Slide
Slide
Slide

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا قائم کردہ اقتصادی نظام اور موجودہ عالمی نظام کا تقابلی مطالعہ

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا قائم کردہ اقتصادی نظام اور موجودہ عالمی نظام کا تقابلی مطالعہ

از :مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی

_________________

اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری انسانیت کے لیے رحمت بناکر مبعوث فرمایا. آپ نے زندگی کے تمام شعبوں سے ظلم وجبر کو ختم کرکے عدل و مساوات اور رحمت ورافت کا پیغام دیا، زندگی گزارنے کے لیے ہر انسان اسباب حیات : روپیے، پیسے، اجناس اور غلہ وغیرہ کا محتاج ہوتا ہے، اسباب حیات کی فراہمی کے لیے انسان کسبِ معاش کرتا ہے؛اور محنت ومزدوری اور صنعت وحرفت کرکے نانِ شبینہ کا انتظام کرتا ہے، لیکن یہ بھی بڑی سچائی ہے کہ عام انسانوں کا استحصال سب سے زیادہ معاشی اور اقتصادی میدانوں میں ہی ہوتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح دیگر شعبۂ حیات کی اصلاح کی،اور اسے الہی اصولوں کے تابع بنایا۔اسی طرح آپ نے اقتصادیات ومعاشیات کے لیے بھی حیات بخش اور عادلانہ اصول بتائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسا اقتصادی نظام قائم کیا جو انصاف، مساوات اور اخلاقیات اور توازن پر مبنی ہے ۔
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ اقتصادی اصول موجودہ دور کے عالمی اقتصادی نظام کے مقابلے میں کئی لحاظ سے بہتر اور پوری انسانیت کے لیے نفع رساں ہیں ۔ذیل کے سطور میں ہم اقتصادیات نبوی کے بنیادی اصولوں کاجائزہ پیشکرتےہیں:

دولت کی منصفانہ تقسیم اور اس کا عدمِ ارتکاز :

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا قائم کردہ اقتصادی نظام ،انسانیت ، بھلائی، عدل و انصاف اور معاشرتی فلاح و بہبود پر مبنی ہے ۔ زکوة، صدقہ، اور خیرات جیسے اصول اس نظام کے اہم اجزاء ہیں؛ جو دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بناتے ہیں ۔
جس طرح انسانی حیات کے لیے اس کی رگوں میں خون کی گردش ضروری ہے، اسی طرح نظامِ کائنات کی حیات ،مال کی صحیح گردش پر موقو ف ہے ۔جو تجارت اور اقتصادی نظام کے ذریعے وجود میں آتی ہے ،اور جس طرح خون کا جسم کے کسی حصے میں جم جانا اور دوسرے حصو ں تک نہ پہنچ پانا جسم کے لیے موت ہے، اسی طرح سرمایہ اور دولت کا چندہاتھوں میں جمع ہوکر رہ جانا (جیسا کہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں ہورہا ہے۔)نظام کائنات کی تباہی اور فساد فی الارض ہے ۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:لاتفسدوا فی الارض بعد اصلاحہا۔

اسلام کے اقتصادی نظام کی بنیاد قرآن کی زبان میں :”کی لا تکون دولۃ بین الاغنیاء منکم ۔”ہے ، یعنی دولت وسرمایہ چند ہاتھوں میں مرتکز (جمع) نہ ہوجائے۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قائم کردہ اقتصادی نظام کی دیگر بنیادیں امداد باہمی، غرباء پروری اور انفاق فی سبیل اللہ ہے ۔ صدقہ، خیرات اور زکوٰۃ کا نظام اس نظام کی نمایاں علامات ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ کتابِ ہدایت قرآن مجید میں اہلِ ایمان کو زیادہ سے زیادہ صدقہ خیرات کرنے اور پوری دیانت داری کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور انہیں بتایا گیا ہے کہ صدقہ اور زکوٰۃ دینے سے مال بھی پاکیزہ ہوتا ہے اور نفس کی بھی صفائی ہوتی ہے.
سورہ توبہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
خُذۡ مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمۡ وَ تُزَکِّیۡہِمۡ بِہَا وَ صَلِّ عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۱۰۳﴾
ترجمہ :
(اے پیغمبر) ان لوگوں کے مالوں میں سے صدقہ وصول کرلیں؛ جس کے ذریعے آپ انھیں پاک صاف کردیں گے اور ان کے لیے باعث برکت بھی بنیں گے، () اور ان کے لیے دعا کریں ۔ یقینا آپ کی دعا ان کے لیے سراپا تسکین اور موجب اطمینان ہے، اور اللہ ہر بات سنتا اور سب کچھ جانتا ہے۔٬٬
اسی طرح اللہ کے بندوں کی اعانت و امداد اور اللہ کی رضا کے لیے کیے جانے والے ہر چھوٹے بڑے خرچ پر اللہ تعالیٰ نے عظیم اجر کا وعدہ کیا ہے.
چنانچہ ذیل آیت میں ارشاد ہے :
اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ بِالَّیۡلِ وَ النَّہَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً فَلَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۚ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿۲۷۴﴾ؔ
ترجمہ:
جو لوگ اپنے مال دن رات خاموشی سے بھی اور علانیہ بھی خرچ کرتے ہیں، وہ اپنے پروردگار کے پاس اپنا ثواب پائیں گے، اور نہ انھیں کوئی خوف لاحق ہوگا، نہ کوئی غم پہنچے گا۔
سورہ توبہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَ لَا یُنۡفِقُوۡنَ نَفَقَۃً صَغِیۡرَۃً وَّ لَا کَبِیۡرَۃً وَّ لَا یَقۡطَعُوۡنَ وَادِیًا اِلَّا کُتِبَ لَہُمۡ لِیَجۡزِیَہُمُ اللّٰہُ اَحۡسَنَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۲۱﴾
ترجمہ :
نیز وہ جو کچھ (اللہ کے راستے میں) خرچ کرتے ہیں، چاہے وہ خرچ چھوٹا ہو یا بڑا، اور جس کسی وادی کو وہ پار کرتے ہیں، اس سب کو (ان کے اعمال نامے میں نیکی کے طور پر) لکھا جاتا ہے، تاکہ اللہ انھیں (ہر ایسے عمل پر) وہ جزاء دے، جو ان کے بہترین اعمال کے لیے مقرر ہے۔ ()
اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب نصاب مسلمان پر فرض کیا کہ وہ اپنی کل جمع پونجی میں سے ڈھائی پرسنٹ کے حساب سے بطور زکوٰۃ نکالے تاکہ اسے غریبوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کے درمیان تقسیم کیا جاسکے.
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل کو جب یمن کا گورنر بناکر بھیجا تو انہیں جو احکامات دیئے، ان میں سے ایک حکم یہ بھی تھا:
"پھر انہیں یہ بھی بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مال پر کچھ صدقہ فرض کیا ہے ، جو ان کے مالدار لوگوں سے لے کر انہیں کے محتاجوں میں لوٹا دیا جائے گا۔
(عن ابن عباسٍ رضي الله عنهما: أنَّ النبي ﷺ بعث معاذًا إلى اليمن .. فذكر الحديثَ, وفيه: أنَّ الله قد افترض عليهم صدقةً في أموالهم, تُؤْخَذ من أغنيائهم, فتُرَدُّ في فُقرائهم. متَّفقٌ عليه. )
امراء سے لے کر فقراء و مساکین اور ضرورت مندوں میں تقسیم کرنا؛ یہ اصول ،دولت کی متوازن تقسیم اور معاشرتی انصاف کو فروغ دیتا ہے۔

