Site icon

"ڈاکٹر ممتاز احمد خان:زبان خلق کی نظر میں” تعارف و تجزیہ

"ڈاکٹر ممتاز احمد خان:زبان خلق

کی نظر میں” تعارف و تجزیہ

✍️انوار الحسن وسطوی

_____________________

ڈاکٹر ممتاز احمد خان مرحوم کا نام اردو دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ایک مثالی استاد،اردو کے نامور ادیب و ناقد اور ماہر اقبالیات کے طور پر ان کی شناخت مسلم تھی۔اردو تحریک سے بھی ان کی گہری وابستگی تھی۔وہ ویشالی ضلع کی اردو تحریک کے روح رواں اور بہار میں اردو تحریک کے قافلہ سالار پروفیسر عبدالمغنی کی ٹیم کی ایک اہم رکن تھے۔بحیثیت انسان ان کی شخصیت آئیڈیل تھی۔وہ بے حد خوش اخلاق، خوش مزاج،خوش گفتار،ادب نواز، علمائے دین کے قدر دان اور مہمان نواز انسان تھے۔23 اپریل 2021 کو مختصر علالت کے بعد انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا اور 24 اپریل کو حاجی پور کے باغ ملی قبرستان (دارالفنا) میں سپرد خاک کیے گئے۔اردو دنیا نے ان کے انتقال کو اردو شعر و ادب اور اردو تحریک کا نقصان عظیم قرار دیا۔ضلع ویشالی میں ان کے انتقال کی خبر سے ماتم برپا ہو گیا۔موصوف کے انتقال کو گرچہ ساڑھے تین برس کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن وہ اپنے شاگردوں احباب اور اعزہ کے دلوں میں اب بھی زندہ ہیں۔جس کا بین ثبوت زیر تذکرہ کتاب "ڈاکٹر ممتاز احمد خاں: زبان خلق کی نظر”میں ہے جس کے مرتب ضلع ویشالی کے جواں سال عالم دین،مدرسہ احمدیہ ابابکرپور کے مؤقر استاد اور مدرسہ حسینیہ چھپرہ خرد ضلع ویشالی کے ناظم مولانا محمدقمرعالم ندوی بن مولانا عبدالقیوم صاحب شمسی ہیں۔مولانا محمد قمرعالم ندوی درس و تدریس کے علاوہ تصنیف و تالیف سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔زیر تذکرہ کتاب سے قبل ان کی نصف درجن کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں اور تقریبا اتنی ہی کتاب ابھی غیر مطبوعہ شکل میں ہیں۔اللہ تعالی ان کے اس علمی ذوق کو باقی رکھے۔اہالیان ویشالی کو ان سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔
زیر تذکرہ کتاب تقریبا ڈھائی درجن قلم کاروں کی قیمتی نگارشات سے مزین ہے۔تمام مضمون نگاروں نے اپنی تحریروں کے ذریعے ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کی شخصی خوبیوں اور ان کی ادبی ولسانی خدمات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔مضمون نگاروں کی فہرست میں تین نسلوں کے لوگ شامل ہیں جو اس کتاب کی خصوصیت ہے۔یوں تو ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کی زندگی میں ہی ان کے عزیز شاگرد ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق مرحوم نے ان کی حیات اور ادبی خدمات پر "ڈاکٹر ممتاز احمد خان ایک شخص ایک کارواں” کے نام سے ایک ضخیم کتاب (384)صفحات ترتیب دی تھی جس میں ان کے مخلصین،احباب،عقیدت مندوں اور شاگردوں کے 35 مضامین شامل ہیں۔ڈاکٹر مشتاق کی کتاب بلا شبہ "ممتاز شناسی” کے سلسلے میں پہلی کاوش تھی جبکہ مولانا محمد قمرعالم ندوی کی زیر تذکرہ کتاب بھی "ممتاز شناسی” کے باب میں ایک اضافہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
