Site icon

مغرب کا تعصب پسندانہ رویہ

مغرب کا تعصب پسندانہ رویہ

🖋ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی

___________________

ادیان و مذاہب کی تاریخ و تدوین اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ اس روئے زمین پر انسانی وجود. یہی وجہ ہے کہ مذہب ہمیشہ سے ہی مطالعہ کا مرکز و محور رہا ہے ۔البتہ مذہب کا مطالعہ کرنے والوں کا منہج جدا اور باہم ممتاز رہا ہے ۔ اس تناظر میں جب ہم مغربی مفکرین و مصنفین اور باحثین و اسکالرس کا منہج فکر دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے مذہب کا مطالعہ اپنے مخصوص فکری تناظر اور فلسفیانہ اصول و ضوابط کی روشنی میں کیا ہے ۔ برعکس اس کے جب ہم مشرق کا مطالعہ مذاہب کا منہج اور طریق کار دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے مشرق میں مطالعہ ادیان کا منہج روایات پر مبنی ہے ۔ آج مغربی اور مشرقی دانش گاہوں میں مذاہب کے نام پر ہونے والی تحقیقات اور تصنیفات کا موازنہ کرتے ہیں تو دونوں کے یہاں واضح فرق نظر آئے گا ۔ مغرب نے مطالعہ مذاہب کی جو بنا ڈالی اور پھر انہوں نے جس طرح سے مذہب کو سمجھنے یا سمجھانے کا پیمانہ متعین کیا اس میں تعقل پسندی اور معروضیت کے نام پر تعصب و تنگ نظری زیادہ کار فرما نظر آتی ہے ۔ مطالعہ مذاہب خصوصا مطالعہ اسلام کے حوالے سے مغرب نے جو کردار یا تحقیقات پیش کیں ہیں ان کو پڑھنے کے بعد بے اطمینانی اور دین اسلام کی بابت نفرت کا رجحان پیدا ہونے لگتا ہے ۔ مغرب نے اسلام کا مطالعہ صلیبی جنگون کے بعد جس انداز اور جس نہج پر کیا ،اس نے معاشرے پر اسلام کے خلاف یا کہیے تو اسلامو فوبیا کی فضا بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

بات در اصل یہ ہے کہ مغرب نے جن صلیبی جنگوں کو اپنے لیے فال نیک تصور کیا تھا وہی جنگیں اس کے لیے شکشت و ریخت کا سامان بن گئیں ۔ اس کے بعد اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو رجحانات مغربی مفکرین و مصنفین کے سامنے آئے وہ یقیناً ناقابل برداشت ہیں ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے اثرات آج بھی قائم ہیں ۔ صلیبی جنگوں میں ناکامی کے بعد مستشرقین نے منظم اور مستحکم طریقہ سے اسلام کی تعلیمات کو عمدا نشانہ بنایا ، ظاہر ہے اس کا مقصد اسلام کی شفاف اور متوازن تعلیمات سے عوام کو بیزار کرنا تھا ۔اصحاب علم و تحقیق اور صاحب فکر و نظر جانتے ہیں کہ مستشرقین نے معروضی مطالعہ ، آزادانہ تحقیق اور آزادی اظہار رائے کے نام پر ، قرآن و سنت ، حدیث اور دیگر اسلامی مآخذ و مراجع پر سخت ترین نہ صرف اعتراضات کیے ہیں بلکہ اس کے لیے انہوں نے اپنے اسباب و وسائل تک صرف کردیئے ہیں اور آج بھی کررہے ہیں ۔ مستشرقین نے اسلام کی تعلیمات پر جس لہجہ اور جس انداز میں یلغار کی ہے، یا اسلام کو جس طرح پیش کیا ہے اس کو سمجھنے کے لیے اور اس اسلوب سے واقفیت پیدا کرنے کے لیے معروف اسکالر اور شناور شخصیت پروفیسر عبد الرحیم قدوائی کی کتاب ” اسلام اہل مغرب کی نظر میں” اور ” جہات قرآنی” دیکھنے کی ضرورت ہے۔

مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دوسری یلغار نوآبادیاتی دور کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ تمام یورپی اقوام اپنے اپنے جغرافیے سے نکلیں اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے عالمِ اسلام پر قابض ہوگئیں۔ اس نوآبادیاتی یلغار کی پشت پر سفید فام آدمی کے بوجھ کا تصور موجود تھا۔ اس تصور کا مفہوم یہ تھا کہ دنیا میں مہذب تو صرف سفیدفام اقوام ہیں۔ باقی جتنی اقوام ہیں وہ غیرمہذب ہیں، چنانچہ سفید فاموں کا فرض ہے کہ وہ غیر مہذب اقوام کو مہذب بنائیں۔ ان کو مہذب بنانے کی ایک صورت یہ تھی کہ ان کو عیسائی بنایا جائے۔ ان کو مہذب بنانے کی دوسری صورت یہ تھی کہ انہیں مغرب کا مقلدِ محض بنایا جائے۔ چنانچہ مغربی اقوام نے مسلمانوں پر اپنا مذہب مسلط کیا۔ اپنے علوم و فنون مسلط کیے۔ اپنے قوانین ان پر ٹھونسے۔ اپنا عدالتی نظام ان کے ہاں رائج کیا۔ اس کے بعد مغرب نے جس انداز میں اسلام کا مطالعہ کیا اس میں مزید سختی اور شدت کا پہلو نظر آتا ہے ۔ مختلف ممالک میں عیسائی مشنریاں قائم کی گئیں اور ان اسباب کو تلاش کیا گیا جن کی وجہ سے دیگر مذاہب کے لوگوں کو عیسائیت میں داخل کیا جاسکتا ہے ۔ جن میں نمایاں طور غربت و افلاس تھی،چنانچہ غریب علاقوں میں جاکر اپنے ایجنڈہ کا نفاذ کیا اور بڑی تعداد میں لوگوں کو ان کے اپنے عقیدہ اور نظریہ سے برگشتہ کرنے کا کام کیا گیا ۔
تیسری یلغار مغرب نے اسلام اور مسلمانوں پر نائن الیون کے بعد کی ، نائن الیون کے بعد اسلام کے خلاف جو فضاء صرف مغرب ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں قائم ہوئی اس نے صرف اسلام سے نفرت و عداوت کرنا نہیں سکھایا بلکہ اسلامو فوبیا کا فروغ ہوا ، مغرب کے اس مشن کو فروغ دینے میں تعصب پرست اور جانبدار ذرائع ابلاغ نے بھر پور ساتھ دیا ۔ نائن الیون کے بعد سے مغرب میں متعصبین اور حاسدین نے اسلام کا مطالعہ جس نہج پر کیا اس میں بنیادی طور پر یہ بات شامل ہے کہ مسلمان جنونی ہوتے ہیں ۔ شدت پسند ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے نظریات و افکار کے علاوہ دوسرے نظریات کو برداشت نہیں کر پاتے ہیں۔ اسلام ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔ اسلام تمام امن پسند لوگوں کے لیے خطرہ ہے ۔ اسلام کے خلاف مغرب کے اس جارحانہ اور تعصب پسند انداز نے نہ صرف مغربی معاشرے میں اسلاموفوبیا کو فروغ دیا بلکہ پوری دنیا میں اسلامو فوبیا کی فضا بنائی گئی اور اب بھی حاسدین کی یہ کوشش جاری ہے۔

