بریلوی جلسوں کا گرتا معیار:
اسباب اور حل
از: محمد شہباز عالم مصباحی
__________________
بریلوی جلسے، جو کبھی خالصتاً دین کی ترویج، روح کی بیداری، ایمان کی تازگی، درست عقائد کی تبلیغ اور عشقِ رسول ﷺ کے فروغ کا اہم ذریعہ ہوا کرتے تھے، آج اپنے اصل مقصد سے بھٹکے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان جلسوں کا معیار بتدریج گراوٹ کی طرف جا رہا ہے، اور اس کی بنیادی وجہ ان جلسوں کے اغراض و مقاصد میں تبدیلی ہے۔ اب ان جلسوں میں مقررین اور نعت خوانوں کا زیادہ تر مقصد دین کی خدمت کے بجائے ذاتی شہرت اور مالی منفعت حاصل کرنا رہ گیا ہے۔ اس مضمون میں ہم ان جلسوں کے گرتے معیار کے اسباب اور اس کا حل زیر بحث لائیں گے۔
اسباب
-
1. شہرت اور واہ واہی کی طلب
آج کے مقررین اور نعت خوان اپنی تقریروں اور نعت خوانیوں سے لوگوں میں دین کی تبلیغ اور روحانی بیداری کے بجائے اپنی شہرت کی طلب میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کے پیشِ نظر دین کی تبلیغ نہیں، بلکہ اپنی واہ واہی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان کے پیچھے دیوانہ وار بھاگیں، ان کی تعریف کریں اور ان کو "سیلیبریٹی” کا درجہ دیں۔ اس کی وجہ سے جلسے ایک طرح کے تماشے میں تبدیل ہو رہے ہیں، جس میں دین کی اصل روح کہیں کھو گئی ہے۔
-
2. مالی مفاد اور لفافہ خوری
مقررین اور نعت خوانوں کی ایک بڑی تعداد کے نزدیک دین کی خدمت کا اصل مقصد "لفافہ” یا مالی منفعت حاصل کرنا بن گیا ہے۔ نعت خوان، جو نعت کے اصل پیغام کو عام کرنے کے بجائے اپنی گلوکاری سے لوگوں کو متاثر کرنا چاہتے ہیں، اور مقررین، جو تبلیغ کے بجائے اپنی گفتگو کو محض دولت کمانے کا ذریعہ بناتے ہیں، دین کی اصل تعلیمات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ لفافہ خوری کے اس بڑھتے رجحان نے ان جلسوں کا تقدس اور مقصدیت ختم کر دی ہے۔
-
3. حاسدانہ ماحول اور رقابت
جلسے میں مشہور مقررین اور نعت خوانوں کے درمیان حسد اور رقابت کا بازار بھی گرم ہوتا جا رہا ہے۔ پیشہ ور نعت خوان اور مقررین ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں دین کی ترویج کے بجائے شہرت کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ اس رویے نے جلسوں کی فضا کو خراب کر دیا ہے، اور اس کی وجہ سے عوام ان مقررین کے اصل پیغام کو سمجھنے کے بجائے ان کی رقابتوں کا تماشہ دیکھتی ہے۔
-
4. غیر معیاری مقررین اور نعت خوانوں کا عروج:
پیشہ ور مقررین اور نعت خوان جیسے قاری نثار کلکتوی، شبیر برکاتی، کفیل عنبر اور دیگر جلسہ باز، جن کا مقصد دین کی تبلیغ کے بجائے لفافہ کا حصول ہوتا ہے، ان جلسوں میں چھائے ہوئے ہیں۔ یہ سب ایک ہی سکے کے مختلف رخ ہیں اور جلسوں کو محض ایک کاروبار کے طور پر اپنائے ہوئے ہیں۔
حل
-
1. پیشہ ور مقررین اور نعت خوانوں کا بائیکاٹ
ان مقررین اور نعت خوانوں کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے، جو دین کی اصل روح کو فراموش کر کے مالی مفادات اور شہرت کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ اس سے جلسوں میں ایک مثبت تبدیلی آسکتی ہے۔ جو مقررین اور نعت خوان خالصتاً دین کی خدمت کے جذبے سے عاری ہوں، ان کو عوامی اجتماعات میں مدعو کرنے کی بجائے ان کا مکمل بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔
-
2. دعوتی اور تبلیغی اجتماعات
روایتی جلسوں کو ختم کر کے ان کی جگہ دعوتی اور تبلیغی جلسے منعقد کیے جائیں، جن میں لوگوں کو دین کی اصل تعلیمات سے روشناس کرایا جائے۔ ان جلسوں میں ایسے باعمل علما اور اہلِ تقویٰ حضرات کو مدعو کیا جائے جو واقعی دین کی تبلیغ اپنا مقصد رکھتے ہوں، اور جو عوام کو دین کی بنیادی اور ضروری تعلیمات سے آشنا کریں۔
-
3. دعوت اسلامی اور سنی دعوت اسلامی کے منہج کی پیروی:
دعوت اسلامی اور سنی دعوت اسلامی کی تنظیمات نے تبلیغی اجتماعات میں مثالی خدمات انجام دی ہیں۔ ان کی تربیت اور دعوتی انداز کو اپنایا جا سکتا ہے اور کے تجربے سے استفادہ کر کے، بریلوی جلسوں کو خالصتاً دینی اور روحانی رنگ دیا جا سکتا ہے۔
-
4. باعمل علما اور پیران طریقت کی قیادت میں تبلیغی اجتماعات:
ایسے اجتماعات منعقد کیے جائیں، جن میں باعمل اور تقویٰ شعار علما اور پیران طریقت موجود ہوں۔ یہ علما اور پیران طریقت لوگوں کو روحانیت، تقویٰ، اور دین کی سچی محبت کی طرف راغب کریں اور انہیں عملی زندگی میں دین کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دیں۔ اور پھر ان کے زیرِ قیادت عوامی قافلے تشکیل دیے جائیں، جو مختلف علاقوں میں جا کر لوگوں کو دین سکھائیں اور خود بھی دین سیکھیں۔
اختتامیہ:
بریلوی جلسوں کا معیار اسی وقت بہتر ہو سکتا ہے جب ان میں خود نمائی اور دولت پرستی کے بجائے خلوص، نیت اور مقصدیت شامل ہو۔ ایسے مقررین اور نعت خوان جو خالص دین کی خدمت کے بجائے اپنی شہرت اور مالی منفعت کی فکر میں مبتلا ہوں، ان کا بائیکاٹ اور خالص دینی تعلیمات پر مشتمل تبلیغی جلسوں کا انعقاد، وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس کے ذریعے ان جلسوں کو اصل مقصد اور دین کی ترویج کے قریب لایا جا سکتا ہے، اور عوام کو دین کی حقیقی روح سے آشنا کیا جا سکتا ہے۔