زیر تذکرہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے۔باب اول "کہتی ہے خلق خدا”کے عنوان سے ہے۔اس باب میں جن اہل قلم حضرات کے مضامین شامل ہیں ان کے اسمائے گرامی ہیں:
پروفیسر رضیہ تبسم، ڈاکٹر محمد اختر عادل گیلانی، مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی،ڈاکٹر ریحان غنی،انوار الحسن وسطوی،پروفیسر مولانا آفتاب عالم قاسمی،بدرمحمدی،محمد شاہد محمود پوری،سید مصباح الدین احمد،ماسٹر محمد عظیم الدین انصاری،محمد فدا الہدی،ڈاکٹر محمد صباء الہدی،عبدالقادر،مولانا محمد سراج الہدی ندوی ازہری،پروفیسر کامران غنی صبا،محتشم حیات خاں،مولانامحمد شمیم احمد شمسی،ڈاکٹر عارف حسن وسطوی،ماسٹر کفیل احمد،مولانامحمد صدر عالم ندوی،مولانا محمد وہاج الہدی قاسمی،ناصرین فاطمہ،قمر اعظم صدیقی اور محمد شمیم اختر ندوی،ڈاکٹر ممتاز احمد خاں مرحوم کے صاحبزادوں نفیس احمد خاں،ڈاکٹر لطیف احمد خاں اور شمیم احمد خاں نے بھی اپنے والد گرامی کی یادوں کو اپنے مضامین میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔اس باب کا آغاز حافظ محمد ذکوان القمر شمسی کے مرتب کردہ سوانحی خاکہ (آں کہ……) سے ہوا ہے،جس میں پروفیسر خواں کی پیدائش سے وفات تک کے اہم واقعات درج ہیں۔
باب دوم "ڈاکٹر ممتاز احمد خان کی تصانیف ادیبوں کی نظر”میں عنوان سے ہے، جس کے تحت موصوف کی آٹھ کتابوں پر صرف ایک ایک تبصرے شامل کیے گئے ہیں,کتاب اور مبصرین کے نام حسب ذیل ہیں
ادب اور ادبی رویہ (مفتی محمد ثنا الہدی قاسمی) اقبال شاعر دانشور (محمد صدر عالم ندوی) اردو میں مرصع نثر کی روایت (ڈاکٹر نور السلام ندوی) متاع لوح قلم (ڈاکٹر عارف حسن وسطوی)متاع نقد و نظر (مولانا محمد قمر عالم ندوی) قندیلیں (انوار الحسن وسطوی) درد تہ جام( مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی) عبدالمغنی صدیق ایڈوکیٹ:مضامین و تاثرات (مظہر وسطوی)۔واضح ہو کے درد تہ جام (مجموعہ مضامین اور عبدالمغنی صدیقی ایڈوکیٹ:مضامین و تاثرات(ترتیب) ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کے انتقال کے بعد شائع ہوئی ہے۔
باب سوم "ڈاکٹر ممتاز احمد خاں بعد از مرگ” کے عنوان سے ہے جس کے تحت سب سے پہلے مولانا سید مظاہر عالم قمر شمسی کا ایک طویل خط ہے جو ڈاکٹر ممتاز احمد خاں مرحوم کے صاحبزادوں کے نام ہیں،اس میں "مولانا موصوف”نے ڈاکٹر صاحب مرحوم کے تعلق سے اپنی یادوں کو سمیٹتے ہوئے یہ اعتراف کیا ہے کہ ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کے انتقال سے ان کے مخلصین میں سے ایک بڑے مخلص کی کمی ہو گئی ہے جن کی یاد تا حیات دل سے نہیں جائے گی۔اس باب میں جن مشاہیر علم و ادب کے تعزیتی بیانات کو شامل کیا گیا ہے,ان میں معروف صحافی جناب ایس ایم اشرف فرید (پٹنہ) کٹیہار میڈیکل کالج کے بانی احمد اشفاق کریم،پروفیسر رضیہ تبسم (پٹنہ) مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی،پروفیسر مولانا شکیل احمد قاسمی (پٹنہ) معروف انشائیہ نگار بختیار احمد (گیا) ڈاکٹر منصور معصوم (مظفرپور) اور پروفیسر کامران غنی صبا (مظفرپور) کے نام بطور خاص قابل ذکر ہیں۔اس باب کے اخیر میں سید مظاہر عالم قمر شمسی،مظہر وسطوی اور امان ذخیروی (جموئی) کے منظوم خراج عقیدت بھی شامل کتاب ہیں۔