عشر وخراج کی اہمیت:

اسلام کے اقتصادی نظام میں زکوۃ وصدقات کے ساتھ عشر وخراج کی بھی بڑی اہمیت ہے؛ یعنی زراعت، باغات اور زمین کی پیداوار میں بھی غریب عوام کا حق۔وَ الَّذِیْنَ فِیْۤ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ (24) لِّلسَّآئل وَ الْمَحْرُوْمِ(25)
ترجمہ:
اور وہ جن کے مال میں ایک معلوم حق ہے۔سائل کے لیے بھی اور محروم لوگوں کے لیے بھی ۔
اگر زمین بارش سے سیراب ہو رہی ہوتو (عشر) دسواں حصہ اور اگر کسان نے خود مشقت کرکے زمین کوپانی دیا تو بیسواں حصہ۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ انعام میں فرمایا :
وَ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَ جَنّٰتٍ مَّعۡرُوۡشٰتٍ وَّ غَیۡرَ مَعۡرُوۡشٰتٍ وَّ النَّخۡلَ وَ الزَّرۡعَ مُخۡتَلِفًا اُکُلُہٗ وَ الزَّیۡتُوۡنَ وَ الرُّمَّانَ مُتَشَابِہًا وَّ غَیۡرَ مُتَشَابِہٍ ؕ کُلُوۡا مِنۡ ثَمَرِہٖۤ اِذَاۤ اَثۡمَرَ وَ اٰتُوۡا حَقَّہٗ یَوۡمَ حَصَادِہٖ ۫ۖ وَ لَا تُسۡرِفُوۡا ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ ﴿۱۴۱﴾ۙ
ترجمہ :
اللہ وہ ہے جس نے باغات پیدا کیے جن میں سے کچھ (بیل دار ہیں جو) سہاروں سے اوپر چڑھائے جاتے ہیں، اور کچھ سہاروں کے بغیر بلند ہوتے ہیں، اور نخلستان اور کھیتیاں، جن کے ذائقے الگ الگ ہیں، اور زیتون اور انار، جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں، اور ایک دوسرے سے مختلف بھی۔ () جب یہ درخت پھل دیں تو ان کے پھلوں کو کھانے میں استعمال کرو، اور جب ان کی کٹائی کا دن آئے تو اللہ کا حق ادا کرو، () اور فضول خرچی نہ کرو۔ یاد رکھو، وہ فضول خرچ لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔
اسی طرح اسلام نے وراثت کی تقسیم کرکے ایسے جامع اور پرحکمت احکامات دیے کہ اگر ساری دنیا کی دولت بھی کوئی فرد اکٹھی کرلے تو چند پشتوں میں وہ ساری دولت وراثت کے احکامات کے ذریعے معاشرہ میں پھیل جائے گی۔

صدقہ و خیرات کی ترغیب :

اس کے علاوہ اہل ایمان میں یہ احساس بھی پیدا کیا گیا کہ غرباء وفقراء میں مال ودولت کی تقسیم سے مال کم نہیں ہوتا بلکہ مال بڑھتا ہے.. وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاۡ فِیْۤ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِۚ-وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ(39)
ترجمہ:
اور یہ جو تم سود دیتے ہو تاکہ وہ لوگوں کے مال میں شامل ہو کر بڑھ جائے تو وہ اللہ کے نزدیک بڑھتا نہیں ہے۔ () اور جو زکوۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے ارادے سے دیتے ہو، تو جو لوگ بھی ایسا کرتے ہیں وہ ہیں جو (اپنے مال کو) کئی گنا بڑھا لیتے ہیں۔ ()

