تحسین منور‘سرسید کے بھیس میں
از: معصوم مرادآبادی
___________________
سردی کے موسم میں تحسین منور کاتذکرہ کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ جاڑوں میں ٹھنڈے پانی سے نہانا۔ تحسین منور نہ جانے کب سے اپنے دوستوں کو سردی میں نہ نہانے کے فائدے سمجھا رہے ہیں، لیکن ان کے دوست ہیں کہ شدید سردی میں بھی نہائے جارہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ پچھلی سردیوں میں تحسین منور نے غسل خانے کا رخ تک نہیں کیاتھا اور سردی کاپورا موسم بغیرنہائے گزاردیا تھا۔ انھیں دیکھ کر مجھے اکثر اپنے ایک عزیز یاد آتے ہیں، جنھیں میں نے بچپن میں خوب دیکھا۔ وہ سردیوں کے موسم میں لوٹا بھرکے پانی بیت الخلاء لے جاتے تھے اور وہاں سے بھرا ہوا لوٹا ہی واپس لاتے تھے۔ جب ان سے اس کا سبب پوچھا جاتا تو وہ کہتے کہ ”سردی بہت ہے۔“ یوں لگتا ہے کہ تحسین منور کو سردی میں پانی سے دور رہنے کا مشورہ کسی حکیم نے دیا ہوگا۔ غالب گمان ہے کہ یہ مشورہ حکیم ہری کشن لال کا رہا ہوگا،جو پرانی دہلی کے لال کنواں علاقہ میں اپنا مطب کرتے تھے اورجن بیماریوں کا علاج کرتے تھے، ان میں مریض کے صحت یاب ہوجانے کے بعد اس پر غسل واجب ہوجایا کرتا تھا۔
ڈاکٹر سعید عالم کے سولو پلے میں تحسین منور کو سرسید کا کردار اداکرتے ہوئے دیکھ کر معلوم ہوا کہ وہ آخر اتنے دنوں سے نہ نہانے کی وکالت کیوں کررہے تھے۔ اس عمل کے نتیجے میں ان کا جو وزن بڑھا ہے، وہی دراصل سرسید کا کردار نبھانے میں ان کے کام آیا ہے۔ہوسکتا ہے کہ یہ مشورہ انھیں ڈاکٹر سعید عالم نے اپنا پلے کامیاب بنانے کے لیے قبل از وقت دیا ہو۔ سرسید کا کردار نبھانے کے لیے ایسے ہی جصے کی ضرورت تھی۔ تاریخ میں کہیں پڑھاہے کہ سرسید جب دہلی کے آثارقدیمہ پر اپنی معرکۃ الآراء کتاب ”آثار الصنادید“ لکھ رہے تھے تو انھیں اس کی اتنی دھن سوار تھی کہ ان عمارتوں پر لکھی ہوئی عبارتوں کو پڑھنے کے لیے انھوں نے ایک جھولا بنوایا تھا جس پراپنے بھاری بھرکم جسم سمیت لٹک کر وہ عبارتیں پڑھا کرتے تھے۔سرسیدکے خیرخواہ اس عمل سے خائف بھی رہتے تھے کہ کہیں وہ گرنہ جائیں، مگر انھوں نے یہ عمل جاری رکھا۔اچھا ہوا کہ ڈاکٹر سعید عالم نے اپنے پلے میں ’آثارالصنادید‘کا ذکر نہیں کیا ورنہ تحسین منور کو بھی اسی عمل سے گزرنا پڑتا اور ہم جیسے ان کے دوستوں کو ان کی فکر لاحق ہوتی۔
سرسید کے کردار کی ادائیگی میں جس چیز نے تحسین منور کا سب سے زیادہ ساتھ دیا وہ ان کا باوزن ہونا ہی تھا۔ حالانکہ وہ پچھلے کئی برس سے ’بے وزن‘ ہونے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوپائے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ وہ جس زمانے میں ریلوے کے مرکزی وزیر لالو پرشاد یادو کے میڈیا ایڈوائزر تھے اور’ریل بھون‘ میں بیٹھا کرتے تھے تو تقریباً روزانہ شام سے پہلے راج پتھ پر واک کرنے جاتے تھے۔ ایک دن میں نے ان کا تعاقب کیا تو پایا کہ ان کی رفتاریوم جمہوریہ کے موقع پر راج پتھ پر نکلنے والی پانڈیچری کی جھانکی سے زیادہ نہیں تھی۔ البتہ واپس آکر وہ دفتر میں سب کو یہی بتاتے تھے کہ آج بہت تیز دوڑے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب لالو پرساد پارلیمنٹ میں سیاست دانوں کو اورتحسین منور’ریل بھون‘ میں صحافیوں کو ہنسانے کے کام پر مامور تھے۔ہنسنے ہنسانے کے اس عمل میں کچھ صحافیوں کے ٹکٹ بھی مفت میں کنفرم ہوجایا کرتے تھے۔یہ تحسین منور کا کمال تھا۔
