Site icon

اسلام میں امانت داری کا مقام اور مرتبہ

اسلام میں امانت داری کا مقام اور مرتبہ

از: ظفر امام قاسمی

دارالعلوم بہادرگنج، کشن گنج، بہار

__________________

مذہبِ اسلام نے قدم قدم پر اپنے پیروکاروں کی ہر اُن شعبہائے حیات میں رہنمائی کی ہے جن میں ان کی دینی و دنیوی فلاح و بہبودی مضمر ہوتی ہے،دین کا کوئی بھی شعبہ اسلام نے ان کے لئے تشنہ نہیں چھوڑا، حتی کہ بول و براز جیسی گندی اور ناپاک چیزوں کو انجام دینے کے مذہبی طریقے سے بھی ان کو آگاہ کیا،دین کے انہی شعبوں میں سے ایک اہم شعبہ ”امانت داری“ کا بھی ہے۔
اسلام میں امانت داری کا مرتبہ اور مقام نہایت بلند ہے،شریعت میں اس کی ادائیگی کے متعلق سخت تاکید وارد ہوئی ہے،اور اس کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنانے والوں کے بارے میں اسلام نے بہت سی فضیلتیں ارشاد فرمائی ہیں۔

قرآن و حدیث کے اوراق اس کے تذکرے اور بیان سے بھرے پڑے ہیں،چنانچہ قرآن مقدس کے بہت سے مقامات میں پاسِ امانت کو ایمان والوں کی فلاح اور کامیابی سے تعبیر کیا گیا ہے۔
ارشادِ ربانی ہے: وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمَانَاتِھِمْ وَ عَھْدِھِمْ رَاعُوْنَ“(سورة المومنون،١٨:یعنی وہ مؤمنین بھی فوز و فلاح کو پہنچ گئے جنہوں نے اپنی امانت اور اپنے عہدوں کا خیال کیا)
دوسری جگہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: فَلْیُؤَدِّ الَّذِیْ ائْتُمِنَ وَلْیَتَّقِ اللہَ رَبَّہٗ“ ( سورة البقرة،٢٨٣: یعنی چاہیے کہ امانت ادا کرے وہ شخص جس کے پاس امانت رکھی جائے اور اُسے اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے)
اِس آیت کے اندر خدائے حکیم نے بڑی حکمت اور لطافت کے ساتھ ادائیگئ امانت کو ”تقوی“کے ساتھ جوڑ دیا ہے،مقصد اِس کا یہ ہے کہ امانت کا پاس وہی شخص رکھ سکتا ہے،جس کا دل خوفِ خدا سے لبریز ہو،خشیتِ ایزدی سے جس کا قلب مرتعش ہو،اور جس کے دل میں خوفِ خدا اور خشیت الہی نہ ہو اور نہ ہی اس کا قلب تقوٰی سے معمور ہو تو پھر وہ انسان کبھی بھی امانت کے بارِ گراں سے سبکدوش نہیں ہوسکتا۔
ایک حدیث کے اندر اللہ کے محبوب پیغمبر جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے امانت میں خیانت کرنے کو نفاق کی علامت اور نشانی بتلایا ہے،ارشادِ نبوی ہے: ثَلَاثٌ مِّنْ عَلَامَاتِ النِّفَاقِ اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَ اِذَا عَاھَدَ غَدَرَ وَ اِذَا ائْتُمِنَ خَانَ “(البخاری)

یعنی تین چیزیں نفاق کی علامتیں ہیں:

  1. جب بولے تو جھوٹ بولے
  2. جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے
  3. اور جب کسی کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔

اِس حدیث کے اندر شارع علیہ السلام نے نفاق کی عملی نشانیوں کو بیان کیا ہے کہ عموماً جن لوگوں کے دلوں میں اسلام کے تئیں کجی ہوتی ہے،وہ بظاہر نغمۂ توحید کے راگ تو الاپتے ہیں مگر بباطن انہیں اِس پاکیزہ کلمہ سے عناد اور دشمنی ہوتی ہے یعنی وہ طبع زاد منافق ہوتے ہیں ایسے لوگوں میں اس طرح کی علامتیں پائی جاتی ہیں، اب اگر کسی مؤمنِ صادق کے اندر بھی یہی علامتیں پائی جائیں یا اُن میں سے کوئی ایک علامت اس کے اندر موجود تو اس کو منافقِ طبعی تو نہ کہا جائےگا کہ جس کا ٹھکانہ اسفلِ نار ہوگا تاہم اسے نفاق والی علامتوں یا کسی ایک علامت کو اپنانے والا ضرور کہا جائےگا۔
ایک روایت حضرتِ انسؓ سے اِس طرح مروی ہے،آپؓ فرماتے ہیں کہ:جب بھی اللہ کے نبیﷺ ہمارے سامنے وعظ کہنے کھڑے ہوتے تو یہ ضرور ارشاد فرماتے :لَا اِیْمَانَ لِمَنْ لَّا اَمَانَةَ لَہٗ وَلَا دِیْنَ لِمَنْ لَّا عَہْدَ لَہٗ “(مشکوة:) یعنی اس آدمی کا ایمان کامل نہیں جس کو امانت کا پاس نہ ہو اور اس آدمی کا دین مکمل نہیں جس کو عہد کا خیال نہ ہو)
ایک روایت کے اندر رسولِ اکرم ﷺ نے پیشین گوئی فرمائی ہے کہ: زمانہ قیامت سے جیسے جیسے قریب ہوتا جائےگا ویسے ویسے انسان کا ایمانی ضعف بڑھتا چلا جائےگا،نتیجہ یہ ہوگا کہ اِس سرائے فانی سے امانت داری بھی عنقاء ہوجائےگی،اورحال یہ ہوگا کہ مسلمانوں کی بڑی بڑی بستیاں آباد ہوں گی مگر امانت دار آدمی اُن بستیوں میں بدقتِ تمام کوئی دستیاب ہوگا جبکہ باعتبارِ حقیقت وہ بھی امین نہ ہوگا، لوگ امانت داری میں بطور تمثیل اس کو پیش کیا کریں گے،اس کی عقل مندی، خوش مزاجی،بلند اخلاقی اور بہادری وردِ زبان ہوگی مگر حقیقت کے اعتبار سے وہ انسان بھی اِن مذکورہ صفات سے عاری اور خالی ہوگا“۔ (صحیح بخاری‘ کتاب الفتن)
آج ہمارے شہسوارانِ خطابت جب مسندِ خطابت پر جلوہ سامان ہو کر بولنا شروع کرتے ہیں تو الفاظ کے ساگر بہادیتے ہیں،برساتی بادلوں کی طرح ان کی زبانیں اتنی گھن گرج کرتی ہیں کہ تقریر و بیان کی اصل روح الفاظ کی تہوں میں دب کر رہ جاتی ہیں،بالفاظ دیگر تقاریر و خطابت محض زبانی چٹخارے بن کر رہ گئی ہیں،جبکہ اللہ کے رسول ﷺ نے صرف کہنے پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ کرکے بھی دکھلایا،اپنے ہوں یا بیگانے، دوست ہوں یا دشمن،جان پہچان ہوں یا انجان اور قریبی ہوں یا دوری آپﷺ ہر ایک کی نگاہ میں مساوی درجہ کے امین تھے،آپ نے ہمیشہ امانت کے بوجھ کو باحسنِ وجوہ امانت رکھنے والوں تک پہنچایا، خدائے واہب نے آپ ﷺ کے اندر امانت داری کی یہ اعلیٰ صفت بچپنے سے ہی ودیعت کردی تھی،نبوت سے قبل ہی قبیلہ کا قبیلہ آپ کی امانت داری کا اسیر ہوچکا تھا،آپ جب گلی کوچوں سے گزرتے تو ہر سمت سے آتی ”امین امین“ کی صدائے روح پرور سے آپ کے کان گونج اٹھتے۔