سود کی حرمت :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ شریعت میں صدقات کی ترغیب کے ساتھ ربوا اور سودی معاملات کو حرام قرار دیا گیا اور سود خوروں کے لیے اعلان جنگ کر دیا گیا، جب کہ مال کو فروغ دینے کے لیے تجارت اور بزنس کی ترغیب دی گئی.
سود کی ممانعت اس وجہ سے کی گئی سود قرض لینے والے پر ظلم اور اس کے مالی بوجھ کو بڑھاتا ہے۔جب کہ قرض دینے والے کے طمع و حرص اور سخت دلی اور شقاوت قلبی میں اضافہ کا سبب ہوتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں فرمایا :
اَلَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوۡمُوۡنَ اِلَّا کَمَا یَقُوۡمُ الَّذِیۡ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیۡطٰنُ مِنَ الۡمَسِّ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَالُوۡۤا اِنَّمَا الۡبَیۡعُ مِثۡلُ الرِّبٰوا ۘ وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الۡبَیۡعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا ؕ فَمَنۡ جَآءَہٗ مَوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ فَانۡتَہٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَ ؕ وَ اَمۡرُہٗۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ عَادَ فَاُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۲۷۵﴾
ترجمہ :
جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت میں) اٹھیں گے تو اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھوکر پاگل بنادیا ہو، یہ اس لیے ہوگا کہ انھوں نے کہا تھا کہ : بیع بھی تو سود ہی کی طرح ہوتی ہے۔ () حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ لہٰذا جس شخص کے پاس اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت آگئی اور وہ (سودی معاملات سے) باز آگیا تو ماضی میں جو کچھ ہوا وہ اسی کا ہے۔ () اور اس ( کی باطنی کیفیت) کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اور جس شخص نے لوٹ کر پھر وہی کام کیا () تو ایسے لوگ دوزخی ہیں، وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔
سودا تنی بڑی لعنت وبرائی ہے کہ اسلام نے سود کے مسئلہ پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، حتیٰ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نجران کے عیسائیوں سے معاہدہ کیا تو اس میں صراحت کی گئی تھی کہ سودی کاروبار کی صورت میں یہ معاہدہ کالعدم سمجھا جائے گا۔ یعنی اگر کوئی کسی مسلمان کو قتل کردے یا مسلمانوں کے خلاف سازش کرے، جاسوسی کرے تو سزائے موت صرف اس مجرم کو ملے گی، من حیث القوم انہیں کچھ نہیں کہاجائے گا۔ مگر سودی لین دین پر پوری قوم کے ساتھ کیاگیا معاہدہ ختم کردیا جائے گا۔
اسی طرح خلفاے راشدین کے عہد زریں میں دنیا بھر کی اقوام ومذاہب سے جو معاہدے ہوئے، ان تمام میں واضح طور یہ شق موجود تھی کہ اگر تم نے سودی لین دین کیا تو ہم سے معاہدہ ختم ہو جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نظام معیشت میں سود وہ بدترین برائی، شراور لعنت ہے جو کسی حالت میں برداشت نہیں کی جاسکتی۔

تجارتی اصول:

حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اقتصادی نظام قائم فرمایا، اس میں تجارت کو خاص اہمیت دی گئی،خود آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت وبیوپار کیا اور آپ نے تجارت وتجار کی بڑی فضیلت بیان فرمائی، اس کے علاوہ آپ نےتجارتی معاملات میں شفافیت، انصاف اور دیانت داری کی تاکید کی۔اور سچے اور امانت تاجر کے لیے بڑی بشارت سنائی.
حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” التاجر الصدوق الامين مع النبيين، والصديقين والشهداء ".
”سچا اور امانت دار تاجر (قیامت کے دن) انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا“(سنن ترمذی کتاب البیوع)
تجارت میں شفافیت اور دیانت داری کے فروغ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارتی معاملات میں جھوٹ، دھوکہ دہی اور فریب کی ممانعت فرمائی ۔
عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، مر على صبرة طعام فادخل يده فيها، فنالت اصابعه بللا، فقال: ” ما هذا يا صاحب الطعام؟ "، قال: اصابته السماء يا رسول الله، قال: ” افلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس، من غش، فليس مني ".(صحیح مسلم 102)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غلے کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے ،توآپ نے چیک کرنے کے لیے اپنا ہاتھ اس میں داخل کیا، آپ کی انگلیوں نے غلہ کے اندر نمی محسوس کی تو آپ نے فرمایا: ” غلے کے مالک! یہ کیا ہے؟“ اس نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! اس پر بارش کے چھینٹے پڑ گئے تھے ۔ آپ نے فرمایا: ” توتم نے اسے (بھیگے ہوئے غلے) کو اوپر کیوں نہ رکھا تاکہ لو گ اسے دیکھ لیتے؟ اور دھوکہ نہیں کھاتے، جس نے دھوکا کیا، وہ مجھ سے نہیں۔“ (ان لوگوں میں سے نہیں جنہیں میرے ساتھ وابستہ ہونے کا شرف ہے۔)

معاہدہ اور وعدوں کی پاسداری کا حکم:

