Site icon

اسلامى اوقاف: شرعى حيثيت اور حکومت کى بُرى نظر

اسلامى اوقاف: شرعى حيثيت اور حکومت کى بُرى نظر

✍️ مولانا انيس الرحمن ندوى

__________________

اسلام ايک انسانيت نواز اور انسانيت پرور مذہب ہے۔ اس کى انسانيت نوازى اس کے تمام احکام ميں جھلکتى ہے کيونکہ اسلامى احکام ميں انسان کى انفرادى واجتماعتى ضرورتوں کى تکميل کا مکمل لحاظ رکھا گيا ہے۔ اسلام کے انہى انسانيت پرورانہ احکام وتعليمات ميں وقف کے احکام بھى ہيں۔

وقف کے لغوى معنى حبس يعنى روکنے کے ہيں۔ اس کے اصطلاحى معنى ہيں کسى شئ کو اللہ تعالى کى ملک کے حکم پر روک دينا يا اللہ کے نام پر وقف کردينا اور اس سے حاصل ہونے والى منفعت کو مخصوص اور طے شدہ مذہبى ورفاہى مقاصد کے لئے استعمال کرنا۔ لہذا اسلام ميں منقولہ وغير منقولہ جائيداديں مختلف مقاصد کے لئے وقف کى جاسکتى ہيں جن ميں مذہبى مقاصد، رفاہ عامہ کے مقاصد اور وقف للاولاد وغيرہ شامل ہيں۔

اسلام ميں وقف مستحبات کے زمرہ ميں آتا ہے، جسے احاديث ميں ثواب جاريہ سے موسوم کيا گيا ہے۔ مسلم کى حديث ميں ہے کہ ’’جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل اس سے منقطع ہوجاتا ہے سوائے تين چيزوں کے: صدقہ جاريہ، يا ايسا علم جس سے فائدہ اٹھايا جائے، يا ايسى صالح اولاد جو اس کے لئے دعا کرتى رہے۔‘‘ (مسلم، ١٦٣١؛ سنن ابو داؤد، ٢٨٨٠ وغيرہ) اس طرح اسلام نے اپنے متبعين کو رفاہ عامہ کے کاموں ميں مختلف ترغيبات کے ذريعہ ابھارا ہے کہ اگر اصحاب خير حضرات تا قيامت ثواب حاصل کرنا چاہتے ہيں تو اس کے لئے ايک راستہ وقف فى سبيل اللہ ہے، جو ان کے لئے تاقيامت ثواب جاريہ کا کام کرے گا۔ اس کى نظير مذاہب عالم ميں کہيں نہيں ملتى۔

اسلامى اوقاف کا وجود ہميں دورِ رسالت سے ہى ملتا ہے۔ حضرت عمر (رض) نے خيبر ميں ايک زمين پائى تو اس کے متعلق مشورہ لينے کے لئے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے۔ تو آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اگر چاہو تو اس کى اصل کو روک لو اور اس کو صدقہ کردو۔ راوى کے مطابق حضرت عمر (رض) نے اسے صدقہ کرديا کہ اسے نہ بيچا جائے گا، نہ ہبہ کيا جائے گا اور نہ اس ميں وراثت جارى ہوگى۔(مسلم، ١٦٣٢؛ سنن ابى داؤد، ٢٨٧٨)

لہذا اسلامى اوقاف کا يہ ايک بنيادى اور مسلمہ اصول ہے کہ ايک مرتبہ کسى جائيداد يا شئ کو وقف کردينے سے وہ ہميشہ ہمش کے لئے وقف ہوجاتى ہے۔

اوقاف اسلامى دور ميں

جيسا کہ بتايا گيا اسلامى اوقاف کا وجود ہميں نبى کريم صلي اللہ عليہ وسلم کے دور سے ہى ملتا ہے۔ نبى کريم صلي اللہ عليہ وسلم جب مکہ سے ہجرت فرماکر مدينہ منورہ پہنچے تو آپ نے سب سے پہلے قبا کے مقام پر ايک مسجد تعمير کرائى جو وقف کى ہوئى زمين پر بنائى گئى تھى۔ اسى طرح آپ (ص) نے مدينہ ميں يہوديوں سے بہت سى زمينيں اور باغات خريد کر مسلمانوں کے لئے وقف کئے۔ مدينہ ميں جب پانى کى قلت ہوئى تو حضرت عثمان (رض) نے ايک يہودى سے ايک کنواں خريد کر اسے رفاہ عامہ کے طور پر وقف کيا۔ حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہيں کہ اصحاب رسول صلي اللہ عليہ وسلم ميں کوئى صاحب حيثيت شخص ايسا نہ تھا جس نے وقف نہ کيا ہو۔ امہات المؤمنين نے بھى زمينات اور جائيداديں وقف کيں ہيں۔