ہمارے معاشرے میں عام طور سے جز وقتی طور پر کسی کی تحویل میں مال و اسباب کے رکھے جانے کو ہی امانت سمجھا جاتا ہے،اس لئے لوگ اس سے عہدہ بر آ ہوجانے کو ہی امانت داری سے تعبیر کرتے ہیں کہ: فلاں شخص بڑا امین ہے“،اِس سے بھلا کس کو مجالِ انکار ہو سکتا ہے کہ یہ امانت کی اعلیٰ قسم ہے،اور ایسا کرنےوالا یقینا امین ہے، مگر شریعت میں صرف یہی ایک امانت نہیں ہے،بلکہ اس کے علاوہ بھی امانت کی بہت ساری قسمیں ہیں،مثلًا:
عہدہ اور منصب کی تفویض:یہ امانت کی ایک اعلی ترین قسم ہے، عہدہ تنہا ایک آدمی کی نہیں بلکہ پوری ملت اور قوم کی امانت ہوا کرتا ہے، اِس لئے بر سرِ اقتدار حاکم کے لئے ضروری ہے کہ جب وہ کسی کو کوئی عہدہ یا منصب سپرد کرے تو اولًا دیکھ لے کہ آیا یہ شخص عہدہ کے قابل ہے یا نہیں،عہدہ کے بارِ امانت کو ادا کرنے کی اس کے اندر کتنی صلاحیت ہے؟محض قرابت،تعلق اور دوستی کا بھرم رکھنے کے لئے نا اہل لوگوں کو عہدہ سپرد کرنا یہ بہت بڑی خیانت ہے۔

اگر غور کیا جائے تو آج کل اس خیانت کی صف میں بہت سے بڑے اور نامور قسم کے لوگ بھی ہاتھ باندھے نظر آئیں گے،ملت کے سرمایے اور قوم کی امانت پر باپ کے بعد بیٹے کی گدی نشینی کو پشتینی حق سمجھا جاتا ہے اگرچہ بیٹا نا اہل اور نابکار ہی کیوں نہ ہو،اور پھر زیادہ دیر نہیں لگتی کہ اُس کا نتیجہ نصف النہار کی طرح ظاہر ہو جاتا ہے،باپ کی برسہا برس کی عرق ریز محنت اور جاں گسل ریاضت بیٹے کی نا اہلی کی نذر ہوجاتی ہے،حدیث کے اندر اللہ کے محبوب پیغمبر ﷺ نے ایسا کرنے کو انتظارِ قیامت سے تعبیر کیا ہے،یعنی جب ایسا ہونے لگے تو سمجھ جاؤ کہ قیامت سر پر سوار ہے،ارشادِ نبوی ﷺ ہے: اِذا وُسِّدَ الْاَمْرُ اِلیٰ غَیْرِ اَہْلِہٖ فَانْتَظِرِالسَّاعَةَ (بخاری:) یعنی جب نا اہل کو منصب پر فائز کیا جائے تو پھر قیامت کا انتظار کرو۔

مزدوروں کا کام چوری کرنا: مزدوروں کی اجرت پر ببانگِ دُہل اُس حدیثِ پاک کو پیش کیا جاتا ہے جس میں مزدوروں کو ان کے پسینے کی نمی سوکھنے سے پہلے ہی اجرت دینے کی ہدایت آئی ہے،اور اس میں تاخیر یا کمی بیشی کو ظلم سے تعبیر کیا جاتا ہے،مگر اس کے دوسرے رُخ کو بہت کم بیان کیا جاتا ہے،یعنی مزدوروں کا کام میں کام چوری کرنے کو یکسر فراموش کردیا جاتا ہے،غور کرنے کا مقام ہے کہ حدیث میں پسینے کے خشک ہونے سے پہلے مزدور کو اس کی اجرت دینے کی ہدایت آئی ہے،اس سے واضح ہوتا ہے کہ مزدور کو پسینہ بھی آیا ہو،اگر مزدور اپنی ذمہ داری میں تساہل برتے،وقتِ مقررہ سے لیٹ پہنچے یا اس سے پہلے ہی لوٹ جائے،اسی طرح درمیان میں کام کاج چھوڑ کر گپ لگائے،غیر ضروری مشغولیات میں اپنا وقت برباد کرے تو بھلا بتائیے کہ یہ مزدور حدیثِ رسولﷺ کے زمرے میں کیونکر آئےگا؟۔

خلاصہ یہ ہے کہ مزدوروں کا اپنی مزدوری میں تساہل برتنا،اپنی ذمہ داری میں غفلت و کوتاہی کو راہ دینا سراسر خیانت اور امانت کے خلاف ہے،اور اس زمرے میں ہر وہ ماتحت داخل ہے جو اجرتِ معینہ پر کسی کی ماتحتی میں کام کرتا ہے۔

