Site icon

مودی عہد میں مسلم شخصیات کا بہیمانہ قتل: اتفاق یا سازش؟

مودی عہد میں مسلم شخصیات کا بہیمانہ قتل: اتفاق یا سازش؟

✍️ محمدشہبازعالم مصباحی

سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی

کوچ بہار، مغربی بنگال

___________________

نریندر مودی کے دور حکومت میں مسلمانوں کے خلاف پرتشدد واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، خصوصاً مسلم سیاسی و سماجی شخصیات کو نشانہ بنانے کے واقعات نے ایک تشویش ناک صورت اختیار کر لی ہے۔ ان واقعات میں اہم مسلم رہنماؤں کا سرعام قتل، اسلاموفوبیا کا فروغ، اور مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کی منظم کوششوں کا تاثر ابھرتا ہے۔ اس مضمون میں ہم ان واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ کیوں مسلم شخصیات کو قتل کیا جا رہا ہے، اور اس کے معاشرتی اور سیاسی اثرات کیا ہو سکتے ہیں۔

عتیق احمد اور اشرف احمد کا سر عام قتل:

مسلم سیاسی شخصیات کو نشانہ بنانے کا ایک دردناک واقعہ اس وقت پیش آیا، جب اتر پردیش کے پریاگ راج میں سابق رکن پارلیمنٹ عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف احمد کو سرعام گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ یہ واقعہ پولیس کی حراست میں پیش آیا اور یہ سوال اٹھاتا ہے کہ آخر پولیس کی نگرانی میں ایسے واقعات کیسے رونما ہو سکتے ہیں؟ قتل کے وقت دونوں بھائی پولیس کی حراست میں تھے اور ان پر فائرنگ کرنے والے تین حملہ آور پولیس کی موجودگی میں فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

عتیق احمد کا ماضی متنازع رہا، لیکن یہ حقیقت کہ انہیں جس طرح بے دردی سے قتل کیا گیا، وہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے کوئی خاص وجہ درکار نہیں۔ عتیق احمد اور اشرف احمد کے قتل نے مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیلایا، جسے مسلمان اپنی کمیونٹی کے خلاف ایک منظم سازش کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس قتل کا مقصد مسلمانوں کے درمیان ایک نفسیاتی جنگ کا آغاز کرنا ہے، تاکہ انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ وہ کسی بھی صورت محفوظ نہیں ہیں۔

بابا صدیقی کا قتل:

ممبئی میں بابا صدیقی کا قتل بھی مسلم سیاسی و سماجی رہنماؤں کے خلاف جاری حملوں کا حصہ ہے۔ صدیقی کو باندرہ کے ایک مصروف علاقے میں ان کے بیٹے کے دفتر کے باہر قتل کیا گیا، جب وہ گاڑی میں بیٹھنے والے تھے۔ یہ قتل ایک ایسے وقت میں ہوا جب ملک بھر میں مسلم رہنماؤں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ واقعہ بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی اور سماجی حیثیت کو کمزور کرنے کی منظم کوششیں کی جا رہی ہیں۔

لارنس بشنوئی گینگ کا کردار:

ان حملوں کے پس پردہ مجرموں کے بارے میں متعدد بار اطلاعات آئی ہیں کہ وہ منظم جرائم پیشہ گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ خاص طور پر لارنس بشنوئی گینگ کا نام بابا صدیقی کے قتل کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔ بشنوئی گجرات کی ایک ہائی سکیورٹی جیل میں قید ہیں اور انہیں سنگین الزامات کا سامنا ہے۔ اس گینگ کا مسلمانوں کے خلاف پرتشدد حملوں میں ملوث ہونا اس بات کی علامت ہے کہ یہ حملے صرف مذہبی تعصب کا نتیجہ نہیں ہیں، بلکہ ان کے پیچھے سیاسی مفادات بھی کارفرما ہیں۔

چلتی ٹرین میں مسلمانوں کا قتل:

اسلاموفوبیا کی ایک اور افسوسناک مثال جولائی 2023ء میں پیش آئی جب مہاراشٹر کے پالگھر کے قریب ایک چلتی ٹرین میں ریلوے پروٹیکشن فورس (آر پی ایف) کے ایک اہلکار نے تین مسلمانوں کو قتل کر دیا۔ یہ حملہ صرف اس بنیاد پر کیا گیا کہ مقتولین نے داڑھیاں رکھی ہوئی تھیں، جو ان کے اسلامی تشخص کی علامت تھیں۔ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ اسلاموفوبیا کس حد تک پھیل چکا ہے، جہاں مسلمانوں کو صرف ان کی ظاہری شناخت کی وجہ سے قتل کیا جا رہا ہے۔

