اویسی۔مدنی: اپنے اپنے ظرفِ محبت کی بات ہے
✍️ ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
_________________
مولانا محمود مدنی کے ایک چیانل کو دیئے گئے انٹرویو کے دوران بیرسٹر اسدالدین اویسی سے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا گیا ان پر کافی تنقید ہورہی ہے۔ بلکہ جمعےۃ العلمائے ہند سے وابستہ بعض اہم شخصیات نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے جمعےۃ سے استعفیٰ بھی دیا ہے۔ محمود مدنی نے جن خیالات کا اظہار کیا کہ ان کے اپنے ہیں اور تعریف اس بات کی کی جانی چاہئے کہ انہوں نے اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کیا۔ حالانکہ وہ انٹرویو لینے والے کے جال میں پھانس لئے گئے تھے۔ عام طور پر شاطر اور شرپسند قسم کے صحافی ایسا ہی کام کرتے ہیں۔ وہ لقمہ دے کر الفاظ اُگلواتے ہیں۔ اور پھر ان کی ٹی آر پی اور انٹرویو دینے والے کی مخالفت بڑھتی جاتی ہے۔ محمود مدنی سے اختلاف ہوسکتا ہے۔ مگر انہوں نے منافقت نہیں کی۔ اگرچہ کہ وہ اسد صاحب کی سیاست سے متعلق کئے گئے سوال ٹال سکتے تھے یا مبہم جواب دے سکتے تھے۔ جوبھی ہوا وہ موجودہ حالات میں ملی اتحاد کے لئے کچھ بہتر نہیں ہوا۔محمود مدنی نے اس سے پہلے بھی کئی بار اسد اویسی کے علاوہ اعظم خان کے خلاف کھل کر نہ صرف بیانات دیئے بلکہ انہیں مسلمانوں کا دشمن بھی قرار دیا تھا۔ 2017ء میں جب کسی صحافی نے اسد اویسی سے کہا کہ محمود مدنی نے ان کے خلاف بیان دیا ہے تو اسد اویسی کی اعلیٰ ظرفی اور حکمت اور بصیرت کا ثبوت ہے کہ انہوں نے اس صحافی سے کہا کہ وہ انہیں (اویسی) اور محمود مدنی کو آپس میں کیوں لڑانا چاہتے ہیں؟ پھر ا نہوں نے محمود مدنی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ جمعےۃ العلماء کے صدر کی حیثیت سے منتخب ہونے پر انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ اسدالدین اویسی کا یہ بیان ان کے مضبوط ہونے ثبوت تھا۔ محمود مدنی کا مخالف اویسی بیان شاید ان کی کمزوری یا مجبوری تھی۔ سات برس بعد محمود مدنی ایک بار پھر اپنی زبان اور اپنے جذبات پر کنٹرول نہ کرسکے۔ ان کے بیان پر لوگوں کی ناراضگی فطری ہے‘ مگر اس پر تعجب یا حیرت کی بات نہیں ہے‘ کیوں کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسد صاحب پر کسی نے کھل کر تنقید کی تو کسی نے دبے لفظوں میں‘ کسی نے ڈرائننگ روم کی محفلوں میں ان کی پالیسی پر تنقید کی‘ کسی نے انتخابی مہمات کے دوران تقاریر میں بھی اور اخباری بیانات کے ذریعہ بھی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ہر ایک کو اپنے خیالات کے اظہار کا حق ہے۔ جب کبھی الیکشن کا موسم آیا‘ مجلس اتحادالمسلمین نے حیدرآباد کے علاوہ کسی اور حلقہ سے اپنے امیدوار اُتارے تب ان حلقوں سے الزامات کی بازگشت سنائی دیتی کہ آواز اٹھتی رہی کہ مسلم اور سیکولر ووٹس کی تقسیم کے لئے مجلس نے اپنے امیدوار کھڑا کئے۔