خاص مجلسوں کی باتوں کو عام کرنا: اگر چند لوگ کسی خاص مجلس میں باہم گفت و شنید ہوں اور وہ باتیں رازدارانہ نوعیت کی ہوں تو مجلس میں شریک کسی بھی انسان کے لئے ان باتوں کو طشت از بام کرنا درست نہیں،یہ سراسر امانت کے خلاف ہے،البتہ تین طرح کی باتیں ایسی ہیں جو گرچہ خاص مجلس کی ہوں مگر ان کو دفینۂ راز بنانا کسی بھی طرح جائز نہیں،بلکہ ان کو متعلقہ لوگوں تک پہنچانا ضروری ہے،تاکہ وہ ہوشیار ہوجائیں اور وقت رہتے ہوئے اپنی حصار بندی کرلیں۔

چنانچہ اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا : اَلْمَجَالِسُ بِالْاَمَانَةِ اِلَّا ثَلٰثَةٌ: سَفْکُ دَمٍ حَرَامٍ اَوْ فَرْجٍ حَرَامٍ اَوِ اقْتِطَاعِ مَالٍ بِغَیْرِ حَقٍّ (ابوداؤد ٤٨٦٩) یعنی مجلسیں امانت ہیں،مگر تین موقعوں کی مجلسیں امانت نہیں، کسی کے ناحق قتل کی،کسی کی عصمت دری کی اور بغیر کسی کے حق کے کسی کے مال کے لوٹنے کی۔

ان تین چیزوں کے علاوہ نجی مجلسوں کے راز کو افشاء کرنا مجلس میں شریک کسی بھی انسان کے لئے درست نہیں،خاص کر اُس وقت جب کہنے والا بندہ اپنی اِس بات کو صیغۂ راز میں رکھنا چاہتا ہو تو اس وقت اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے،چنانچہ ایک حدیث کے اندر اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: إِذَا حَدَّثَ الرَّجُلُ بِالْحَدِيثِ ثُمَّ الْتَفَتَ فَهِيَ أَمَانَةٌ (ابوداؤد: یعنی جب آمی بات کرے پھر آگے پیچھے نظر دوڑائے تو وہ امانت ہے) آگے پیچھے نظر کرنے سے مراد یہ ہے کہ سامع کے علاوہ سے وہ اپنی بات کو چھپانا چاہتا ہو۔

آج ہمارے معاشرے میں خال خال لوگ ہی اِس وبائے ایمان سوز سےمحفوظ ملیں گے،ایک آدمی جس کا ہم پر کامل اعتماد اور یقین ہوتا ہے اور وہ اپنے دل کی کوئی بات بڑے رازدارانہ طریقے سے شئیر کرتا ہے اور ساتھ تاکید بھی کرتا ہے کہ خدا کے لئے اِس بات کو اپنے سینے میں دفن کرلینا،مگر ہم بدہضمی کے شکار ہوجاتے ہیں،اور شام سے صبح ہونے کی دیر ہوتی ہے کہ ہم اس کے سارے یقین و اعتماد کا جنازہ پڑھ کر فارغ ہوجاتے ہیں،ہم مزیدکسی اور کو اس راز میں شریک کرلیتے ہیں وہ کسی اور کو،شدہ شدہ یہ راز راز نہیں رہتا، اُس وقت اس بےچارے کو جو خفت اور ندامت ہوتی ہے وہ بیان سے باہر ہے۔
اگر ہم غور کریں تو ہمیں سمجھ میں آئےگا کہ ہماری آپسی چپقلش اور رنجش اِسی بدعہدی کا شاخسانہ ہوا کرتی ہے،کیونکہ اس طرح ایک دوسرے سے بھروسہ اٹھ جاتا ہے جو جو بغض،عداوت اور دشمنی پر منتج ہوتا ہے۔
مشورہ دینے والا امانت دار ہے:اسی امانت کی ایک قسم کسی کو مشورہ دینا بھی ہے،ارشادِ نبوی ہے: ا َلمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ (یعنی جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امانت دار ہے)
کسی آدمی کا آپ سے مشورہ لینا اُس کی اپنائیت اور اخلاص کا غماز ہے،یہ اِس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس کے دل میں آپ کی اتھاہ قدر ہے،اب آپ کے اوپر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ بھی خندہ جبینی کے ساتھ اس کی اپنائیت کا استقبال کریں اور اس کے اس عظیم اخلاص کی قدر کرتے ہوئے اسے وہ مشورہ دیں جو اُس کے حق میں سود مند اور نفع بخش ہو،ایسا نہ ہو کہ آپ اس کی بھلائیوں اور سود مندیوں سے چِڑ جائیں،آپ کے دل میں حسد کے شعلے لپکا لینے لگے اور آپ اس کو زک پہنچانے کے لئے اسے غلط مشورہ دے بیٹھیں،اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو پھر از روئے حدیث آپ خائن ہیں۔