قدآور مسلم سیاسی رہنماؤں کا قتل: ایک گہری سازش:
مسلم سیاسی و سماجی شخصیات کے قتل کے پیچھے ایک گہری سازش کارفرما نظر آتی ہے، جس کا مقصد مسلمانوں کو سماجی اور سیاسی طور پر کمزور کرنا ہے۔ عتیق احمد، اشرف احمد اور بابا صدیقی جیسے قدآور مسلم رہنماؤں کے قتل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی جڑوں کو کھوکھلا کیا جا رہا ہے۔ جب اتنی بڑی بڑی شخصیات کا بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے اور کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی جاتی، تو عام مسلمان کے لیے یہ پیغام ہے کہ وہ بالکل بے یار و مددگار ہیں۔

یہ صورتحال ملک کے مسلمانوں کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ جب ملک کے بڑے سیاسی اور سماجی مسلم رہنما قتل ہو رہے ہیں اور حکومت کی طرف سے کوئی مناسب کاروائی نہیں ہو رہی ہے تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایک اہم اور فاسٹ کوشش کے تحت مسلمانوں کو پسپائی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ایسے واقعات کے بعد عام مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے۔

اسلاموفوبیا کا بڑھتا ہوا جنون:

مودی حکومت کے دور میں اسلاموفوبیا نے ایک نئی اور خطرناک شکل اختیار کر لی ہے۔ مسلمانوں کو معاشرتی سطح پر کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف نفرت اور تعصب کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ چلتی ٹرین میں مسلمانوں کا قتل، مساجد پر حملے، اور مسلم کاروباروں کو نشانہ بنانا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ایک منظم پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ یہ واقعات نہ صرف مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں بلکہ ہندو قوم پرستی کے فروغ کے لیے بھی استعمال ہو رہے ہیں۔

مسلمانوں میں بیداری اور اتحاد کی ضرورت:

اس سنگین صورتحال میں، مسلمانوں کو بیدار مغزی اور حساسیت کے ساتھ اپنی طاقت کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں جاری اسلاموفوبیا اور مسلم رہنماؤں کے قتل کے واقعات اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ اگر مسلمانوں نے خود کو منظم نہیں کیا اور اپنی اجتماعی طاقت کو مستحکم نہیں کیا، تو وہ مزید مشکل حالات کا شکار ہو سکتے ہیں۔

ایسے میں مسلمانوں کو اپنے مال و دولت کا درست استعمال کرنا چاہیے۔ بڑی بڑی کوٹھیاں، بنگلے اور فیشن پر بے تحاشا خرچ کرنے کے بجائے اپنے وسائل کو ایسے منصوبوں میں لگانا چاہیے جو ان کی کمیونٹی کی اجتماعی فلاح و بہبود کے لیے ہوں۔ تعلیم، معاشی ترقی، اور سیاسی بیداری میں سرمایہ کاری کر کے مسلمان اپنے لیے ایک محفوظ اور مستحکم مستقبل تشکیل دے سکتے ہیں۔

نتیجہ:

مودی حکومت کے دوران مسلم شخصیات اور عام مسلمانوں کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات نے ہندوستان میں مسلمانوں کو ایک نازک دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ عتیق احمد، اشرف احمد، بابا صدیقی، چلتی ٹرین میں مسلمانوں کے قتل اور ماب لنچنگ جیسے واقعات اس بات کی علامت ہیں کہ مسلمانوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان حالات میں مسلمانوں کو بیداری اور اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اپنی طاقت کو منظم کرنا ہوگا تاکہ وہ آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کر سکیں۔

مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈے اور تشدد کے خلاف نہ صرف قانونی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے، بلکہ مسلم کمیونٹی کو بھی اپنی سماجی، تعلیمی اور معاشی حیثیت کو مستحکم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر مسلمان اس خطرناک دور میں اپنی بقا اور ترقی پا سکتے ہیں۔

Exit mobile version