عہد رسالت کے بعد خلفائے راشدين، خلافت بنو اميہ اور خلافت بنو عباس ميں بکثرت اوقاف کا سلسلہ جارى رہا۔ لہذا ان ادوارميں مشرق ميں چين سے لے کر مغرب ميں فرانس تک کے ممالک خلافت اسلاميہ کے تحت آئے ۔ ان علاقوں ميں اوقاف کى نگرانى کے لئے خصوصى محکمے قائم کئے جاتے تھے جو کہ عدالتى اتھارٹى کى براہ راست نگرانى کے تابع ہوتے اور ايگزيکٹو اتھارٹى (حکومت)سے آزاد ہوتے۔خلافت عباسيہ ميں اوقاف کا سربراہ ’صدر اوقاف‘ کہلاتا تھا اور اوقاف کى آمدنى سے معاشرہ کى تمدنى ضرورتوں جيسے ہسپتال، لائبريرى، ترجمہ گھر، تعليمى ادارے اور ديگر ضروريات کے اخراجات پورے کئے جاتے۔

ہندوستان ميں وقف املاک

دہلى ميں مسلم سلطنت کے قيام کے بعد ہى سے ہندستان ميں وقف املاک کا سلسلہ شروع ہوگيا۔ پھر ہندوستان ميں مختلف سلطنتوں کے ادوار ميں وقف املاک ميں بے پناہ اضافہ ہوا۔ يہاں کے امراء ،نوابوں اور متمول ومخير حضرات نے انہيں خوب ترقى دى۔ مؤرخين کے مطابق مسلم دور کے ہندستان ميں بہت سارے رفاہى کام اوقاف کى آمدنى سے ہوا کرتے تھے، مثلا اسکول، مدارس، شفاخانہ، مسافر خانے اور ديگر رفاہى کام وغيرہ۔ اس سلسلے ميں ايک مؤرخ يوں رقمطراز ہے: ’’انگريزوں سے پہلے ہندستان ميں ابتدائى تعليم سے لے اعلي تعليم تک کا انتظام بغير کسى فيس کے کيا جاتا تھا۔ بادشاہ، امراء اور اہل ثروت تعليمى مصارف کے لئے بڑى بڑى جائداديں وقف کرتے تھے۔ صوبہ بنگال کا چوتھائى حصہ تعليم کے لئے وقف تھا۔ صرف اضلاع روہيل کھنڈ ميں پانچ ہزار علماء مختلف مدارس ميں درس ديتے تھے، اور نواب حافظ رحمت خان کى سرکار سے تنخواہيں پاتے تھے۔ کپتان الگزينڈر اسٹمس اپنے سفرنامہ ميں لکھتا ہے: ’’اورنگ زيب کے دور ميں صرف ٹھٹھہ سندھ ميں چار سو کالج مختلف علوم وفنون کے تھے۔‘‘ ہمايوں کبير ہارڈى بکيس مولر کے حوالہ سے لکھتے ہيں کہ’’ انگريزى علمدارى سے قبل بنگال ميں اسى ہزار مدرسے تھے اور انگريزوں کے دور ميں آنرپيبل الفنسٹن اور آنريبل ايف وارڈون کے اعتراف کے ساتھ انصاف يہ ہے کہ ہم نے ہندوستانيوں کى ذہانت کے چشمے خشک کرائے، ہمارى فتوحات کى نوعيت ايسى ہے کہ اس نے نہ صرف علمى ترقى اور ہمت افزائى کے تمام ذرائع ختم کردئے ہيں، بلکہ حالت يہ ہے کہ قوم کے اصل علوم بھى گم ہوجانے کا انديشہ ہے۔‘‘ (تاريخ ندوة العلماء، ص ٣٧، ج ١)

جيسا کہ اوپر مذکور عبارت سے واضح ہے کہ مسلم دور ميں مسلمانوں کى زيادہ تر تعليمى اور معاشى ضروريات کى تکميل اوقاف کى جائيدادوں اور ان سے حاصل شدہ آمدنى سے ہوا کرتى تھى۔ انگريزوں نے يہاں اپنا تسلط قائم کرنے کے فورا بعد مسلمانوں کى قوت کے ان سرچشموں کو تاخت وتاراج کرنا شروع کرديا۔ انہوں نے ان اوقاف اور جائيدادوں کو ضبط کيا، جن سے ان کے مدارس چلتے تھے۔ انہوں نے يہ کام اس منظم طريقے سے انجام ديا مسلمان ايک قليل عرصہ ميں تعليمى اور معاشى ميدانوں ميں ادبار اور پسماندگى کا شکار ہوکر رہ گئے۔

اوقاف جديد ہندستان ميں

حکومتى اعداد وشمار کے مطابق ہندوستان ميں آج مجموعى طور پر 8,72,324 غير منقولہ اور 16,713 منقولہ رجسٹر شدہ وقف جائيداديں ہيں، جو ہندستان کے تقريبا ٣٢ وقف بورڈوں کے تحت رجسٹرڈ ہيں۔ رقبہ ميں يہ وقف جائيداديں 9.4 لاکھ ايکڑ پر پھيلى ہوئى ہيں اور ان کى کل ماليت 1.2 لاکھ کروڑ کى ہے۔ دنيا ميں سب سے زيادہ وقف جائيداديں ہندوستان ميں پائى جاتى ہيں۔ زمين کى ملکيتوں کے اعتبار ہندوستانى وقف بورڈ ہندستان کا تيسرا بڑا ادارہ ہے۔ پہلے اور دوسرے انڈين ريلويز اور ہندستانى ڈفنس ڈپارٹمنٹ (مسلح افواج) ہيں۔