خیانت کی ایک بدترین قسم جس میں خاص طور پر ہمارے نوجوان طبقے اور اکثر نوبیاہتے جوڑے ملوث ہیں،اپنی بیوی کی تنہائی کی باتوں کو عام کرنا ہے،ایک نوجوان جب شادی کی دہلیز میں قدم رکھتا ہے تو وہ اپنے دوستوں سے پہلے ہی پہلی رات کی تفصیل بتانے کا وعدہ کرلیتا ہے اور پھر جب وہ رات گزرتی ہے تو وہ دوستوں کے استفسار پر فخریہ طور پر وہ ساری چیزیں بیان کردیتا ہے جنہیں وہ اپنی بیوی کے پاس انجام دیتا ہے،اللہ کے نبی ﷺ نے ایسے بےہودہ عمل کو کہ جس میں شوہر رات کی اندھیری کی باہمی پوشیدہ باتوں کو دن کے اجالے میں اپنے دوستوں کی مجلس کی زینت بنایا جائے،بدترین خیانت سے تعبیر کیا ہے،ارشادِ نبوی ہے:اِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْأَمَانَةِ عِنْدَ اللهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، اَلرَّجُلُ يُفْضِيْ إِلىَ امْرَأَتِهٖ، وَتُفْضِيْ إِلَيْهِ ثُمَّ يَنْشُرُسِرَّهَا (مسلم) یعنی قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ قابل مؤاخذہ امانت یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی کے پاس جائے اور بیوی اس سے لطف اندوز ہو پھر وہ آدمی اپنی بیوی کے راز کو ظاہر کردے۔

ان کے علاوہ امانت کی اور بھی بہت ساری قسمیں نکل سکتی ہیں جن سے امتِ مسلمہ یکسر غافل ہے،اور جانے انجانے میں اس سے وہ باتیں سرزد ہوجاتی ہیں جو درحقیقت موجبِ عقابِ الہی ہیں۔

ایک امانت دار آدمی نہ صرف یہ کہ آخرت میں سرخ رو ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات خدائے ذوالمنن اسے دنیا ہی میں اس کا صلہ عطا کردیتا ہے،چنانچہ علامہ رجب بن حنبلی نے اپنی تالیف ”کتاب الذیل“ میں قاضی ابوبکر بن محمد عبدالباقی الانصاریؒ کے حوالے سے ایک نہایت دلچسپ واقعہ نقل کیا ہے،جس کا خلاصہ یہ ہے:

قاضی ابوبکرؒ فرماتے ہیں کہ میں عمرہ کی غرض سے مکہ مکرمہ میں مقیم تھا،اِس اثناء میں میری ساری جمع پونجی ختم ہوگئی،اور میرے سر پر فاقے تک کی نوبت آگئی،اس کے باوجود میں نہایت صبر و شکر کے ساتھ اپنے دن بسر کر رہا تھا کہ ایک دن حرم کے اندر میری نظر ایک خوبصورت بیگ پر پڑی،میں نے بیگ اٹھاکر کھولا تو اُس میں یاقوت و مرجان سے مرصع ایک ایسا بیش قیمت اور دیدہ زیب ہار نظر آیا کہ میری آنکھوں نے ایسا قیمتی ہار نہ اُس سے قبل کبھی دیکھا تھا اور نہ اُس کے بعد کبھی دیکھا۔