تحسین منور بڑے کمال کے آدمی ہیں۔ وہ اس کے علاوہ شاعر، ادیب، صحافی، براڈکاسٹر اور تھیٹر کے اداکار بھی ہیں۔ یوں سمجھئے کہ وہ ہرفن مولا ہیں اور نجی محفلوں میں دوستوں کو ہنسانے کاکام بلا معاوضہ انجام دیتے ہیں۔تحسین منور سے ہمارا برادرانہ رشتہ ہے کیونکہ وہ ہمارے صحافت کے استاد پروانہ ردولوی کے بیٹے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کا اپنے والد کے ساتھ ہمیشہ چھتیس کا آنکڑا رہا۔ وہ انھیں اپنی ناخلق اولادوں میں شمار کرتے تھے، لیکن انھیں کیا معلوم تھا کہ بڑا ہوکر یہی ناخلق بیٹا ان کا نام روشن کرے گا۔پروانہ ردولوی اردو کے بڑے مشاق صحافی تھے۔ ہم نے ان جیسا مترجم اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ وہ انگریزی مضامین کا ترجمہ بڑی مہارت اور چابک دستی کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ایسے ہی جیسے تحسین منور ہندی سے اردو اور اردو سے ہندی کا ترجمہ کرتے ہیں۔ ان کے بارے یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کب اردو سے ہندی کے یا ہندی سے اردو کے قالب میں ڈھل گئے۔
یادش بخیر! انھیں ہم نے اب سے کوئی تین دہائیوں قبل اس وقت دیکھا تھا جب وہ انقلابی قسم کے نوجوان تھے اور ان کی گردن میں مولویوں والا رومال بندھا رہتا تھا۔یہ وہ دور تھا جب وہ دوردرشن کے سری نگر اسٹیشن پر خبریں پڑھنے پر مامور تھے۔ ان کی آواز میں ایک خاص قسم کی گھن گرج تھی اور شاید اسی لیے اس کام کے لیے ان کا انتخاب بھی کیا گیا تھا۔ وہ جب خبریں پڑھتے تو وہاں کے حالات کے مطابق ان کی آواز میں بڑی کچھ اور آوازیں بھی سنائی دیتی تھیں۔ اس کے بعد جب انھوں نے شاعری شروع کی تو وہاں بھی آواز کے اس زیروبم کو برقرار رکھا۔ایک روز لال قلعہ کے مشاعرے میں جب وہ اردو اخباروالا شعر پڑھ رہے تھے تو پس منظر میں گبر سنگھ کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی۔ ان کی شاعری سنتے ہوئے اکثر ہمیں کبن مرزا کی آواز میں گائی ہوئی یہ غزل یاد آتی ہے۔
آئی زنجیر کی آواز خدا خیر کرے
کوئی کچھ بھی کہے تحسین منور یاروں کے یار بلکہ یار غار ہیں۔ان کے ساتھ گھنٹوں بیٹھ کر ہنسا جایا سکتا ہے۔ بشرطیکہ کرنے کو اس سے بہتر کوئی کام نہ ہو، لیکن کبھی کبھی وہ اپنے دوستوں کا امتحان بھی لیتے ہیں۔ کئی برس کا قصہ ہے کہ ہم دونوں ماکھن لال چترویدی یونیورسٹی کے ایک سیمینار میں شریک ہونے بھوپال گئے۔رات کو تھکے ماندے جب ہوٹل پہنچے تو دونوں کو ایک ہی کمرے میں ٹھہرایا گیا۔بستر پر دراز ہوتے وقت تحسین منور نے کہا کہ ”ہمارے کچھ خراٹے آپ کی نیند میں خلل ڈال سکتے ہیں۔“ ہم نے سوچا کہ یونہی حسب عادت مذاق کررہے ہیں، لیکن جوں ہی تحسین کی آنکھ لگی تو ہماری آنکھ خود بخود کھل گئی۔ خراٹوں کی آوازوں کے اتنے زیروبم تھے کہ انھیں پوری طرح لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ ایک خراٹا آتا تھا اور دوسرا کئی خراٹوں کو ساتھ لاتا تھا۔ اتنی انواع واقسام کے خراٹے ہم نے زندگی میں پہلی بار سنے تھے۔ اس میں موسیقی بھی تھی۔راگ بھیروی بھی تھا۔ راگ ڈوگرا بھی تھا۔ جیسے جیسے تحسین کے خراٹوں کا جہاں آباد ہوتا رہا ہماری نیند کا جہاں برباد ہوتا چلاگیا۔ پوری رات ہم نے جاگ کر گزاری اور تحسین نے آرام سے سوکر۔صبح ہونے کے بعد بولے آپ کو نیند میں کوئی زحمت تو نہیں ہوئی۔ خراٹوں کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ خود خراٹے لینے والے کو سنائی نہیں دیتے۔ ان کا لطف دوسروں کو آتا ہے۔
بہرحال بات شروع ہوئی تھی سرسید پر ڈاکٹر سعید عالم کے سولو پلے میں تحسین منور کے رول پر، جو انھوں نے بڑی خوش اسلوبی سے نبھایا۔ ڈائیلاگ کی ادائیگی اور اداکاری دونوں لاجواب تھی۔تھیٹر کی دنیا کی ممتاز ومعروف شخصیت ڈاکٹر سعید عالم نے اس سولو پلے کو نہ صرف بڑی محنت سے لکھا ہے بلکہ ان کی ہدایت کاری بھی لاجواب ہے۔تحسین منورکو سرسید کے کردار میں دیکھ کر اچھا لگا۔ اس سے پہلے انھیں ایک ڈرامہ میں چنے بیچتے ہوئے اور ایک دوسرے ڈرامہ میں جھاڑو لگاتے ہوئے دیکھ کر جو تشویش ہوئی تھی سرسید کے کردار نے اس کا ازالہ کردیا۔ بس ایک بات اپنے دوست ڈاکٹر سعید عالم سے کہنی ہے کہ وہ اگلی بار جب یہ سولو پلے پیش کریں تو سرسید کی داڑھی کسی اچھے زلف تراش سے بنوائیں یا پھر تحسین منور سے کہیں کہ جب تک وہ سرسید کا کردار اداکریں اپنی داڑھی چھوڑ دیں مگر اس کے لیے انھیں زہرہ بھابھی سے اجازت لینی ہوگی۔