مہاراشٹرا، اترپردیش، راجھستان ہو یا کوئی اور ریاست مجلس نے اپنے امیدوار میدان میں اُتارے تو ملک بھر سے نام نہاد مسلم قائدین، اکابرین، مسلم ووٹس کو منتشر نہ کرنے کی غرض سے مجلس کو مقابلہ سے دستبرداری کا مشورہ دیتے رہے۔ حتٰی کہ مولانا سجاد نعمانی نے بھی اسد صاحب کے نام ایک کھلا خط میڈیا کے نام جاری کیا تھا۔ مجلسی قائدین کو بی جے پی کی بی ٹیم بھی کہا گیا۔ اسد صاحب کو کئی بار مختلف ریاستوں میں عوامی جلسوں میں وضاحت کرنی پڑی اور انہوں نے الزام عائد کرنے والوں کو اپنا الزام ثابت کرنے کیلئے چیالنج کیا تھا کہ وہ مدینہ طیبہ میں روضہ اقدس کے پاس قسم کھائیں۔ وہ (اویسی) الزام کو غلط ثابت کرنے کیلئے تیار ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسد صاحب سے متعلق اس قسم کے خیالات کا اظہار ہر دور میں ہوتا رہا۔ حالیہ الیکشن کے دوران کس کس نے کیا کیا نہ کہا۔ یہ اور بات ہے کہ الیکشن کے بعد جب ساری طاقتیں مل کر مجلس کو نقصان نہ پہنچاسکیں تو انہوں نے دوستی کرلی۔
محمود مدنی کے انٹرویو کے بعد اس بات کی مزید تصدیق ہوچکی ہے کہ اسدالدین اویسی ہندوستانی مسلمانوں کے واحد مسلم لیڈر ہیں جن سے نظریاتی اختلافات کے باوجود حیدرآباد سے کشمیر تک یکساں مقبولیت حاصل ہے۔ جن کی بعض پالیسیوں سے اختلافات ہوسکتا ہے مگر ان کی قائدانہ صلاحیت پر کوئی ا نگلی نہیں اٹھاسکتا۔ عوامی جلسہ ہو یا ایوان پارلیمان اسد الدین اویسی کی تقریر سن کر لوگ بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں ”دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے“۔
ایوان پارلیمنٹ میں اس وقت جتنے بھی مسلم قائدین ہیں‘ ان میں یقینا اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں اور اپنے اپنے علاقہ کے مقبول ترین قائد بھی‘ مگر جوبات اویسی میں ہے‘ وہ اوروں میں کہاں۔ جو دوسری جماعتوں سے وابستہ ہیں‘ انہیں اپنی قوم کے حقوق کے لئے زبان کھولنے کے لئے بھی ہائی کمان سے اجازت لینی پڑتی ہے۔ کبھی غلطی سے انہوں نے زبان کھولی تو انہیں اندرونی طور پر پارٹی ہائی کمان سے وارننگ مل جاتی ہے۔ اسد اویسی خود ہائی کمان ہیں‘ جو ہر پارٹی کے ہائی کمان سے راست ٹکرانے کی ہمت اور صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہر ایک فورم پر نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ دلتوں، عیسائیوں اور دوسری اقلیتوں کے لئے بھی آواز اٹھانے والی شخصیت ہیں جس کا اعتراف تلنگانہ کے چیف منسٹر اے ریونت ریڈی نے مسلمانوں کے ایک زبردست اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا اور کہا کہ ایوان پارلیمان میں سیاسی نظریاتی اختلافات کی بدولت انہیں اس بات کا فخر ہوتا رہا کہ ان کے شہر سے تعلق رکھنے والے اسد اویسی مظلوموں کے لئے آواز اٹھاتے ہیں۔ ایوان پارلیمنٹ میں بعض مسلم قائدین منتخب ہوبھی گئے ہیں تو ان میں سے کوئی بھی ایسا قائد اپنی جگہ مکمل نظر نہیں آتا۔ اپنے خلاف الزامات اور بہتان طرازیوں سے بے نیاز اسد اویسی نے ملک گیر سطح پر اپنی خدمات جاری رکھی ہیں۔ جہاں تک مولانا محمود مدنی کا تعلق ہے وہ ہندوستان کی قدیم ترین باوقار تنظیم جمعےۃ العلمائے ہند کے ایک دھڑے کے قائد ہیں‘ دوسرے دھڑے کے قائد ان کے سگے چچا مولانا ارشد مدنی ہیں۔ اِن چچا بھتیجے میں واقعی اختلاف ہے یا پھر ایک حکمت عملی کے طور پر انہوں نے جمعیت کو تقسیم کررکھا ہے تاکہ مختلف موقعوں پر جمعیت کے یہ دونوں دھڑے اپنی اپنی اہمیت ثابت کرتے ہوئے ارباب اقتدار و اپوزیشن سے اپنے مطالبات منواتے رہیں۔ جمعےۃ العلمائے ہند ہمیشہ سے کانگریس کی وفادار رہی۔ مولانا محمود مدنی کے والد اور دادا نہ صرف اکابرین میں شمار کئے جاتے ہیں بلکہ وہ مجاہدین آزادی بھی رہے اور ان کی خدمات ناقابل فراموش رہی ہیں۔ جمعےۃ کے ان دونوں گروپس کی سب سے بڑی طاقت مساجد ہیں۔ بیشتر مساجد کے ائمہ اور انتظامیہ کا تعلق کسی نہ کسی طرح سے جمعیت سے رہتا ہے۔ بغیر کسی وسائل کے یہ سینہ بہ سینہ اپنی بات پورے ہندوستان میں عام کرسکتے ہیں۔ مولانا ارشد مدنی اور مولانا محمود مدنی دونوں ہی کا اپنا مقام ہے۔ مذہبی گھرانوں سے تعلق ہونے کی وجہ سے یہ قابل احترام ہیں۔ اگرچہ کہ انہوں نے غیر ضروری طور پر عملی سیاست میں خود کو مشغول رکھا۔ ویسے یہ ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی۔ البتہ ملت کے دانشور حضرات کو چاہئے تھا کہ مدنی چچا بھتیجہ کو اس بات کا مشورہ دیتے کہ مدنی خاندان مذہبی قیادت سنبھالیں اور عملی سیاست‘ پیشہ ور سیاست دانوں کے حوالے کردیں۔ جمعےۃ اور دیگر مسلم تنظیموں کے باہمی اشتراک سے مسلمانوں کی ذہنی فکری، جسمانی تربیت کی ذمہ داری قبول کرے۔ عقائد کی اصلاح کرے مسلکی اختلافات سے قوم کو پاک و صاف کرنے کی کوشش کرے۔ اور مستند سیاسی جماعتیں جیسے مجلس اتحادالمسلمین، اے آئی یو ڈی ایف، مسلم لیگ مسلمانوں کی سیاسی طور پر بااختیار بنانے کا فریضہ انجام دے۔ جس طرح آر ایس ایس نے ہندوؤں کی ذہنی و فکری تربیت کرتے ہوئے ہندوستان کو کہاں سے کہاں پہنچادیا اور مسلم تنظیم اور جماعتیں آپس میں لڑجھگڑ کر آزادی کے وقت جہاں تھی اس سے بھی پستی میں گرادیا۔
ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت کے لئے سبھی کے دل میں ارمان تڑپ رہے ہیں ان میں مذہبی شخصیات بھی ہیں‘ جو اپنے یوٹیوب چیانلس کے ذریعہ قوم کو نصیحت میں مصروف ہیں۔ مگر نہ تو ان کی عمر نہ ہی ان کی صلاحیت انہیں ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت کی اجازت دیتی ہے۔ اس وقت اسد اویسی جو 55برس کے ہیں‘ ماشاء اللہ اپنی صحت، صلاحیت اور غیر معمولی مقبولیت کی بدولت ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت کے اہل ہیں۔ کل ہند سطح پر ایک مجلس شوریٰ کا انتخاب کیا جائے جن کی رہنمائی اسد اویسی ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت کرے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ مسلمانوں کے مذہبی معاملات تک محدود ہے۔ اور اس میں شامل تمام اکابرین اپنے اپنے طور پر ملت کے انتشار کو ختم کرتے ہوئے انہیں متحد کرنے میں اہم رول دا کرسکتے ہیں۔
اس وقت ہی نہیں بلکہ ہر دور میں ہر مسئلک کا رہنما سب کے لئے قابل قدر قابل احترام ہونا چاہئے۔ بعض باتوں پر اختلاف ہوسکتا ہے۔ اللہ کی وحدانیت، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا ہے۔یہی اٹل حقیقت ہمیں تسبیح کے دانوں کی طرح ایک دوسرے سے جوڑے رکھ سکتی ہے۔ بہرحال! محمود مدنی نے جو کہا ان کے خیالات ہیں‘ جو دل میں اسے زبان پر لایا اگرچہ کہ ایک اچھے انسان کی یہ نادانی ہے۔ حق گوئی کی تعریف کی جانی چاہئے۔ مگر شاطر عناصر کو اس کے استحصال کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے۔