تجارت کے فروغ کے لیے معاہدات کی پاسداری اور عہد وپیمان کی سختی سے پابندی کرنے کی تاکید کی گئی تاکہ فریقین کے حقوق محفوظ رہیں۔کسی بھی حال میں کسی بھی فریق کو نقصان نہ اٹھانا پڑے.
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو معاہدات پورا کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے فرمایا ، ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو!اپنے عقود کو پورا کیا کرو‘‘(المائدہ:1)
باہمی معاملات وعدوں پر منحصر ہوتے ہیں اگر ان وعدوں کی پاسداری کی جائے تو معاملات ٹھیک رہتے ہیں لیکن اگر وعدوں کو وفا نہ کیا جائے اور وعدہ خلافی کسی بھی معاملے میں شامل ہو جائے تو پھر بگاڑ شروع ہو جاتا ہے، تعلقات میں خرابی در آتی ہے اور ایک دوسرے پر اعتماد برقرار نہیں رہتا ہے۔ کسی بھی وعدہ خلاف انسان کو قابلِ اعتماد نہیں سمجھا جاتا اور ہمیشہ اس سے ان معاملات میں احتیاط کی جاتی ہے جو وعدے پر منحصر ہو۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے معاملات کی دنیا میں سب سے زیادہ جس بات پر زور دیا وہ ’’ایفائے عہد‘‘ ہے۔
حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ : رسول اللہ ﷺ جب بھی خطبہ دیتے تو اس میں ضرور یہ بات کہتے:لا ایمان لمن لا امانۃ لہ ولا دین لمن لا عہد لہ ’’اس شخص کا کوئی ایمان نہیں جس میں امانت داری نہیں اور اس شخص کا کوئی دین نہیں جس میں عہد کی پاسداری نہیں‘‘ (الترغیب و الترہیب، 21)۔
یعنی جو امانت میں خیانت کرتا ہے وہ کامل مومن نہیں اور جو وعدہ خلافی کرتا ہے اس کا دین کامل نہیں ہے۔

ناپ تول میں کمی کی ممانعت :

معاشی دنیا کی ایک بدترین اخلاقی برائی جس کی وجہ سے کار وبار ضائع ہوتے ہیں اور جس کی وجہ سے گزشتہ امتوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا، وہ ناپ تول میں کمی کرنے کی برائی ہے. امت محمدیہ کو بھی اس برائی سے سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا.
قرآن کریم میں ارشاد ہے : وَيقَوْمِ أَوْفُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ.
” اور اے میری قوم! تم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پورے کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو اور فساد کرنے والے بن کر ملک میں تباہی مت مچاتے پھرو۔“(11:85)
ایک دوسری آیت میں اللہ تعالٰی ارشاد فرمایا:وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ‏ ‏۝ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ.
ترجمہ:درست ترازوسےتولاکرواور لوگوں کو ان کی چیزیں کم (تول کے ساتھ) مت دیا کرو اور ملک میں (ایسی اخلاقی، مالی اور سماجی خیانتوں کے ذریعے) فساد انگیزی مت کرتے پھرو۔“(26:182)۔
سورہ رحمن میں اللہ تعالٰی نے فرمایا:
أَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ. وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ
”یہ کہ تم تولنے میں بے اعتدالی نہ کرو، اور انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول کو کم نہ کرو۔“(55:07)
سورہ تطفیف میں اللہ تعالٰی نے فرمایا : وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ‏۝ الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ ‏۝ وَإِذَا كَالُوهُمْ أَو وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ۔
”بربادی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کیلئے، یہ لوگ جب (دوسرے) لوگوں سے ناپ لیتے ہیں تو (ان سے) پورا لیتے ہیں، اور جب انہیں (خود) ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو گھٹا کر دیتے ہیں۔“(83:02)

حق المحنت اور معاوضہ میں کمی کی ممانعت:
اس ناپ تول کی کمی کے ضمن میں حقوق کی کٹوتی اور حق تلفی بھی شامل ہے. مذکورہ آیات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیﷻ کسی شخص کو اس کے حق سے کم ادائیگی کونا پسند کرتا ہے ، یہ انتہائی غلط ہے کہ ایک آدمی کام تو پورا لے لیکن معاوضہ کم دے، یا ایک آدمی کام کم کرے اور معاوضہ پورا طلب کرے۔اجرت میں کمی اور کٹوتی بھی مذکورہ وعید میں شامل ہے۔

ماحولیاتی تحفظ اور انسانی حقوق کی اہمیت :

