Site icon

دینی جلسے: چند ضروری اصلاحات اور تجاویز

دینی جلسے: چند ضروری اصلاحات اور تجاویز

از: محمد شہباز عالم مصباحی

سیتل کوچی کالج، کوچ بہار، مغربی بنگال

______________________

دینی جلسے ہمارے معاشرے میں دینی، اخلاقی اور تعلیمی اصلاح کے اہم ذرائع ہیں۔ یہ محافل مسلمانوں کو ان کے دین، تاریخ اور معاشرتی ذمہ داریوں سے روشناس کرانے کے لیے منعقد کی جاتی ہیں۔ لیکن آج کل یہ جلسے مختلف خرابیوں کا شکار ہو چکے ہیں، جنہوں نے ان کے اصل مقصد کو نقصان پہنچایا ہے۔ ان خرابیوں میں نذرانوں کی غیر ضروری زیادتی، نعرہ بازی، تنظیمی بدانتظامی اور غیر سنجیدہ افراد کی شرکت شامل ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے اصلاحات ناگزیر ہیں تاکہ ان دینی اجتماعات کو موثر اور نتیجہ خیز بنایا جا سکے۔

نذرانوں کی اصلاح:

جلسوں میں نذرانے دینا ایک روایت ہے، لیکن اس میں اعتدال اور توازن ضروری ہے۔ بے تحاشا نذرانوں کی وجہ سے غیر مستند اور کم علم مقررین کی بھرمار ہو گئی ہے، جو علم و عمل سے عاری ہیں۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے درج ذیل تجاویز پیش کی گئی ہیں:

ان حدود پر عمل کرنے سے جلسوں کے اخراجات متوازن رہیں گے اور غیر سنجیدہ افراد کا رجحان کم ہوگا۔ جلسوں میں زیادہ نذرانے نہ دے کر مدرسوں کے مدرسین اور معلمین کی تنخواہوں میں اضافہ کر کے دینی تعلیم کے نظام کو مضبوط سے مضبوط تر کیا جائے۔

جلسوں کے انتظام و انصرام کے لیے تجاویز:

جلسوں کی موثر تنظیم اور اصلاح کے لیے درج ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں:

جلسوں میں نعرہ بازی سنجیدگی اور مقصدیت کو متاثر کرتی ہے۔ دینی جلسوں کو ہر قسم کے شور و غل اور غیر ضروری جذباتیت سے پاک کیا جائے تاکہ پیغام سنجیدگی سے عوام تک پہنچ سکے۔

جلسہ گاہ میں نماز باجماعت کا اہتمام ضروری ہے۔ وقتِ نماز اعلان کیا جائے اور وضو خانے اور بیت الخلاء کی سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ لوگوں کو نماز کے دوران کسی دشواری کا سامنا نہ ہو۔

عورتوں کے لیے علیحدہ ہال اور پردہ دار ماحول کا انتظام ہو۔ خواتین کے لباس پر خاص توجہ دی جائے اور جلسہ گاہ میں بناؤ سنگھار کی دکانوں پر پابندی لگائی جائے۔

صرف علم و عمل کے ساتھ صالحیت اور عشق رسول ﷺ سے سرشار علماء اور شعرا کو جلسے میں مدعو کیا جائے۔ مقامی معتبر علماء کو زیادہ سے زیادہ موقع دیا جائے تاکہ جلسے کے اخراجات بھی کم رہیں اور عوام کو صحیح رہنمائی مل سکے۔

جلسے کی منصوبہ بندی کرتے وقت عوام کی بنیادی ضروریات، جیسے کہ صاف پانی، وضو خانے، بیت الخلاء اور صاف ستھری نشست گاہ کا خیال رکھا جائے اور کھانے پینے کے چند ہوٹل بھی لگوائے جائیں۔

ہر علاقے کے مسائل کے مطابق جلسے کے موضوعات منتخب کیے جائیں۔ یہ موضوعات معاشرتی اصلاح، تعلیمی تحریک، سیاسی بیداری اور اخلاقی تربیت پر مشتمل ہوں۔

ہندوستانی مسلمانوں کو ان کے اسلاف و سلاطین کی تاریخ اور اس ملک کی ترقی میں ان کے کردار سے واقف کرایا جائے تاکہ وہ اپنی اہمیت کو پہچان سکیں اور اپنے سماجی مقام کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہوں۔

جلسوں میں موجودہ سیاسی حالات پر گفتگو کی جائے اور مسلمانوں کو ان کے حقوق و فرائض سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ سیاسی میدان میں فعال کردار ادا کر سکیں۔

مسلمانوں کو دینی و دنیاوی تعلیم کی اہمیت کا شعور دلایا جائے۔ عوامی مدرسوں کی طرز پر عوامی اسکول بنانے یا مدرسوں کو مدرسہ پلس اسکول کی شکل دینے پر زور دیا جائے تاکہ بچوں کو جدید تعلیم کے ساتھ دینی ماحول فراہم ہو۔

خانقاہوں کی زبوں حالی پر گفتگو کی جائے اور انہیں اصلاح و تربیت کے مراکز کے طور پر فعال کیا جائے۔

رفاہی کاموں کی اہمیت پر زور دیا جائے اور مسلمانوں کو سماجی خدمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ترغیب دی جائے۔

جلسے رات ایک بجے تک ختم کیے جائیں تاکہ کسی کی نماز فجر قضا نہ ہو اور رات کی نیند متاثر نہ ہو۔

نتیجہ:

دینی جلسے قوم کی اصلاح کا ایک اہم ذریعہ ہیں، لیکن ان کا حقیقی مقصد اسی وقت پورا ہوگا جب ان میں اعتدال، نظم و ضبط اور دینی اقدار کو مدنظر رکھا جائے۔ نذرانوں کی غیر ضروری زیادتی اور جلسوں کی بدانتظامی نے ان اجتماعات کو مادیت پرستی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ علماء، منتظمین اور عوام سب مل کر ان اصلاحات کو عملی جامہ پہنائیں تاکہ دینی جلسے ایک بار پھر قوم کی اصلاح اور تربیت کا موثر ذریعہ بن سکیں۔

Exit mobile version