باب چہارم میں بہار سے شائع ہونے والے مختلف اردو اخبارات کے ان تراشوں کا عکس دیا گیا ہے،جن میں ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کے انتقال،تدفین،تعزیتی بیانات اور تعزیتی نشستوں کی خبریں شائع ہوئی ہیں۔ان خبروں کو دیکھنے سے بخوبی یہ اندازہ لگتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب موصوف اردو والوں کے درمیان کتنے مقبول تھے اور عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔اس باب میں ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کی کچھ یادگار تصویریں بھی شامل کی گئی ہیں،جن میں وہ ایام جوانی سے لیکر انتقال سے چند دنوں قبل تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس سلسلے کے آخری تصویر 14 مارچ 2021 کی ہے، جس میں موصوف اپنی کتاب "قندیلیں”(مجموعہ مضامین) کی رسم اجراء میں بزرگ شاعر ناشاد اورنگ آبادی،اثر فریدی،کامران غنی صبا،نذرلاسلام نظمی،ڈاکٹر طاہر الدین طاہر اور ڈاکٹر وسیم رضا سمیت دیگر اہل علم و دانش کے درمیان کھڑے نظر آرہے ہیں۔یہ تصویر موصوف کے انتقال سے صرف 40 دن قبل کی ہے اس باب میں کتاب ہذا کی مرتب مولانا محمدقمر عالم ندوی کا اجمالی سوانحی خاکہ بھی شامل ہے جسے ان کا تعارف نامہ بھی کہا جا سکتا ہے۔
کتاب میں شامل ابواب سے قبل کتاب ہذا کے تعلق سے کوئی چھ تحریریں مختلف عنوان سے شامل کی گئی ہیں،جو اس طرح ہیں: عرض ناشر:(ڈاکٹر لطیف احمد خاں)عرض مرتب(مولانا محمد قمر عالم ندوی)،رفتید ولے نہ از دل ما:(پروفیسر فاروق احمد صدیقی)،تاثرات:(مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی)،خیال خاطر: (مفتی محمد ثنا اللہ قاسمی) اور ندائے صبا:(پروفیسر کامران غنی صبا)مذکورہ تحریروں سے چند اقتباسات قارئین کے دلچسپی کے لیے یہاں پیش کیے جاتے ہیں:
"پروفیسر ممتاز احمد خاں کے انتقال کو تین سال سے زائد ہوگئے لیکن وہ اپنے احباب و اعزہ کے دلوں میں اب بھی جلوہ افروز ہیں،جس کا واضح ثبوت پیش نظر کتاب "ڈاکٹر ممتاز احمد خاں:زبان خلق کی نظر”میں ہے جس میں تقریبا دو درجن۔ کی قیمتی نگارشات ہیں جن میں ممتاز صاحب کی شخصی خوبیوں اور ادبی خدمات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کتاب کے نام میں زبان خلق کی ترکیب بہت ہی پر معنی اور بلیغ ہے ہو سکتا ہے مرتب کتاب مولانا قمرعالم ندوی استاد مدرسہ احمدیہ ابوبکر پور نے اس مشہور شعر سے استفادہ کیا ہو۔
بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو
زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو”
(ماخوذ:رفتید ولے نہ از دل ما، پروفیسر فاروق احمد صدیقی صفحہ 15)
