، حالانکہ یہاں مسلمان ایک بڑی اقلیت ہیں۔ اسی طرح، صیہونیت اسرائیل کو ایک یہودی ریاست کے طور پر دیکھتی ہے، جبکہ فلسطینی آبادی کی کثیر تعداد کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔

دونوں تحریکوں کا بنیادی مقصد ایک ایسے قومی تشخص کی تشکیل ہے جس میں مذہبی اور نسلی تفریق کی بنیاد پر دوسروں کو خارج کیا جائے۔ اس طرح، فلسطینیوں کو اسرائیل میں اور مسلمانوں کو ہندوستان میں دوسرے درجے کا شہری تصور کیا جائے۔

3. فوجی حکمت عملی اور ریاستی جبر:

ولسن اس بات پر زور دیتی ہیں کہ ہندوتوا اور صیہونیت نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے فوجی حکمت عملیوں کو اپنایا ہے۔ کتابچے میں بھارت اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے ہوئے فوجی تعاون اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کا ذکر کیا گیا ہے، خاص طور پر کشمیر جیسے متنازعہ علاقوں میں ہندوستان اسرائیلی نگرانی کے نظام اور انسداد بغاوت کی حکمت عملیوں کو استعمال کرتا ہے۔

دونوں تحریکیں اپنی جارحانہ پالیسیوں کو "قومی دفاع” کے نام پر جائز قرار دیتی ہیں۔ ہندوتوا کے ماننے والے مسلمانوں کو ہندو قوم کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں، جبکہ صیہونی نظریہ فلسطینیوں کو اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔

4. انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں:

امرِت ولسن اس کتابچہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بھی نمایاں کرتی ہیں جو ہندوتوا اور صیہونیت کی پالیسیوں کے نتیجے میں سامنے آئی ہیں۔ فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے، یہودی بستیوں کی تعمیر، اور غزہ کا محاصرہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی واضح مثالیں ہیں۔ ہندوستان میں بھی مودی حکومت کی پالیسیاں، جیسے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنا اور شہریت ترمیمی قانون (CAA) کا نفاذ، مسلمانوں کے خلاف امتیازی رویوں کو بڑھاوا دے رہی ہیں۔

دونوں تحریکوں نے "دوسروں” کی غیر انسانی (حیوانی) تصویر پیش کی ہے—مسلمانوں کی ہندوستان میں اور فلسطینیوں کی اسرائیل میں۔ اس طرح، وہ اپنی جارحانہ پالیسیوں کا جواز پیش کرتے ہیں اور انسانی حقوق کو نظر انداز کرتے ہیں۔

5. عالمی سطح پر اتحاد کا کردار:

ولسن اس بات پر بھی روشنی ڈالتی ہیں کہ ہندوتوا اور صیہونیت کے اتحاد کو عالمی سطح پر مضبوط حمایت حاصل ہے۔ بھارت اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات صرف فوجی اور سلامتی کے مفادات تک محدود نہیں ہیں، بلکہ یہ نظریاتی ہم آہنگی پر بھی مبنی ہیں۔ مودی اور نیتن یاہو دونوں اپنے ممالک میں مذہبی قوم پرستی کے حامی رہنما کے طور پر ابھرے ہیں اور خود کو عالمی اسلامی تحریکوں کے خلاف مضبوط قلعے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

6. بائیں بازو اور ترقی پسند تحریکوں کا دباؤ:

امرِت ولسن کا کہنا ہے کہ ہندوتوا اور صیہونیت دونوں بائیں بازو کی تحریکوں کو اپنے لیے ایک خطرہ سمجھتے ہیں۔ ہندوستان میں، سیکولر اور بائیں بازو کے دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کو مودی حکومت کے خلاف بولنے پر "غدار” قرار دیا جاتا ہے۔ اسرائیل میں بھی، قبضے کے خلاف بولنے والوں یا فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کرنے والوں کو "دشمن” سمجھا جاتا ہے۔

ولسن کہتی ہیں کہ دونوں نظریات مساوات اور انسانی حقوق کی حمایت کرنے والی تحریکوں کو اپنے نظریے کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں اور انہیں دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔

7. عالمی یکجہتی کے لیے چیلنج:

آخر میں، امرِت ولسن خبردار کرتی ہیں کہ ہندوتوا اور صیہونیت کا بڑھتا ہوا اتحاد عالمی انصاف اور انسانی حقوق کی تحریکوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ دونوں نظریات کو طاقتور عالمی قوتوں، خاص طور پر امریکہ، کی حمایت حاصل ہے، جو اسرائیل کا دیرینہ حلیف ہے اور مودی کے بھارت کے ساتھ بھی قریبی تعلقات قائم کر رہا ہے۔

تاہم، ولسن عالمی یکجہتی کی امید دلاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ کشمیر اور فلسطین کے حامیوں کے درمیان بڑھتا ہوا رابطہ ان تحریکوں کے خلاف مزاحمت کی علامت ہے۔

Exit mobile version