ہار پر نگاہ پڑتے ہی ایک لمحے کو میری بانچھیں کھل اٹھیں،بھوک کے مارے بےدم ہوئے چہرے کی شکنیں تازہ دم ہوگئیں،دل نے کہا چلو ” اِس کسمپرسی اور فاقہ کشی کے عالم میں قدرت نے ایک انمول تحفہ مجھے عطا کیا ہے“ ابھی میری اس خوشی کی چاندنی کو تب و تاب دکھائے چند ہی لمحے ہوئے ہوئے تھے کہ ایک خیال نے میرے قدم لرزا کر رکھ دئے،میری خوشیوں کی دیوی روٹھ گئی اور میرے خیالات کے تانے بانے تارِ عنکبوت کی مانند ٹوٹ گئے،اور وہ خیال یہ تھا کہ”بھئ یہ تو میرے پاس کسی اور کی امانت ہے،پھر دوسرے کے سامان پر یہ خوشی کیسی؟اس خیال کے آتے ہی میں نے ہار سے لدا وہ بیگ اِس نیت کے ساتھ اپنی قیام گاہ تک اٹھا لایا کہ حتی المقدور اس کے مالک تک پہنچانے کی کوشش کی جائےگی۔

اس کے بعد صحنِ حرم میں میری نگاہیں اس بیگ کے مالک کو ڈھونڈنے میں سرگرداں رہنے لگیں،چند دنوں کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک ضعیف العمر پریشان حال بوڑھا یہ اعلان لگاتا پھر رہا ہے کہ: جو کوئی بھی میرا بیگ مجھے واپس کرےگا میں اسے بطورِ انعام سو دینار دوں گا“ اِس آواز کے سنتے ہی مجھے ایسا لگا جیسے میری تجسسانہ کوشش کو کنارہ مل گیا ہو،چنانچہ میں بڑی تیزی کے ساتھ بوڑھے کے پاس پہنچا اور بغرضِ یقین میں نے اس سے اس بیگ کی چند علامتیں پوچھیں،بوڑھے نے جب مجھے ہر طرح سے باور کرادیا کہ یہ بیگ اُسی کا ہے تو میں نے بیگ نکال کر اُس کے ہاتھوں میں تھما دیا،اپنے اُس قیمتی بیگ کو جب اُس نے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا تو ایک لمحے کے لئے وہ مبہوت ہوگیا،اسے وہ منظر خواب لگنے لگا، میں نے دیکھا کہ مارے خوشی کے اس کا جھریوں بھرا چہرہ گلنار ہوگیا،اس کے بعد اس بابا جی نے مجھ سے میرا نام پوچھا اور اپنی تھیلی سے پانچ سو دینار نکال کر مجھے دینے پر بضد ہوگیا،باوجودیکہ مجھے اس وقت ان دیناروں کی سخت ضرورت تھی مگر میں نے یہ کہتے ہوئے لینے سے صاف انکار کردیا کہ:یہ تو میرا فریضہ تھا کہ آپ کی امانت کو آپ کے سپرد کردوں،میں دینار کا یہ انعام لیکر اپنی نیکیوں میں کمی نہیں کرسکتا“۔
قاضی ابوبکرؒ فرماتے ہیں کہ:اس کے بعد مجھے کسی کام سے مکہ مکرمہ ایک عرصے کے لئے رکنا پڑا،اسی درمیان میرا کچھ ہمراہیوں کے ساتھ ایک بحری سفر پیش آیا،میں اپنے ہمراہیوں کے ساتھ ایک کشتی میں سوار ہوا مگر سوئے نصیب کہ ہماری کشتی سمندری بھنور میں پھنس گئی،اور چاہ کر بھی اس بھنور سے نہ نکل سکی،ملاح نے چپو ایک طرف کو سرکا دیا اور اعلان کردیا کہ اب اِس کشتی کا بھنور سے نکلنا نا ممکن ہے،یہ سن کر موت ہماری آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگی، ہم دل دل میں اللہ سے توبہ و استغفار کرنے لگے،مگر اللہ کو ہماری کشتی کو بچانا منظور نہ تھا سو ہماری کشتی کنارے نہ لگ سکی اور کشتی دیو ہیکل موجوں کی نذر ہوگئی،کشتی میں جتنے مسافرین سوار تھے سب راہیٔ ملک بقاء ہوگئے۔