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم کردہ معاشی نظام میں ماحولیاتی تحفظ اور انسانی حقوق کی اہمیت کو بھی نمایاں کیا گیا۔اسلامی شریعت کا واضح حکم ہے کہ جنگ کی حالت میں درختوں، باغوں اور کھیتوں کو نہ تو جلایا جائے اور نہ ان کو نقصان پہنچایا جائے۔ قرآن کریم کی سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۲۰۵ میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو کسی علاقے پر غلبہ پانے کے بعد وہاں کے کھیتوں کو تباہ و برباد کرتے ہیں۔
ایک حدیث میں رسول اکرم نے مجاہدین کو خاص طور پر درختوں اور کھیتوں کو بر باد کرنے سے منع فرمایا۔ ( ترندی بروایت حضرت ابوبکر صدیق)
رسول اکرم نے اپنے امتیوں کو شجر کاری کی ترغیب دی ہے اور درختوں کو بے ضرورت کاٹنے یا ان کو ضائع کرنے کی ممانعت فرمائی ہے۔ آپ کا ارشاد گرامی ہے: جو کوئی درخت لگائے یا کھیتی کرے اور اس میں سے پرندے، انسان یا جانور کھائیں تو اس کے لیے اس میں صدقہ ہے۔ ( صحیح بخاری و مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اقتصادی نظام قائم فرمایا اس میں قدرتی وسائل کے تحفظ کو بھی بڑی اہمیت دی گئی؛ اس لیے کہ یہ معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہے، پیداوار اور اجناس کا حصول انہیں کے ذریعہ ہوتا ہے.
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین، پانی اور دیگر قدرتی وسائل کو ضائع کرنے سے بچنے کی تاکید فرمائی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں انسانی حقوق اور غلاموں اور مزدوروں کے حقوق کی حفاظت کی گئی، اور انہیں مناسب معاوضہ دینے کی تاکید کی گئی۔
انسانی حقوق کے ضمن میں خاص طور پر مزدوروں کے حقوق کو مضبوطی کے ساتھ تحفظ دیا گیا، اور پسینہ خشک ہونے سے پہلے ان کی مزدوری ادا کرنے کا حکم دیا گیا.
عن عبد الله بن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أعطوا الأجير أجره، قبل أن يجف عرقه».”
(سنن ابن ماجه، رقم الحدیث: 2443،)
عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” ‌من ‌اقتطع ‌مال امرئ مسلم بغير حق، لقي الله عز وجل وهو عليه غضبان.”(مسند احمد،رقم :3946 )
ترجمہ:”جس نےنا حق کسی مسلمان کا مال روک لیا وہ اللہ تعالی سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالی اس پر غصہ ہوں گے (اور اس سے ناراض ہوں گے )۔”
ایک اور مقام پر فرمایا:
عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ” قال الله: ثلاثة أنا خصمهم يوم القيامة: رجل أعطى بي ثم غدر، ورجل باع حرا فأكل ثمنه، ورجل استأجر أجيرا فاستوفى منه ولم يعط أجره.”
(صحیح البخاری، رقم الحدیث: 2227،)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تین طرح کے لوگ ایسے ہوں گے جن کا قیامت کے دن میں مدعی بنوں گا، ایک وہ شخص جس نے میرے نام پر عہد کیا اور وہ توڑ دیا، وہ شخص جس نے کسی آزاد انسان کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی اور وہ شخص جس نے کوئی مزدور اجرت پر رکھا، اس سے پوری طرح کام لیا، لیکن اس کی مزدوری نہیں دی۔
ایک مقام پر ارشاد فرمایا ”تمہارے ہاں کام کرنے والے ملازمین تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالی نے انہیں تمہاری ماتحتی میں دے رکھا ہے، سو جس کا بھی کوئی بھائی اس کے ماتحت ہو اسے وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے۔“[صحیح بخاری: 2545 ]
ایک اور موقع پر رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ ”ہر انسان کے کم از کم تین حقوق ہیں: رہنے کیلیے گھر، تن ڈھکنے کیلیے کپڑا/لباس، اور پانی اور روٹی کا ٹکڑا۔“
(جامع ترمذی:2341)
خلاصہ یہ کہ ہر وہ چیز جس سے مال وسرمایہ چندہاتھوں میں مرتکز ہو جاتا ہے، یا کس کی حق تلفی ہوتی ہے اسے اسلام نے ممنوع وحرام قرار دیا جیسے سود، ذخیرہ اندوزی، جوا وغیرہ وغیرہ۔ اسلام کے پورے اقتصادی نظام کا مقصد اہل ثروت سے مال لے کر بے وسائل اور غربا تک پہنچاناہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اقتصادی نظریہ افزایش دولت produltionکے بجائے تقسیم دولت Distributionکا نظریہ ہے۔

یہی وہ بنیادی فرق ہے جو اسلامی معاشی نظام کو دوسرے معاشی نظاموں سے ممتاز کرتاہے۔ ، دنیا کے تقریباً تمام ہی معاشی نظام افلاطون کے یوٹو پیائی نظام سے لے کر موجودہ دور کے مارکسی نظام معیشت یامغرب کے سرمایہ دارانہ نظام تک سب کا مقصد زیادہ سے زیادہ حصول دولت اور سرمایہ کا ارتکاز ہے ۔
یہ سب معاشی نظام حصول دولت کے لیے معاشرے کو تباہ کرنے والے اور نقصان پہنچانے والے غلط ذرائع کے اختیار کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں سمجھتے۔
جب دنیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیش کردہ اقتصادی نظام قائم ہوا تو چند سالوں کے اندر ایسی خوش حالی کا دور دورہ ہو اکہ مملکت اسلامی کے کسی شہر میں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں ملتا تھا۔
گذشتہ سطور میں تفصیل کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ اقتصادی نظام کے خد وخال اور اس کی بنیادوں اور صفات کو بیان کیا گیا، ذیل میں موجودہ عالمی اقتصادی نظام کا جائزہ پیش کیا جارہا ہے تاکہ:وبضدھا تتبین الاشیاء کے مصداق چیزیں واضح ہوجائیں۔

موجودہ عالمی نظام کا جائزہ:

موجودہ عالمی اقتصادی نظام میں سرمایہ داری اور مارکیٹ کی معیشت کا غلبہ ہے۔
اسلام کے اقتصادی نظام کے مقابلے میں موجودہ سرمایہ دارانہ نظام ہے؛ جو بیسیویں صدی کے اوائل سے دنیا بھرمیں غالب ومروج ہے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادسود، ذخیرہ اندوزی اورجوا (سٹہ) عدم مساوات ،عدم توازن اور محنت کش طبقات غریبوں، مزدوروں اور کسانوں کا استحصال ہے۔ اس نظام کے ثمرات ونتائج یہ ہیں کہ دنیا بھر میں امیروں کی امارت میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور غریب افراد کے فقر وافلاس میں مزید اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ پوری دنیا کا سرمایہ و وسائل چند مٹھی بھر ہاتھوں میں منتقل ہو رہا ہے۔ اس وقت پوری دنیا کا۸۰ فی صد سے زائد سرمایہ ۵۰۰ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ملکیت بن چکا ہے۔ تقریباً دنیا کے ہر ملک میں سرمایہ ووسائل چند لوگوں کے ہاتھ میں سمٹ گئے ہیں۔ مثلاً ہندوستان کی آبادی سوا ارب سے زائد ہے۔ یہاں ہندوستان میں سوا ارب انسانوں کے پاس جتنا سرمایہ ہے، اتنا ہندوستان کے چار مشہو ر سرمایہ داروں کے پاس ہے۔ پاکستان کے بیس کروڑ لوگوں کے پاس جتنا سرمایہ ہے، اس کا بڑا حصہ چند لوگوں کے پاس ہے۔ (بحوالہ مولانا زاہد الراشدی، مجلہ الشریعہ)

