یوم اطفال: پیغام وپیام
از: محمد قمر الزماں ندوی
استاد/ مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
جس قوم کے بچے نہیں خود دار و ہنر مند
تم اس قوم سے تاریخ کے معمار نہ مانگو
آج 14/نومبر ہے، اس دن کو یوم اطفال کے طور پر منایا جاتا ہے، جسے بال دیوس اور چلڈرینس ڈے بھی کہا جاتا ہے، یوم اطفال عالمی سطح پر بھی منایا جاتا ہے۔۔ دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف تاریخوں کو مختلف انداز سے یہ دن منایا جاتا ہے، اس دن کے منانے کا مقصد بچوں کا حوصلہ بڑھانا ہے، ان کی عزت افزائی اور ان کے حقوق کی پاسداری ہے۔۔۔۔۔ یوم اطفال منانے کا مقصد بچوں میں تعلیم ، صحت، تفریح اور ذہنی تربیت کے حوالے سے شعور و آگہی کو اجاگر کرنا ہے، تاکہ مستقبل میں یہ بچے ملک کے بہترین اور وفا دار شہری ثابت ہو سکیں۔
بچے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں، اگر انہیں مناسب تعلیم دی جائے اور ان کی صحیح تربیت کی جائے تو اس کے نتیجے میں ایک اچھا اور مسلم معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔۔
پھول سے بچوں کو دے شاداب موسم کی نوید
خشک سالی میں بہت برگ و ثمر بھی دے انہیں
یہ حقیقت ہے کہ انسان کا چھوٹا سا بچہ بھی قدرت کا عجب کرشمہ ہے، اس کی بھولی بھالی شخصیت میں کتنی کشش اور جاذبیت ہوتی ہے۔ اس کی معصوم ادائیں، اس کی شرارتیں، اس کا کھیل کود، غرض اس کی کون سی ادا ہے جو دل کو لبھاتی اور کیف و سرور سے نہ بھر دیتی ہو۔۔ پھر ایک اور پہلو سے دیکھئے ہمیں نہیں معلوم کہ قدرت نے کس بچہ میں کتنی اور کس قسم کی صلاحتیں رکھ دی ہیں، اور آگے چل کر کیا خدمات یا کارنامے انجام دینے والا ہے۔۔ ہوسکتا ہے کہ آج ان معصوموں میں کوئی کسان اور تاجر ہو، کوئی انجنیئر اور صنعت کار ہو، کوئی صحافی اور منصف ہو، طبیب و حکیم ہو، کوئی مدرس اور مقنن ہو، کوئی سائنس داں اور فلسفی ہو اور کوئی ماہر سیاست اور مدبر و منتظم ہو، ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ خاندان، قبیلہ، قوم، ملک اور نوع انسانی کو ان میں سے کس کے ذریعہ کتنا بڑا فائدہ پہنچے گا۔ اتنی بڑی صلاحتیں جس بچہ کے اندر چھپی ہوئی ہیں وہ اپنی پیدائش کے وقت سب سے زیادہ کمزور اور بے بس ہوتا ہے۔۔ وہ اپنی نشو و نما اور پرورش کے لیے جتنی توجہ، شفقت اور محنت کا طالب ہے، کسی بھی جاندار کا بچہ اتنی توجہ اور محنت نہیں چاہتا۔۔ ذرا سی بے احتیاطی سے اس کی زندگی ہی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔۔ اس کی ذہنی فکری اور اخلاقی تربیت تو اس سے بھی زیادہ پیچیدہ اور مشکل کام ہے۔۔ اس معاملہ میں غلطی یا کوتاہی اسے بالکل غلط رخ پر لے جاسکتی ہے اور اس کا وجود پورے سماج کے لیے عذاب بن سکتا ہے۔۔ لیکن اگر صحیح نہج پر اس کی تربیت ہوسکے تو وہ سماج کو امن و چین اور سکون سے بھر سکتا ہے۔۔۔ (مستفاد از کتاب بچوں کی تربیت کیسے کریں؟ مصنفہ راقم الحروف)
تربیت مستقل ایک فن ہے، اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے ذریعہ تیار کردہ سانچے میں کسی کا ذہن و دماغ ڈھل جائے اور خاص طور پر اس کی اپنی اولاد کا اور خود اس کے زیر پرورش بچوں کا، تو یقینی طور پر اس کو یہ کرنا ہوگا کہ وہ ان کے ایام طفولیت کو زیادہ اہمیت دے۔۔ بچوں کے جسم و جان اور ان کی طبیعت و مزاج کو گندھی ہوئی مٹی سے تشبیہ دی جاتی ہے کہ کمہار اچھی طرح گندھی ہوئی مٹی کو جس طرح کے ظروف کی شکل دینا چاہتا ہے، آسانی سے مطلوبہ شکل و صورت دے دیتا ہے۔ بچوں کی اچھی یا بری اٹھان اس بات پر منحصر ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت صحیح طرح سے ہوئی ہے یا غلط انداز سے۔
یقیناً تربیت ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعہ انسان کو جیسا چاہے ویسا بنایا جا سکتا ہے۔ یہ ایک مستقل فن ہے، اس کو سیکھنے اور جاننے کی ضرورت ہے۔
صرف رسمی طور پر ایک دن یوم اطفال منا کر اس عظیم ذمہ داری اور فرض کو کبھی پورا نہیں کیا جاسکتا، اس کے لیے ہر دن کے چوبیس گھنٹے صرف کرنا پڑے گا۔ یوم اطفال کا پیغام یہ ہے کہ ہم عہد کریں کہ ہم اپنے بچوں کی ذھنی اور فکری تربیت کریں گے ان کے لیے مناسب تعلیم کا نظم کریں گے اور ساتھ ہی ساتھ جسمانی اور روحانی بالیدگی کی بھی فکر کریں گے۔۔
اس کے لیے رول ماڈل ہمیں اسلام کے نظام تعلیم و تربیت کو بنانا ہوگا، جس کی نظیر اور مثال دنیا کے کسی اور مذہب میں نہیں پائی جاتی ہے۔