مگر خوش قسمتی سے کشتی کا ایک تختہ میرے ہاتھوں میں آگیا،میں اس تختہ کے سہارے پانی کی منجدھار سے نبرد آزما ہوتے ہوئے آگے بڑھنے لگا،نہ مجھے راستے کا پتہ تھا اور نہ منزل کا علم،پانی کی لہریں جس سمت کو جا رہی تھیں میں نے اسی سمت اس تختے کو اللہ کے بھروسے پر ڈال دیا،کئی دنوں تک ہاتھ پاؤں مارنے کے بعد سمندر کے یخ اور سرد ہلکورے نے مجھے ایک جزیرے میں پہنچا دیا۔

اُس جزیرے میں چند گھروں پر مشتمل ایک گاؤں آباد تھا،اُس کے ایک گوشے میں ایک مسجد تعمیر شدہ تھی،میں پانی کی لہروں سے نکل کر سیدھا مسجد میں پہنچ گیا،تھوڑی دیر کے بعد گاؤں کے لوگ جب نماز پڑھنے کے لئے آئے تو انہوں نے مجھ کو عالم سمجھ کر امامت کے لئے آگے بڑھا دیا،جب نماز سے فارغ ہوا تو ان لوگوں نے مجھ سے لجاجت کے ساتھ درخواست کی کہ:آپ شکل و شباہت سے عالم لگتے ہیں،ہمارے اس گاؤں میں کبھی کسی عالم کا ورود نہیں ہوا،ایسا کیجیے آپ کچھ دنوں کے لئے یہیں ٹھہر جائیے،ہمیں اور ہمارے بچوں کو قرآنِ کریم کی تعلیم دیا کیجیے“اُن کی اِس لجاجت بھری درخواست کو میں رد نہ کرسکا اور وہیں ٹھہر کر قرآن کی تعلیم و تدریس میں مشغول ہوگیا۔

چند مہینوں کے بعد ان لوگوں نے باہمی مشورے اور میری رضامندی سے اسی گاؤں کی ایک کنواری لڑکی سے میری شادی کرادی،شبِ زفاف کو جب میں حجلۂ عروسی میں پہنچا جہاں میری بیوی میرے انتظار میں کرب کی گھڑیاں گن رہی تھی،تو یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہی بیش قیمت اور ہیرے جواہرات سے مرصع ہار جسے میں نے کچھ عرصہ پہلے ایک بابا جی کو صحنِ حرم کے اندر لوٹایا تھا میری بیوی کا گلو بند بنا ہوا تھا،مجھ پر حیرت و استعجاب کی ایسی دیوانگی سوار ہوئی کہ میں سب کچھ بھول کر اسی ہار کو ٹکٹکی باندھتے دیکھتا رہا،میری بیوی میری اس حرکت سے کافی خفیف ہو رہی تھی،مگر شادی کی اُس پہلی رات کو وہ ایک اجنبی آدمی سے اس حرکت کی بابت کچھ پوچھ بھی نہیں سکتی تھی،اسی عالم میں میری حیرت کا جواب دئے بغیر سپیدۂ سحر افقِ عالم پر نمودار ہوگیا۔