دنیا میں تیزی سے دوطبقات وجود میں آئے ہیں۔

  • (۱) انتہائی امیر

  • (۲) انتہائی غریب۔

متوسطہ طبقہ تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مغرب کی ذہنی غلامی میں پوری دنیا مغرب کے قرون وسطیٰ کے تاریک دورکی طرف بڑھ رہی ہے، جب یورپ میں لارڈ اور جاگیر دار یا ان کے غلام ہوا کرتے تھے، حتیٰ کہ دنیا بھر کی حکومتیں بشمول امریکہ ویورپ کے مٹھی بھر سرمایہ داروں کی غلام بن چکی ہیں۔ آج جمہوریت کی تعریف یہ نہیں رہی کہ عوام کی حکومت عوام کے ذریعے ، اور عوام کے مفاد کے لیے بلکہ آج جمہوریت کا مطلب ہے سرمایہ داروں کی حکومت، سرمایہ داروں کے ایجنٹوں کے ذریعے، سرمایہ داروں کے مفاد کے لیے۔ اس غیر فطری اور انسان دشمن اقتصادی نظام نے پوری دنیا کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔
موجودہ عالمی نظام میں ماحولیاتی تباہی کی بڑھتی ہوئی شرح اور قدرتی وسائل کی بے دریغ استعمال دیکھنے کو ملتا ہے۔. بڑے بڑے آبی ذخائر کو تباہ کرکے اس پر بڑی بڑی کالونیاں تعمیر کی جارہی ہیں،، بڑی تعداد میں درختوں کو کاٹ کر اس پر فیکٹریاں بٹھائی جارہی ہیں.

آج صورتحال یہ ہے کہ CAT معاہدہ اور قومی مارکیٹ اکانومی کے مغرب نواز نظام کے ذریعہ مغرب کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ہر ملک میں گھس کر اپنا جال بچھانے، نفع کمانے، سرمایہ لوٹنے اور قوموں اور تہذیبوں کو نچوڑ کر کنگال بنانے کی پوری آزادی ہے۔
زیادہ تر ترقی پذیر ممالک ورلڈ بینک کے مقروض ہیں، کئی ممالک ایسے ہیں کہ ہر بچہ شکم مادر سے ہی مقروض پیدا ہوتا ہے۔یہ انسانوں کے استحصال اور انہیں غلام بنانے کی بدترین شکل ہے۔
آج سود کے منحوس نظام کی بدولت دنیا کی ۹۰فی صد عوام کا جینا دو بھر ہو چکا ہے۔ سود اور مہنگائی دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہے۔ہیں اور دیگر غریب رہتے ہیں۔
اس سودی نظام میں قرضوں پر سود لیا جاتا ہے، جو بعض اوقات قرض لینے والے ممالک اور افراد کے لیے مالی مشکلات پیدا کرتا ہے۔ جب سے اس منحوس نظام نے دنیا پر اپنے خونی پنجے گاڑے ہیں، مہنگائی میں دن بدن ہوشربا اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے ۔ مہنگائی بڑھانے کے جنون کا حال یہ ہے کہ امریکہ ہرسال اپنے کسانوں کو 12ارب ڈالر اس لیے دیتاہے کہ وہ مہنگائی بڑھانے کے لیے زرعی پیدا وار میں کمی کریں۔ ظاہر ہے کہ اتنی بڑی فالتو رقم عام طور پر امریکہ کے پاس بھی نہیں ہوتی چنانچہ انہیں خونخوار بینکاروں سے سود پر قرض لے کر رقم کسانوں کو دی جاتی ہے۔ یہ شقاوت وبدبختی کی نہایت عبرت ناک مثال ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سوسال پہلے یہ حقیقت انسانوں کے سامنے واشگاف طور پر بیان کی تھی کہ سود کا مال کتنا ہی بڑھ جائے، اس کا انجام افلاس وتباہی ہے۔ معاشیات کی پوری تاریخ اس پر شاہد ہے کہ سودی معیشت جب کساد بازاری کا شکار ہوتی ہے تو انسانیت ایسے ہولناک انجام سے دوچا ر ہوتی ہے کہ ایک لمحہ میں کروڑوں انسانوں کی جمع پونجی ڈوب جاتی ہے۔ آج دنیا کا کوئی ماہر معاشیات ایسا نہیں جس نے معاشر ہ پر سودکے مہلک ومنفی اثرات کو تسلیم نہ کیاہو اور موجودہ دور کے تمام ماہرین معاشیات واقتصادیات خواہ وہ امریکہ ویورپ کے ہوں یا روس وجاپان کے، اس بات پرمتفق ہیں کہ سودی نظام بہت جلد پوری دنیاکو تباہ کردے گا۔ بہت جلد دنیابھر کے تمام سرمایہ ووسائل کے مالک مٹھی بھر بنکار بن جائیں گے تو اس دنیاکے سات ارب انسانوں کے اندرجو رد عمل ہوگا، ایسی بھیانک تباہی آئے گی، کروڑوں اربوں کاخون بہے گا، یہ ماہرین اقتصادیات اس کے تصور ہی سے کانپ اٹھتے ہیں. (ماخوذ، از ماہنامہ الشریعہ)

سرمایہ نظام کی پیدا کردہ چند تباہ کاریاں مندرجہ ذیل ہیں :

