سماجی مساوات کی ہندو تحریک
از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری
___________________
اس وقت وطنِ عزیز کا ایک معروف شرک آئی کون جارحانہ دھارمک یاترا پر ہے، اس یاترا کے دو مرکزی ہدف نمایاں کیے گئے ہیں، مبینہ ہندو راشٹر کی مانگ کے ساتھ ذات پات کا خاتمہ دوسرا علانیہ مدعا ہے، معلوم ہے کہ ہندو سماج کی تشکیل اونچ نیچ پر قائم اور منحصر ہے، اس کے بغیر ہندو معاشرے کے روایتی خدوخال متصور نہیں، تو یہ تحریک بھی مساوات کے پس پردہ مسلم دشمنی کی دعوت ہے؛ لیکن بہ ہر حال وہ اسلام دشمنی میں اپنے اساسی تصور، مذہبی کتابوں کی واضح ہدایت، صدیوں پرانی روایت، علاقائی شناخت، قومی وراثت اور دھارمک سنسکرتی یعنی اونچ نیچ پر نظر ثانی کے لیے متحد ہو رہے ہیں۔
دوسری طرف اسلام کے فرزندان کو اصرار ہے کہ اونچ نیچ ایک اسلامی تصور ہے اور اس کا عمل میں رہنا اسلام کے مطلوبہ معاشرے کے لیے ناگزیر ہے، انسانی مساوات ان معاشرتی مصلحتوں کے منافی ہے جو اسلام نے متعارف کرائی ہیں، ان کے مطابق اگر آپ اسلام کا آئیڈیل سماج دیکھنا چاہتے ہیں تو برادریوں کے تفاوت کو برقرار رکھیں۔
خیر! ایک سید صاحب میرے قدیم شناسا ہیں، بی جے پی عہد سے قبل وہ دہلی میں بزم آرا تھے، بڑا جلوہ تھا، نیو فرینڈس کالونی میں ان کا آفس بھی اس وقت کی میڈم یعنی سونیا گاندھی کا ایک ورچوئل آفس بنا ہوا تھا، وزارت درجے کی فائلیں بھی وہاں زیر گردش ہوتی تھیں، پھر نئی ہوا کا رخ دیکھ کر دبئی منتقل ہو گئے، وہ میری دبئی زیارت لسٹ میں خاص تھے، آدمی نابغہ روزگار ہے، ایسی لیاقتیں کم دیکھنے میں آئی ہیں، اردو داں ہے، مذہبیات کا بھی بے ہنگم مطالعہ کر لیا ہے، مجھے دیکھتے ہی مذہبی بحثیں چھیڑ دیتا ہے۔
ملاقات اس کے گھر پر ہوئی، کسی بادشاہ کا محل معلوم ہوتا تھا، اس نے ہال کی دیو ہیکل اسکرین پر صوفی کلام سنوایا، یہ ہے میکدہ والی غزل کسی پاکستانی گلوکار نے بہت پر اثر انداز میں پیش کی ہے، ترنم میں کلاکاری کے ساتھ کلام میں بھی فن کاری دکھائی ہے، اختتام پر میں نے عرض کیا کہ اس البم کا ابتدائی حصہ جگر مراد آبادی کی مشہور غزل پر مبنی ہے؛ لیکن بعد کا اضافہ کسی شیعہ شاعر کا ہے، میں نے یہ بھی کہا کہ زبان وسخن میں شیعہ بہت آگے ہیں۔
سید صاحب نے میری یہ شیعہ والی بات پکڑ لی اور کہنے لگے کہ شیعہ اسمارٹ ہیں اور ہم سنی بے وقوف ہیں، ان کی سب سے عمدہ بات یہ ہے کہ انھوں نے غیر سید کو قبول ہی نہیں کیا، وہ سب خالص النسب سید ہیں، ان کی خاندانی خوبیاں محفوظ ہیں، اس کے بر خلاف ہم نے ہر برادری کا اسلام قبول کر لیا، ہمارا پورا نظام خراب ہو گیا، ہر کس وناکس مسلمان بن گیا، غیر سید کو قبول ہی نہیں کرنا چاہیے تھا۔
یہ خیالات ہیں سید صاحب کے، ظاہر ہے کہ بحث ہوئی، بد مزگی ہوئی، تاویلیں ہوئیں اور پھر کھانے پر بیلنس کی سعی ہوئی؛ مگر تاریخ ایس صلح کو نہیں مانتی، اس کی رپورٹ یہی ہوگی کہ جس وقت اونچ نیچ کے موجد ہندو برہمن، ہندو سماج میں مساوات کی دعوت پھیلا رہے تھے، اس وقت مساوات کے علم بردار یہ افسوس کر رہے تھے کہ انھوں نے دائرۂ اسلام میں غیر سید کو قبول ہی کیوں کیا!
چند ماہ قبل ناچیز نے ایک وقتی تاثر میں سماجی تفریق پر کچھ لکھ دیا تھا، جو اونچ نیچ کے حامیوں کو ناگوار گذرا تھا اور بعض اپنے بھی صف آرا ہو گئے تھے، اس وقت طے کیا تھا کہ اس زخم سے تغافل ہی واحد آپشن ہے، علاج ممکن نہیں، سعی لا حاصل ہے؛ بل کہ مزید مہلک ہے؛ لیکن بھاگیشور پنڈت کے ہاتھوں اسلام کے خوبصورت تصور کو ہائی جیک ہوتا دیکھ کر وہی سطریں بے اختیار پھر زیر قلم آگئیں، زمانے کی نیرنگی بھی کس درجہ دل چسپ ہے کہ سادھو مولوی کی زبان بول رہا ہے اور مولوی سادھو کی اور تبدیل شدہ جعلی پیرہن کے ادعا میں دونوں ہی دروغ گو، بے حیا اور ڈھیٹ ہیں!