Site icon

توہین رسالت: خاکش بدہن

توہین رسالت: خاکش بدہن

✍️ شاہد عادل قاسمی

_______________

شر پسندی،دل آزاری،ستم گری ،توہین آمیزی اور فتنہ سامانی سے آج کل ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کے صبروتحمل اور ضبط وبرداشت کا بڑا امتحان لیا جارہا ہے،ہفوات اور ہذیان گوئ سے مشتعل کرکے آپسی امن وامان اور بھائ چارگی کو ٹھیس پہنچانے کی منظم سازشیں رچی جارہی ہیں اور اس پر حکمران وقت بھی مکمل خاموشی اختیار کرکے یا تو شرپسندوں کی ہمت افزائ کررہی ہے یاکسی مضبوط پلاننگ کے تحت اس پر روک لگانے کی تدبیر سوچ رہی ہے مگر دوسرا پہلو کمزور اور دیرپا ثابت ہورہا ہے ،کیوں کہ ان دو مہینوں کے اندر اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دوسرا واقعہ سامنے آچکا ہے،ماہ اگست میں مہاراشٹر کی زمین پر ایک سنت “مہاگیری”نے توہین رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے کڑوروں مسلمانوں کی دل شکنی کی تھی،جس کی اس نازیبا حرکت پر انسانیت کراہ اٹھی تھی،خاموش احتجاج اور جائز مطالبات کے ساتھ سرکار کو میمورنڈم بھی دیا گیا تھا،۱۶۷مقدمات ملک کے مختلف حصوں میں مندرج بھی ہوۓ ہیں،تاریخی جلوس سے مہاراشٹر کی راجدھانی کو گاڑیوں اور انسانی سروں سے بھر دیاگیا تھا مگر معاملہ تاہنوز ٹھنڈے بستے میں ہی ہے اور آج بھی مہاگیری آزادانہ زندگی جی رہا ہے ،جو کسی طرح بھی ملکی صحت کے لیے درست نہیں ہے،ابھی یہ سلسلہ چل ہی رہاتھا کہ ڈاسناغازی آباد کے بدنام زمانہ اور شرپسند سنت “یتی نرسنگھانندسرسوتی “نے کھلے منچ سے ایسا گھناؤنا اور ذلت آمیز بیان دیا کہ مسلمانوں کے قلب وجگر ہی نہیں جان وجسم تک چھلنی ہوگئے ،سرسوتی کو اس کی جان کاری بخوبی ہے کہ مسلمان اپنی جان سے زیادہ عزیز رسول کی عظمت واحترام کو سمجھتا ہے،سرسوتی یہ بھی جانتا ہے کہ شان رسالت پر ایک حرف اسود بھی مسلمان برداشت نہیں کرسکتا ہے،سرسوتی یہ بھی جانتا ہے کہ مسلمان سب کچھ گوارا کرسکتا ہے لیکن نبی کی شان میں گستاخی کو برداشت نہیں کر سکتا ہے اور یہ پاکھنڈی یہی سمجھ کر ایسا دل آزار بیان دیتا ہے تاکہ مسلمان مشتعل ہوجاۓ اور کنٹرول سے باہر ہوکر کچھ ایسا کر جاۓ جسے ہم ڈھال بنا سکیں ، سرسوتی کو سمجھنا چاہیے کہ یقینا ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جان فدا کرنے والے لوگ ہیں،ہم اپنے والدین اور اولاد ہی نہیں بلکہ اپنی جانوں سے زیادہ عزیز اپنے نبی کو سمجھتے ہیں،ہمارا قرآن خود کہتا ہے”النبی اولی باالمومنین من انفسھم وازواجہ امہاتہم (سورہ احزاب)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں “انا اولی بکل مومن من نفسہ(مسلم)

ہم کامل مومن اس وقت تک نہیں ہوسکتے جب تک کہ ہماری جانیں ،ہماری اولادیں اور ہمارے والدین کی محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غالب نہ ہوجائیں “لا یؤمن احد کم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ الناس اجمعین (حدیث)سے ہمیں یہی تو بتایا گیا ہے-