  • غربت: غربت دنیا کا بہت بڑا اجتماعی مسئلہ ہے، سیاسی حکما اور معاشی ماہرین غربت کے خاتمے کے لیے پسماندہ ملکوں کی بھاری امداد سمیت بے شمار اقدامات کرتے ہیں لیکن غربت میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
  • کرپشن: کرپشن بھی دنیا کا سب سے بڑا اجتماعی مسئلہ ہے اور اس کے خاتمے کے لیے بے شمار جتن کیے جاتے ہیں لیکن صورتحال یہ ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
  • بدعنوانیاں :بد عنوانیاں بھی ہمارے معاشروں کی بڑی بیماریوں میں سے ایک ہیں لیکن یہ عنصر ہمارے معاشروں کے لوازمات میں سے ایک ہے اس کے خاتمے کے لیے بھی قانون اور انصاف میں بڑی بڑی سزائیں موجود ہیں لیکن یہ بیماری لا علاج ہے۔

نچلی سطح سے اعلیٰ سطح تک رشوت ہمارے معاشروں میں وباء کی طرح پھیلی ہوئی ہے لیکن اس کا اب تک کوئی علاج دریافت نہیں کیا جا سکا۔

  • منافع خوری: منافع خوری ہمارے معاشرے کی جڑوں میں پیوست ہوتی جارہی، لیکن کوئی اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ یہ ساری لعنتیں سرمایہ دارانہ نظام کی مرہون منت ہیں۔
  • سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف مظاہرے: اس نظام سے تنگ آکر لندن میں پچھلے دنوں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ’’ملین ماسک مارچ‘‘ کا اہتمام کیا گیا جس کے خلاف اس نظام کی غلام پولیس نے پُر تشدد کارروائی کی۔

اس سے قبل امریکا میں وال اسٹریٹ تحریک بھی بڑے منظم انداز میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف چلائی گئی اور یہ تحریک دنیا کے کئی ملکوں تک پھیل گئی ۔ وال اسٹریٹ تحریک سے پہلے بھی اس ظالمانہ استحصالی نظام کے خلاف تحریکیں چلتی رہیں لیکن اس نظام کے شاطر رکھوالوں نے ان تحریکوں کو طاقت اور بے پناہ دولت کے ذریعے ابھرنے نہیں دیا۔

بحوالہ ایکسپریس نیوز اشاعت 20 نومبر 2015

ستمبر ۲۰۰۸ء کو مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کا بدترین بحران سامنے آیا جب امریکہ کے دوسرے بڑے بینک لیہمن برادرز (Lehman Brothers) کا خسارہ ناقابل برداشت حدود کو پار کر گیا۔ نیویارک سٹاک ایکسچینج میں ایک شئیر کی قیمت 80 ڈالر سے گر کر 1.65 ڈالر پر آگئی، یعنی اس بینک کے سرمایہ کی مالیت 185 ارب ڈالر سے گر کر صرف 565 ارب ڈالر رہ گئی اور لیہمن برادرز کے 130 ملکوں میں پھیلے ہوئے 16000 ملازمین کی نوکریاں خطرے میں پڑگئیں۔ اسی دن امریکہ کی بین الاقوامی شہرت کے حامل انشورنس کمپنی AIG (امریکن انٹرنیشنل گروپ) کریش کر گئی اور اس نے اپنی بقا کے لیے امریکن حکومت سے 85 ارب ڈالر کی رقم کا مطالبہ کر دیا۔ صورت حال اس قدر خطرناک ہوگئی کہ نیویارک اسٹاک ایکسچینج ایک ہی رات میں 084 پوائنٹس سے گرا اور امریکی شیئر مارکیٹ 60 گھنٹوں میں 8 فی صد گر گئی۔ صرف ستمبر کے مہینے میں بینکوں کے ایک لاکھ انسٹھ ہزار ملازمین اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان میں وال اسٹریٹ کے تیس ہزار ملازمین بھی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یورپین ممالک سے لے کر مشرق بعید تک پورا سرمایہ دارانہ نظام لڑ کھڑا گیا۔ کمیونزم کے بعد کیپٹل ازم کا اقتصادی نظریہ ونظام ناکام ہوکر زمین بوس ہوتا نظر آیا۔(تفصیلات ماہنامہ الشریعہ کراچی سے مستفاد ہیں)
اسی طرح اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ اقتصادی نظام کے مقابلے میں سوشل ازم یا اشتراکیت کے اقتصادی نظام کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ بھی خرابیوں کا مجموعہ ہے۔یہ درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام اور فرد کو غیر محدود آزادی کا رد عمل ہے، اس کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ یہ ریاست کو حد سے زیادہ طاقت ور بنا کر افراد، خاندانوں، قبیلوں اور برادریوں کی آزادی سلب کر لینا چاہتا ہے، اور افراد سے معاشرے کی خدمت لینے کے لیے ر یاست کو اتنا زیادہ اقتدار دے دیتا ہے کہ افرادی ہی روح انسانوں کی بجائے ایک مشین کے بے روح پُرزوں کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ بھی عدل اجتماعی کے برعکس ہے، یہ معاشی نظریہ شکست وریِخت کا شکار ہوچکا ہے، اور عملی اپنا وجود کھو چکا ہے، اس لیے چنداں اس کا جائزہ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔مختصراً بس یوں کہا جاسکتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام مادہ پرستی میں جنون کی حد تک تمام انسانی اور اخلاقی قدروں کو پھلانگ چکا ہے تو شوشلزم معاشرہ پرستی اور اجتماعی ملکیت کا دلدادہ ہے۔لیکن رحم دلی،انسان دوستی اور انسانی ہمدردی کی روح ان دونوں میں ہی مفقود ہے۔دونوں کا ہدف دنیوی مفاد اور مادی ترقی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔اس کے برعکس اسلام ایک متوسط اور منصفانہ معاشی نظریہ پیش کرتا ہے،وہ سب سے پہلے دلوں میں خدا پرستی، انسان دوستی اور رحم دلی کے جذبات پیدا کرتا ہے۔