سچر کميٹى کى ٢٠٠٦ کى سفارشات کے مطابق اگر ان وقف جائيدادوں کا ٹھيک طور پر استعمال کيا جائے تو ان سے سالانہ تقريبا ١٢ ہزار کروڑ کى آمدنى حاصل کى جاسکتى ہے۔ مگر فى الحال اس سے صرف ١٦٣ کروڑ آمدنى ہى ہورہى ہے۔

ہندوستان ميں اوقاف سے متعلق قانون سازياں
ہندستان ميں ١٩١٣ ميں انگريزوں نے سب سے پہلے وقف بورڈوں کو قائم کيا اور ١٩٢٣ ميں مسلمان وقف ايکٹ ١٩٢٣ کا قانون بنايا، جو اس سلسلے کا پہلا قانون تھا۔ پھر آزادى کے بعد ١٩٥٤ ميں دى وقف ايکٹ ١٩٥٤ لاگو کيا گيا جس ميں ١٩٦٤ء اور ١٩٩٥ء ميں ترميمات کى گئيں۔ مگر آگست ٢٠٢٤ کو حکومت ہند نے پارليمنٹ ميں نيا وقف ترميمى بل پيش کيا ہے جو اس سلسلے ميں باعث تشويش ہى نہيں بلکہ اوقافى جائيدادوں کے لئے انتہائى خطرناک بھى ہے۔ حکومت اوقافى قوانين کى اصلاح کى آڑ ميں اوقافى جائيدادوں پر مسلمانوں کى گرفت کو کمزور کرنا، ان پر غير قانونى قبضہ جات کو تحفظ فراہم کرنا اور ان پر مزيد تجاوزات کے لئے راہ ہموار کرنا چاہتى ہے۔

حکومت نے اس بل ميں جو مجوزہ اصلاحات پيش کى ہيں ان ميں اسلامى اوقاف کے بنيادى تصور کو چيلنج کيا گيا ہے۔ اسلامى وقف ميں کسى منقولہ يا غير منقولہ جائيداد کو ايک مرتبہ وقف کردينے کے بعد وہ تاقيامت وقف ہوجاتا ہے۔ پھر کوئى بھى شخص اس کى حيثيت بدل نہيں سکتا۔ حکومت کے مجوزہ بل ميں اس تصور کو چيلنج کيا گيا ہے۔

اسى طرح وقف بورڈوں کے ممبران اور چيرمين کے انتخاب ميں جمہورى طرز اپنانے کے بجائے مرکزى اور صوبائى حکومتوں کو ان کے انتخاب کے اختيارات سونپے گئے ہيں، جس سے اوقاف کى املاک ميں حکومتى اجارہ دارى قائم ہوگى۔ اسى طرح اس بل ميں وقف بورڈوں ميں ممبران/ چيف آفيسر کے عہدوں پر غير مسلموں کے انتخاب کى تجويز پيش کى گئى ہے۔ جبکہ خود ہندوستان ميں دوسرے مذاہب (ہندو، جين، سکھ وغيرہ) کى اوقاف کى ديکھ بھال کے لئے ان مذاہب کے متبع ہونے کى شرط لگائى گئى ہے۔

اسى طرح اس بل ميں اوقاف پر ناجائز قبضہ جات ہٹانے کے وقف بورڈوں کے اختيارات پر روک لگائى گئى ہے۔ اس سے ہوگا يہ کہ اوقاف پر ناجائز قبضہ جات کو ہٹانا اب ممکن نہ ہوگا بلکہ انہيں اب قانونى تحفظ فراہم ہوگا۔ اسى طرح اس بل ميں حکومت کو يہ اختيارات بھى دئے گئے ہيں کہ وہ کسى بھى وقف جائيداد کو حکومتى جائيداد قرار دے کر اسے اپنے قبضہ ميں لے لے۔

يہ اور اس طرح کى اور بہت سى مجوزہ ترميمات ہيں جن کو اس بل ميں پيش کيا گيا ہے جو نہ صرف اسلامى اوقاف کى روح، اس کے اغراض ومقاصد کے خلاف ہيں بلکہ يہ ہمارے ملک عزيز ہندستان کے جمہورى اور آئينى حقوق وتحفظات کے بھى خلاف ہيں۔ لہذا مسلمانوں کو پورى طاقت وقوت کے ساتھ اس بل کى ہر سطح پر مخالفت کرنى چاہئے اور خاص طور پر مسلم پرسنل لا بورڈ کو اس کے خلاف ملک گير تحريک چلانى چاہئے۔

Exit mobile version