جب دھوپ کی کرنیں جہاں تاب بن گئیں تب میری بیوی نے گاؤں والوں سے میری اُس بےرُخی کی شکایت کی کہ: نہ جانے تم نے مجھے کس آدمی کے پلے باندھ دیا جس کا پورا دھیان میری بجائے میرے ہار کی طرف تھا،اور پوری رات اُس نے میرے ہار سے اپنی نظر نہ ہٹائی“یہ سن کر گاؤں والوں نے مجھ سے اس سلسلے میں باز پرس کی تو میں نے کہا:ہار کی طرف دیکھتی ہوئی میری نگاہیں حریصانہ نہیں بلکہ متعجبانہ تھیں،میں یہ دیکھ کر اتنا دم بخود ہوگیا تھا کہ مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ میں جذبات اور امنگوں کی سیج پر بیٹھی ایک نئی نویلی دلہن کے انتظار کی گھڑیوں کو کنارے لگانے آیا ہوں،اور میرے متعجب ہونے کی واحد وجہ یہ تھی کہ اسی جیسا ہار میں نے کچھ عرصہ پہلے صحنِ حرم کے اندر بطور امانت ایک بابا جی کو لوٹایا تھا،اب مجھے یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اگر یہ وہی ہار ہے تو وہ سمندر کی اِس دنیا میں کیسے پہنچ گیا“ گاؤں والوں نے جب یہ سنا کہ ہار پانے والا شخص میں ہی ہوں تو ان کے چہرے مسرت سے کھل اٹھے،مارے خوشی کے انہوں نے صدائے تکبیر بلند کی اور میری بلائیں اتارنے لگے،یک بیک ان کے چہرے پر چھائی خوشی کی اس کیفیت سے مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے انہیں ہفت اقلیم کی تاجوری مل گئی ہو۔
میری استفسارانہ نظروں کے جواب میں وہ کہنے لگے:خدا کی شاہکاری دیکھئے کہ خدا نے اس لڑکی کے بابا جی کی آخری تمنا پوری کردی،کیونکہ یہ لڑکی اُسی بابا جی کی بیٹی ہے جسے آپ نے ہار واپس کیا تھا،کچھ عرصہ پہلے ہی وہ مکہ سے واپس آئے تھے،اور انہوں نے اپنے ہار کی گمشدگی، پھر اس کی باز یافتی اور آپ کی امانت داری کا قصہ بڑے والہانہ انداز میں ہمیں سنایا تھا،وہ کہا کرتے تھے کہ”اگر مجھے دوبارہ وہی آدمی مل جائے جس کا نام ابوبکر تھا تو میں اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی اسی ہونہار اور امانت دار انسان سے کرادوں“ مگر موت نے انہیں زیادہ مہلت نہیں دی اور کچھ عرصہ پہلے انہوں نے اِس سرائے فانی کو الوداع کہہ دیا،موت سے پہلے انہوں نے ہمیں یہ وصیت کی تھی کہ اگر تمہیں وہ آدمی کہیں مل جائے تو میری بیٹی کا رشتہ اسی سے کرادینا،قدرت کی کاریگری دیکھئے کہ اس نے اس بوڑھے باپ کی وصیت اور تمنا کی لاج رکھ لی اور پانی کی اس بستی میں آپ کو پہنچا دیا“۔

قاضی ابوبکرؒ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے ایک عرصہ تک وہاں قیام کیا،اس درمیان اللہ نے مجھے اس بیوی سے کئی اولاد بھی عطا کی،مگر قدرت نے یکے بعد دیگرے میری بیوی اور اولاد کو موت کی نیند سلادی اور اِس طرح وہی ہار بطور میراث میرے قبضے میں آگیا،سبحان اللہ۔
اِس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ امانت داری کا پھل اللہ تعالی کبھی کبھی انسان کو دنیا بھی میں دے دیتا ہے اور آخرت میں تو خیر ہیں ہی اس کے لئے جنت کی بہاریں اور پانی کے صفاف چشمے۔

مگر صد حیف آج ہر سو حرص و ہوس کا بازار گرم ہے،ہر سمت طمع و لالچ پیکرِ انسانی بن کر رقص کناں ہے،ابنائے آدم کے دل حبِ جاہ اور حبِ مال کی آماجگاہ بن چکے ہیں،انسانی تفکرات کی ساری توانائیاں حصولِ زر میں صرف ہو رہی ہیں،انسانی اقدار معاشرۂ انسانی سے بساط لپیٹ چکی ہیں،ایسے میں امانت و دیانت کا بھلا پاس اور خیال کس کو رہ سکتا ہے؟صحیح بات تو یہ ہے کہ آج امانت دار انگلیوں میں شمار کئے جا سکتے ہیں۔
ایسے میں ضروری ہے کہ ہم امانت و دیانت کے بجھتے ہوئے چراغ کو پھر سے فروزاں کریں اور خدائی احکام اور پیغام کو عام کریں۔

دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں امانت دار بن کر زندگی گزارنے کی توفیق بخشے آمین یا رب العالمین

Exit mobile version