متذکرہ سطور کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ مغرب کے نام نہاد معروضیت پسند مفکرین اور ان کے ہمنواؤں نے اسلام کا جس انداز میں اور جس طرح سے مطالعہ کیا ہے اور کررہے ہیں اس میں تعصب و تنگ نظری اور عدم رواداری کا پہلو غالب ہے ۔ ان کا اسلام کے خلاف یہ منفی رویہ معاشرتی سطح پر یقینی طور پر بدامنی اور کشیدگی کا سبب بن رہا ہے ۔ اس طرح کے نام نہاد مفکرین و دانشوروں کو سوچنا چاہیے کہ ہمارا یہ وطیرہ آج کے سماج اور تکثیری روایات کے حامل معاشروں کے لیے قطعی مناسب نہیں ہے ۔ تصور کیجیے! جس مذہب نے معاشرے میں اخلاق و کردار ، امن و امان ، تحمل و برداشت ، رواداری اور احساس ذمہ داری ، حقوق و فرائض کا جامع تصور پیش کیا ، آج اسی دین کی تعلیمات کو مخدوش و مجروح بناکر کر پیش کیا جارہاہے جو کہ نہایت افسوسناک عمل ہے۔

مغرب نے اسلام کے خلاف جو مزاج اور رجحان پیدا کیا ہے اس سے ہمارے ہندوستانی سماج میں بھی کچھ افراد متاثر ہوتے دکھ رہے ہیں اور یہاں کا میڈیا بھی لگاتار اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کام کرکے نفرت و عداوت کا کھیل کھیل رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آئے دن ہندوستان جیسی سرزمین پر شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی کی جاتی ہے جو کہ قانوناً اور اخلاقا جرم ہے ۔ ہندوستان کے آئین و دستور کی روشنی میں بھی کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ کوئی بھی شخص کسی بھی مذہب اور اس کی برگزیدہ شخصیات کو سب و وشتم کا نشانہ بنائے۔ اس کے باجود ہندوستان جیسے سیکولر اور جمہوری معاشرے میں یہ کام انجام دیا گیا۔ ایک بار نہیں بار بار انجام دیا گیا ۔ یقیناً کسی کا بھی یہ رویہ نہایت قابل مذمت ہے۔

بات در اصل یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو فضاء مغرب نے بنائی ہے اور مستقل منفی طور پر اسلام کی تعلیمات کو پیش کیا جارہا ہے اس کے اثرات اب تقریباً ہر جگہ مرتب ہو رہے ہیں۔ اس لیے دنیا کو پر امن بنانے اورمحبت و مودت سے ہم کنار کرنے کے لیے ان افراد کو اپنے رویہ اور کردار میں نرمی اور توازن و اعتدال پیدا کرنا ہوگا جو آئے دن بے اعتدالی کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں ۔

رہا سوال! مغرب کے مطالعہ اسلام کا تو اس بابت یہ کہا جاسکتا ہے کہ مغرب کو اپنی فکر اور مطالعہ اسلام کی بابت توازن و اعتدال اور رواداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ مستقل منفی رویہ اور کردار ٹھیک نہیں ہے ۔ آج پوری دنیا میں تکثیری معاشرے بڑی تیزی سے قائم ہورہے ہیں ، ظاہر ہے تکثیری معاشروں کی واضح علامت یہی ہے کہ ایک دوسرے کے افکار و نظریات کو برداشت کیا جائے اور باہم ادیان و مذاہب کا احترام کیا جائے۔ کسی بھی مذہب کا حامل کسی دُوسرے مذہب یا اپنے مخالف خیالات کے متعلق غیر شائستہ یا غیر مہذب زبان استعمال نہ کرے ۔ کسی مذہب کی توہین کرنا یا کسی مذہب کا مطالعہ تعصب و تنگ نظری کی عینک لگا کر کرنے سے کبھی بھی حقائق تک نہیں پہنچا جاسکتا ہے اور نہ اس مذہب کی روح عوام تک پہنچائی جاسکتی ہے ۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ آج بھی نام نہاد روشن خیال مغرب کے ادارے اسی منہج کو سامنے رکھ کر اسلام کا مطالعہ کررہے ہیں، جس میں اسلام اور مسلمانوں سے تعصب ہے، بے یقینی ہے اور سماجی کشیدگی کا پہلو غالب ہے ۔اس لیے مغرب کے اس رویہ کو سمجھنا بہت ضروری ہے تاکہ سادہ لوح عوام ان کے اس سیاسی مقاصد کی تکمیل میں نہ پھنس سکیں ۔

Exit mobile version