عالم نقوی : آواز جو اب سُنائی نہیں دے گی !
از: شکیل رشید ایڈیٹر ممبئ اردو نیوز
______________
بات کئی مہینے پُرانی ہے ، شام کے وقت ’ ممبئی اردو نیوز ‘ کے آفس میں بیٹھا تھا کہ موبائل فون کی گھنٹی بجی ، دوسری جانب سے سلام کے بعد پوچھا گیا ’’ شکیل کیسے ہو ، دفتر کے حالات کیا ہیں ، سب لوگ ٹھیک تو ہیں ، امتیاز اور خالد کیسے ہیں ؟‘‘ اس کے بعد ایک آہ کے ساتھ آواز آئی ’’ سُنا ارتضیٰ نشاط نہیں رہے ، عبدالرحمان صدیقی بھی انتقال کر گیے ۔‘‘ اور اس درخواست کے ساتھ کہ ’’ سب کو سلام کہیں ‘‘ ، فون کٹ گیا ۔ آواز عالم نقوی کی تھی ، جو ۴ ، اکتوبر کی شب اللہ رب العزت کے حضور پیش ہو گیے ۔ پھر دوبارہ نہ عالم نقوی مرحوم کا فون آیا اور نہ ہی اِدھر سے فون کرنے پر اُدھر فون اٹھایا گیا ۔ پتا چلا کہ سخت علیل ہیں ، آنکھوں کی تکلیف بھی بڑھ گئی تھی ۔ یہ بھی پتہ چلا کہ کبھی لکھنئو رہتے ہیں کبھی علی گڑھ اور کبھی بیٹے کے ساتھ ۔ آواز جو اُس دن فون پر سُنائی دی تھی ، اور جِسے میں ’ انقلاب ‘ اور ’ اردو ٹائمز ‘ کی ملازمت کے دوران سُنتا رہا تھا ، اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی ہے ۔ فون کی آواز میں اور اس سے پہلے جب وہ اخبارات میں سرگرم رہا کرتے تھے ، تب کی آواز میں بڑا فرق تھا ، پہلے آواز میں ایک جوش اور ولولہ تھا ، لیکن فون کی آواز کمزور تھی ، تھکی تھکی ، یوں لگتا تھا جیسے بولنے والے کو یہ احساس ہے کہ اب یہ آواز بہت دنوں کے لیے باقی رہنے والی نہیں ہے ، یہ جلد خاموش ہو جائے گی ۔ لیکن موت کی آہٹ محسوس کرنے کے باوجود اس آواز میں نہ مایوسی تھی اور نہ خوف ؛ یہی بے خوفی اور حوصلہ عالم نقوی مرحوم کی زندگی کا اثاثہ تھا ۔ میرے دل میں ان کی تصویر ایک بے خوف ، باحوصلہ ، ایماندار ، دیندار اور اپنے پیشے ’ صحافت ‘ سے خلوص کے ساتھ وابستہ رہنے والے ایک انسان کی ہے ۔ جب مرحوم نے ’ انقلاب ‘ چھوڑا تھا ، تب میں وہاں سے نکل چکا تھا ، اور جب میں نے ’ اردو ٹائمز ‘ جوائن کیا تھا ، تب مرحوم وہاں مدیر کی حیثیت سے برسرِ کار تھے ، مجھے دونوں جگہ ان کے ساتھ کام کرنے کا خوب موقع ملا ، اور ان سے خوب سیکھا ۔ اگر کوئی مجھ سے یہ دریافت کرے کہ ایک مدیر کے طور پر مرحوم کو تم نے کیسا پایا ، تو مجھے جواب دینے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی ، ’ سخت ‘۔ یہاں سخت سے مراد وہ بیجا سختی نہیں ہے جو مدیر حضرات اپنے عملے سے عموماً روا رکھتے ہیں ، سخت سے مُراد خبروں اور رپورٹنگ کے معاملات میں کی جانے والی سختی ہے ۔ مرحوم کسی طور بھی ایسی خبر شائع نہیں کرتے تھے ، جو کسی کی تعریف سے بوجھل ہو ، اور جس میں حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہو یا حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہو ۔ یہ ایک ایسا رویہ تھا جس نے انہیں قارئین کی نظر میں بھی ، اور عملے و مالکان کی نظر میں بھی قابلِ اعتماد بنایا تھا ۔ مرحوم ہندتوادیوں کے سخت خلاف تھے ، اور اپنے مضامین میں اس تعلق سے کسی بھی طرح کی مفاہمت نہیں کرتے تھے ۔ ان کی نظر میں اخبار میں ان کے تحت کام کرنے والا عملہ ان کا ’ خاندان ‘ تھا ، اُن کا حال چال پوچھنے میں یا اُن سے حال چال پانے میں انہیں خوشی ہوتی تھی ، اور وہ کوشش کرتے تھے کہ اگر ان میں کوئی کسی مسٔلے میں گھرا ہو تو حل کریں ۔ میرے لیے وہ ایک ’ فادر فیگر ‘ تھے ، انہیں بھی مطالعے کا شوق تھا اور میرا بھی یہی شوق ہے ، اس لیے کتابوں کی باتیں بھی ہوتی تھیں ، اور کتابوں کا تبادلہ بھی جو اب ممکن نہیں ہے ۔ اخبار کے مالکان کے دلوں میں ، چاہے وہ مرحوم معین احمد رہے ہوں ، یا خالد احمد اور امتیاز احمد ہوں مرحوم کا احترام ہمیشہ برقرار رہا ۔ اور عملے کے دل میں بھی ان کی عزت ہمیشہ رہی ۔ اللہ مرحوم کی بال بال مغفرت کرے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا کرے ، آمین ۔