"ڈاکٹر ممتاز احمد خاں ہمارے درمیان نہیں رہے،مگر وہ اپنے کارناموں کی وجہ سے زندہ ہیں۔ان کے شاگرد اور ان سے محبت کرنے والوں کی بڑی تعداد ہے جو ان کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں،انہی میں سے ایک مولانا محمد قمرعالم ندوی استاد مدرسہ احمدیہ ابابکرپور ویشالی بھی ہیں،انہوں نے ان کے گوناگوں صفات کو اجاگر کرنے کے لیے ان کے دوست و احباب،ان کے رشتہ دار،ان کے متعلقین اور مختلف حیثیت سے ان سے وابستہ قلم کاروں سے مدد لے کر ایک حسین گلدستہ تیار کیا ہے جس میں ڈاکٹر ممتاز احمد خاں ہر رنگ میں نظر آتے ہیں اس حسین گلدستہ کا نام ڈاکٹر ممتاز احمد خاں:زبان خلق کی نظر میں ہے”۔ (ماخوذ:تاثرات مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی صفحہ 17 )
"اس کتاب میں مولانا محمد قمرعالم ندوی نے جو ابواب قائم کیے ہیں اور جس سلیقے سے مضمون کو رکھا ہے وہ ان کی سلیقہ مندی کو واضح کرتا ہے،انہوں نے اس مجموعہ کے لیے خود بھی لکھا اور دوسروں سے لکھوایا بھی اپنے لکھنے کی بنسبت دوسروں سے لکھوانے کے لیے جو جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور جس جان گسل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے,اس کا ادراک کچھ وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہوں نے اس وادی پرخار میں قدم رکھا ہو،اللہ تعالی ان سے (قمر عالم ندوی) کام لے رہا ہے اور متواتر ان کی کتابیں سامنے آرہی ہیں۔اللہ تعالی ان کی اس خدمت کو بھی قبول فرمائے اور صحت و عافیت کے ساتھ درازی عمر بخشے”. (ماخوذ خیال خاطر مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی صفحہ 20)
مولانا محمد قمر عالم ندوی کی مرتبہ یہ کتاب "ڈاکٹر ممتاز احمد خاں:زبان خلق کی نظر میں” واقعی "ممتازیات” کے تعلق سے صرف دستاویزی حیثیت کے حامل نہیں بلکہ "ممتاز شناسی”کے باب میں ایک اضافہ کی حیثیت بھی رکھتی ہے،مولانا ندوی نے ڈاکٹر ممتاز احمد خاں مرحوم سے اپنے قلبی لگاؤ کے پیش نظر یہ کارنامہ انجام دے کر نہ صرف مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرنے کا کام کیا ہے بلکہ مرحوم کے فرزندان محبان شاگردان اور بہی خواہوں کو ممنون بھی کیا ہے جس کے لیے وہ مبارکباد کے ساتھ ساتھ شکریہ کے بھی مستحق ہیں،میں بھی انہیں یہ اہم کارنامہ انجام دینے پر صمیم قلب سے مبارکباد دیتا ہوں اور ان سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ آئندہ بھی ایسے مثالی کارنامے انجام دیتے رہیں گے۔ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کی حیات و خدمات کے تعلق سے شائع یہ کتاب "ممتاز اردو لائبریری” باغ ملی حاجی پور،مدرسہ حسینیہ چھپرہ خرد چہرہ کلاں ویشالی،نور القمر اردو لائبریری مدنی نگر مہوا ویشالی اور پٹنہ میں اردو کتابوں کی مشہور دکان "بک امپوریم” سبزی باغ پٹنہ سے حاصل کی جا سکتی ہے۔کتاب کے تعلق سے مزید معلومات کے لیے ناشر ڈاکٹر لطیف احمد خاں کے موبائل نمبر 8873427899 اور مرتب کتاب مولانا محمد قمرعالم ندوی کے موبائل نمبر 9931791773 پررابطہ کیاجا سکتا ہے۔

Exit mobile version