سروسوتی نے ناپاک دہن اور خاکم دہن سے جن لغویات کا اظہار کرکے اپنی باطنی خمیر اور اندرونی جراثیم کا پتہ دیا ہے انھیں کوئ بتادے کہ اے گستاخ رسول جس عظیم پیغمبر کے بارے میں تم نے خباثت ظاہر کی ہے ان کو خالص مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ عام انسانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا گیا ہے،انھیں رحمتہ للعالمین کہا گیا ہے،انھیں کی وجہ سے کائنات کو سجایا گیا ہے،انھیں کے لیے یہ دنیا ڈیزائن کی گئی ہے،خالق کائنات نے اپنے بعد اپنے محبوب کا ہی ذکر کیا ہے،اپنے ستر ناموں میں انھیں شریک کیا ہے،تخلیق کائنات سے قبل جونام کسی کا نہیں تھا وہ نام نام احمد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی منتخب ہوا ہے،تورات وزبور میں جو نام احمد کا ذکر ہے وہ آپ ہی ہیں،عرش اعظم کے پایہ پر،جنت کے درختوں اورمحلوں پر اور آسمان کے سبھی حصوں پر آپ کا ہی نام نامی اسم گرامی نقش ہیں،بادلوں کا سایہ اور درخت سمیت پھل پھول کی رونے کی آواز،بانجھ عورت کی گود بھرائ جیسے معجزات بھی آپ سے ہی منسوب ہیں،شق قمر،مقام حدیبیہ پر جارئ چشمہ ،سدرہ المنتہی سے حضرت جبرئیل کے بازوؤں کی آواز کی سماعت،آسمان دنیا پر ہجوم ملائکہ کےشور کی سماعت،آمد جبرئیل پر خوشبؤوں کی قوت شامہ سے لطف اندوزی،لعاب مبارک سے کھارے پانی کی شیریں میں تبدیلی اور شیرخوار بچوں کے لیے دودھ جیسی خوراک بننے کے معجزات بھی آپ سے ہی جڑے ہوۓ ہیں، یہی وجہ ہے کہ قران بھی آپ کی ذات بابرکت کو یوں بیان کرتا ہے *ورفعنالک ذکرک*

سرسوتی جیسے تنگ ذہن اور باطل افکار لوگوں کو بتایا جاۓ کہ “علامہ جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ “نے بیس سال تک قرآن واحادیث اور آثاروکتب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص کو جمع کیا ہے،آپ کی انسانیت نوازی،فراست ودور اندیشی کے ساتھ ساتھ تمام پہلوؤں کو اکٹھا کیا ہے،اسوۂ حسنہ کے علاوہ سپہ سالاروں،قاصدوں،سرداروں ،معلموں،متعلموں،عمالوں اور شعبۂ حیات کے تمام گوشہ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین رہ نمائ کی ہے اور زمانے نے درستگی کی مہر آپ پر ثبت کی ہے،سچ تو یہ ہے کہ رب کائنات کے بعد سب سے بڑا احسان اس روۓزمین پر محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہے،جس کا عشر عشیر بھی ہمارا قلم حق ادا نہیں کرسکتا ہے راحت اندوری نے سچ کہا ہے کہ

زمزم وکوثر وتسنیم نہیں لکھ سکتا
یا نبی آپ کی تعظیم نہیں لکھ سکتا
میں اگر سات سمندر بھی نچوڑ دوں راحت
آپ کے نام کی ایک میم نہیں لکھ سکتا

ان بد طینت اور دریدہ دہنوں نے ہماری عقیدت پر کیچڑ اچھال کر ہمیں آب دیدہ کیاہے،ہمارے آئیڈیل پر انگشت نمائ کرکے ہمارے جذبات کو مکدر کیا ہے،مذہبی آزادی اور مسلم آستھا پر انھوں نے فقط ہمیں ہی نہیں للکارا ہے بلکہ ملک کی آئین اور جمہوری نظام کو بھی چیلینج کیا ہے،منافرتی سسٹم کو ہوا دے کر ملک میں بدامنی پھیلانے کا قصور کیا ہے،ناموس رسالت پر انھوں نے جو بدزبانی کی ہے حکومت کو چاہیئے کہ وہ فوری طورپر ایکشن لے،انھیں گرفتار کرکے کیفرکردار تک پہنچاۓاور ایسی سزا ملے کہ پھر کوئ ایسی حرکت کرنے سے قبل ہزار بار انجام سوچے۔

ملی اور ملکی تنظیمیں بھی اس پر ردعمل کا مطالبہ کرے، آۓ دن اس طرح کے واقعات رونما ہورہے ہیں اس کے سد باب کے لئے آگے بڑھے ،تب تو ہی کچھ نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے ورنہ یہ فتنہ سامانیاں دن بہ دن یوں ہی بڑھتی جائیں گی۔

Exit mobile version