ِخلاصۂ کلام:

خلاصہ یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا قائم کردہ اقتصادی نظام انصاف، مساوات، عدل اجتماعی، توازن اور اخلاقیات پر مبنی ہے ، جبکہ موجودہ عالمی نظام میں سرمایہ داری اور سودی نظام کی وجہ سے بڑے پیمانے پر عدم مساوات اور ماحولیاتی مسائل دیکھنے کو ملتے ہیں۔اسلام کے معاشی نظام کی روح انسانیت دوستی و انسانی خدمت ہے جبکہ سرمایہ دارانہ نظام معیشت کا مقصد انسانیت کا استحصال اور سرمایہ و دولت کی حرص و ارتکاز۔آج کے معاشرہ میں بدعنوانی ، بددیانتی، جھوٹ، رشوت جیسی سماجی واخلاقی برائیوں کی بڑی وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے، جس میں انفرادی سطح سے لے کر بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیز کے ذریعے سے بے رحمانہ لوٹ کھسوٹ ، ملکوں اور اقوام کو اپنا غلام بنانے کا عمل جاری و ساری ہے۔ اور یہ اس وقت تک رہے گا جب تک سرمایہ دارانہ نظام اس دنیا پر قائم ہے۔
ضرورت اس امر کی ہےکہ اسلام کے معاشی و سیاسی نظریات پر ایک تربیت یافتہ جماعت تیار کی جائے۔ معاشرے میں سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کر کے عادلانہ معاشی نظام کا قیام ہی دراصل موجودہ مسائل کا حل ہے۔ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصولوں کو موجودہ نظام میں شامل کیا جائے، تو معاشرتی اور اقتصادی عدل کی بہتر صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔

چند سفارشات :

جب مذکورہ تفصیلات سے ثابت ہوگیا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری انسانیت کے لیے رحمت ہیں اور آپ کا قائم کردہ اقتصادی نظام موجودہ عالمی معاشی نظام سے بدرجہا بہتر ہے تو ضرورت ہے کہ ان کے اقتصادی اصول کو مکمل طور پر فالو کیا جائے اور معاشی میدانوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اصول کو نافذ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔

  • مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے اس لیے کہ جومعاشرہ کسی کی محنت کش اور جدوجہدکرنے والے کا قدر دان نہیں، اور اس کی مناسب اُجرت ادا نہیں کرتا، آجر اور مزارع پر ناقابلِ برداشت محصولات عائد کرتا ہے ، وہ قوم کا دشمن ہے، اس سسٹم کو ختم ہو جانا چاہیے۔
  • پیداوار اور آمدنی کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کا ہر فرد ایک دوسرے سے تعاون کرے۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو معاشرتی خرابیاں پیدا ہوں گی۔
  • زمین کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ اسی نے ہمیں تمام وسائل حیات عطاء کیے ہیں، لہٰذا تمام قدرتی وسائل کو امانت سمجھ کر استعمال کیا جائے، قدرتی وسائل کو ضائع کرنا فساد فی الارض ہے
  • ملک میں جاگیروں اور جاگیر داروں کی کثرت نہیں ہونی چاہیے۔ جاگیریں جتنی زیادہ ہوں گی، اس قدر معیشت کے نظم و نسق کا ڈھانچا کمزور ہوگا ، جس کے نتیجے میں کاشت کار پریشانی میں مبتلا ہوں گے۔
  • کسی گروہ کی، کسی معاملے میں اس طرح اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے کہ وہ معاشرے کے کمزور افراد کو مالی یا ذہنی تکلیفوں میں مبتلا کرے۔
  • عیاشی کے مراکز اور جوئے خانے اور سٹہ بازار کا خاتمہ کیا جائے ۔ اگر یہ باقی رہیں گے تو دولت کی تقسیم کا صحت مند نظام قائم نہیں ہوسکے گا۔
  • تمام انسان یکساں حیثیت کے مالک ہیں۔ کوئی شخص مالک الملک یا ملک الناس یا مالک قوم نہیں کہلا سکتا۔بلالحاظ مذہب و نسل، تما م انسانوں میں عدل و انصاف، مال و جان کا تحفظ، عزت و ناموس کی حفاظت اور شہری حقوق میں یکسانیت سب کا بنیادی حق ہے. لہٰذا ان سب کو ان کے عادلانہ حقوق فراہم کرنا چاہیے۔
  • سودی لین دین کو ختم کیا جائے اور اس کے متبادل کے طور پر شرکت ومضاربت کو فروغ دیا جائے، اس کے لیے غیر سودی بنک کاری کے نظام یا الٹرنیٹ بنکنگ سسٹم کو فروغ دیا جائے ۔
  • تعاون باہمی کے جذبہ کے تحت کفالہ اور قرض حسنہ کے سسٹم کو فروغ دیا جائے اور ہرقسم کی بددیانتی،رشوت ستانی، کرپشن بدعنوانی اور دھوکہ دہی پر بندش عائد کی جائے ۔

ان چند امور کو اگر دیانتداری کے ساتھ برتا جائے تو انشاءاللہ معاشی و اقتصادی سطح پر خوشگوار تبدیلیاں رونما ہوں گی اور آج کی سسکتی انسانیت بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نظام رحمت کے پھواروں سے مستفید ہوسکتی ہے

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: