بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
(آخری قسط)
🖊 ظفر امام قاسمی
_____________________
یہ مدرسہ یعنی معہد سیدنا ابوبکر صدیقؓ بلیا منورا، نزد کانکی کشن گنج، بہار جس کے اجلاسِ دستار بندی میں بطور ناظم میری حاضری ہوئی تھی ضلع کشن گنج کے ایک سرحدی گاؤں کانکی ( مغربی بنگال)سے غالبا دو تین کیلو میٹر پہلے بلیا ( منورا) میں واقع ہے،ادارے کے روحِ رواں ایک باصلاحیت عالمِ دین،خوش اخلاق و ملنسار،علم دوست و قدر شناس انسان اور محنت و ریاضت جیسی اعلی صفات سے متصف ہستی حضرت اقدس مولانا منظر عقیل صاحب ندوی مدظلہ العالی کےبیان کے مطابق اس ادارے کی بنیاد 2005ء میں رکھی گئی،اس کے بعد اس میں تقریبا چھ سالوں تک مکتب کا نظام چلتا رہا،2011ء میں اس میں باضابطہ ہاسٹل کا نظام شروع کیا گیا۔
ادارہ کا محلِ وقوع نہایت پُرسکون اور فرحت بخش ہے،شہری آلودگیوں اور ہو حق کی صداؤں سے محفوظ ادارے نے ابھی تو بوجہ قلتِ وسائل زیادہ تعمیری ترقی کا منہ نہیں دیکھا ہے،تاہم اس مختصر سے وقت میں تعلیم و تربیت میں ترقی کے جس بام پر اپنی کمندیں ڈالی ہیں وہ نہایت قابلِ رشک ہیں۔
- پہلی قسط: بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
مہتمم صاحب کے بیان کے مطابق سالِ رواں اس چھوٹے سے مدرسے میں 110 طلبہ مقیم ہیں،جو کئی محنتی، ماہر اور تجربہ کار اساتذہ کے زیر سایہ پروان چڑھ رہے ہیں اور ان کے سینوں سے ابلتے جامِ علم کو اپنے ہونٹوں سے لگائےرکھنے میں رات دن مصروف رہتے ہیں، میں نے ادارے کے کئی طلبہ کی تلاوت،نعت اور تقریریں سنیں، سن کر محسوس ہوا کہ ادارہ اپنے تعلیمی منہج و مشن پر بحسن و خوبی رواں دواں ہے اور طلبہ پر اساتذہ کی محنتیں اکارت نہیں جا رہی ہیں۔
مہتمم صاحب کی تصریح کے مطابق جب سے ہاسٹل کا نظام عمل میں آیا ہے بشمول لاک ڈاؤن کے ہر دو سال بعد ادارے میں اجلاسِ دستار بندی کا انعقاد عمل میں آتا ہے اور ہر اجلاس میں کم و بیش درجن بھر حفاظ کے مبارک سروں پر دستار باندھی جاتی ہے،امسال بھی 14/ حفاظ کے سروں پر امیرِ شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب مدظلہ العالی اور دیگر اکابرین کے مقدس ہاتھوں سے دستار باندھی گئی،اور ادارے نے ان حفاظ کی خدمت میں قرآنِ کریم کا ایک نسخہ،ایک نفیس چوغہ،ایک جوڑا کپڑا،ایک خوبصورت ڈائری اور ایک عمدہ معیار کا بیگ پیش کیا۔
مخیرین حضرات سے پرزور درخواست ہے کہ ویرانے میں لگے اس گلشن کی خوب خوب آبیاری کریں اور کسی بھی صورت اس کے لہلہاتے پتوں کو زرد نہ ہونے دیں۔
بہرحال میں تو آپ کو اپنی نظامت کی ”داستانِ دلربا “ سنا رہا تھا، درمیان میں یہ تفصیلاتِ ضروریہ بطور جملۂ معترضہ کے درج ہوگئیں، اب وقت کی سوئی دس سے آگے کو جا پہنچی تھی کہ مائک پر باضابطہ ادارہ کے ایک سابق مدرس جناب قاری طارق انور صاحب نے میری نظامت کا اعلان کیا،اعلان کیا کیا بس یوں سمجھ لیجیے کہ اپنے زوردار اعلان کے ذریعہ آنجناب نے مجھے مزید شرمساری میں مبتلاکردیا کہ صحیح معنوں میں آپ کا یہ اعلان” کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا “کے مصداق تھا، اب جب میرے بارے میں اعلان ہوچکا تھا تو لامحالہ مائک تو میرے ہاتھ میں آنا ہی تھا سو آپ کے اعلان کے بعد کچھ گھنٹوں کے لئے میں مائک کا مالک بن بیٹھا،مگر اسے میری ناتجربہ کاری نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے کہ میں مالک بن کر بھی مکمل طریقے پر اپنی ملکیت مائک پر ثبت نہ کرسکا۔
ہوا کچھ یوں کہ میں نے اپنی مختصر سی تمہیدی بات کے بعد تالئ قرآن کو آواز دی،میری تمہیدی بات بھی کیا ہی نرالی شان رکھتی تھی، نہ اُس کا سر تھا نہ پیر،آپ ہی بتائیے جس کے ذہن میں نہ کوئی خاکہ ہو اور نہ اس کے دامن میں کوئی مواد وہ بھلا بول بھی کیا سکتا ہے، میرے اوپر سکتہ کا سا عالم طاری تھا،میں نے بولنے کے لئے جن چند اشعار اور جملوں کا انتخاب کیا تھا وہ یکلخت ذہن سے نکل گئے،میری حالت اس وقت اس شکاری کے مانند تھی جس کی گرفت سے اس کا شکار عین موقع پر آزادی حاصل کرکےفضا کی وسعتوں میں گم ہوگیا ہو،اور وہ بیچ صحرا میں بےبسی کے عالم میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے کھڑا اسے فقط تکتا رہ گیا ہو،مگر ہمیشہ قدرت کی مہربانیاں اور اکابرین کی دعائیں عین وقت پر اِس خاکسار کی معاون بن جاتی ہیں،الحمدللہ یہاں پر بھی ایسا ہی ہوا بروقت میں نے زبان کی لڑکھڑاہٹ اور جسم کی کپکپاہٹ پر قابو پالیا اور مقفی و مسجع کلام میں نہ سہی سادگی بھرے جملوں میں تمہیدی بات کہہ ڈالی،اور دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کا ہجوم پنڈال میں امڈ پڑا۔
تلاوتِ قرآن کے بعد نعتِ نبی گنگنانے کے لئے سرزمین ِ پورنیہ سے تشریف لائے ایک نعت خواں کو مائک کےرو بہ رو کرایا،یہ نعت خواں بھی مشاعروں میں گویا گری کرنے والے شعراء کے قبیل سے تھا،اُدھر نظامت کا بار تو میری جان پر بنا ہوا تھا،میں اسے مائک تھماکر خود کی اگلی تیاری کی صورت گری میں محو ہوگیا مگر اس کو تو داد چاہیے تھی،جب اس نے مجھے اپنی طرف متوجہ نہ پایا تو گھوم کر اولا تیوری چڑھائی،اسے محسوس ہوگیا کہ میرا تجربہ خام بلکہ ہے ہی نہیں، لہذا اس نے اشتہار میں موجود ناظمِ جلسہ یعنی مخدومِ گرامی، نقیبِ بےباک حضرت اقدس مفتی مناظر صاحب نعمانی قاسمی کا نام لیکر میری توجہ زبردستی اپنی طرف مبذول کرانی چاہی،اسے کیا پتہ کہ یہ وہ نہیں بلکہ ان کا متبادل ہے،مفتی صاحب کا نام سن کر ایک خفیف سی مسکراہٹ میرے ہونٹوں پر رینگ گئی کہ خواہ مخواہ میری ناتجربہ کاری کا دھبہ حضرت مفتی صاحب کے نام پر لگ رہا ہے اور ساتھ میں یہ خیال بھی دل میں بجلی بن کر کوندنے لگا کہ: بیٹے! میں ہوں تو تو بچ رہا ہے،ورنہ اگر میری جگہ اصل ناظم صاحب ہوتے تو تمہاری اچھی کلاس لگا لیتے،کیونکہ ہر مصرعے پر داد کی ڈالی نچھاور کرنا اور حق ہے حق ہے کہ صدا لگانا ان کے ذوق کا حصہ نہیں،اور نہ ہی یہ چیزیں دینی محفلوں کو زیب دیتی ہیں،لیکن ان لوگوں کو تو داد چاہیے ہوتی ہے اور یہ میرے بس کا روگ نہ تھا، لہذا میں نے پستہ قد والا مائک داد دینے کے لئے اسی طالب علم کے حوالے کردیا جو مجھ سے پہلے نظامت کا بار اپنی گردن پر اٹھایے ہوئے تھا۔
نعتیہ کلام کے بعد مقررین زینتِ اسٹیج ہونا شروع ہوئے،مقررین کی فہرست لمبی نہیں تھی،بس مہمانِ خصوصی امیرِشریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب مدظلہ العالی کی آمد سے قبل دو ہی مقرر کا بیان طےتھا،ان میں سے ایک زبان و بیان پر کامل دستگاہ رکھنے والے، سرزمینِ کشن گنج کے مایہ ناز خطیب حضرت اقدس مولانا اسعد عالم صاحب ندوی مدظلہ العالی مدرس ہائی اسکول چکلہ گھاٹ کشن گنج اور دوسرے افقِ خطابت پر کسی نیر تاباں کی مانند جگمگانے والے نامور مقرر، طلاقتِ لسانی اور جادو بیانی میں اپنی مثال نہ رکھنے والے ہر فن مولیٰ خطیب،سچ تو یہ ہے کہ کشن گنج کی سرزمین کو اپنی کوکھ سے پیدا ہونے والے جن مایہ ناز سپوت کی زبان دانی پر ناز ہے ان میں سرفہرست حضرت والا کا نام بھی درج ہے،جو چیز حضرت والا کی خطابت کو دیگر خطباء پر تفوق بخشتی ہے وہ ہے آپ کی ادیبانہ زبان کی سلاست و روانی اور وقفے وقفے سے فارسی اور اردو کے اشعار کا برمحل استعمال،میرا جہاں تک خیال ہے مختلف عناوین کے سینکڑوں اشعار جن کو آپ درمیانِ خطابت برتتے ہیں آپ کی نوکِ زبان ہیں،ان سے میری مراد منکسرالمزاج، متواضع اور اعلی اخلاق کی حامل شخصیت حضرت اقدس مولانا فیض الرحمن صاحب ندوی دامت برکاتہم العالیہ(مہتمم جامعہ اسلامیہ کشن گنج) کی ذات بابرکت ہے۔
حضرت مولانا فیض الرحمن صاحب کا بیان ابھی اپنے شباب پر تھا کہ جلسہ گاہ میں بےموقع ( اس لئے کہ طے کچھ اور تھا مگر حضرت پہلے آگئے)امیرشریعت کی آمد ہوئی،آپ کی آمد سے پورا مجمع بشمول اسٹیج پر فروکش انسانوں کی ایک معتد بہ تعداد نے دورانِ خطابت کھڑے ہوکر آپ کا والہانہ استقبال کیا،امارت و سیادت اپنی جگہ مسلم ہے،اس میں کلام کی کوئی گنجائش نہیں کہ امیر کا ادب و استقبال بہرحال ہونا چاہیے،مگر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی باتوں سے منہ موڑ کر کسی کی آمد پر کھڑے ہوجانا کیا یہ صحیح عمل ہے؟ کیا اس سے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی بے ادبی لازم نہیں آتی؟ میں کوئی حرمت و عدم جواز کا حکم لاگو نہیں کرتا بلکہ ایک سوال سنجیدہ قارئین کے لئے چھوڑ رہا ہوں کہ آیا ایسی حرکت کسی کی بھی آمد پر درست ہے کہ کرسی پر بیٹھنے والی شخصیت سے منھ موڑ لیا جائے جب کہ وہ بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی باتیں کر رہی ہوتی ہے،درست ہے؟ اور میں یہ سوالیہ نشان اس لئے لگا رہا ہوں کہ پہلے اس طرح کی باتیں ہمارے دیوبندی مسلک میں نظر نہیں آتی تھیں مگر ادھر کچھ سالوں سے دیکھنے میں آرہا ہے کہ جب کسی بزرگ ہستی کی اسٹیج پر آمد ہوتی ہے تو مجمع حضرت والا کے لئے کھڑا ہوجاتا ہے،اس کا سارا دھیان انہی کی طرف مُڑ جاتا ہے،آپ ہی بتائیے اُس وقت کرسی پر جو مقرر تقریر کر رہے ہوتے ہیں،کیا مجمع کی ان حرکتوں سے ان کا دل شرمسار نہ ہوتا ہوگا؟ان کی عزتِ نفس مجروح نہ ہوتی ہوگی،کیا وہ احساسِ کمتری میں مبتلا نہ ہوتے ہوں گے؟ آخر وہ بھی تو اللہ و رسول کی ہی باتیں کر رہے ہوتے ہیں،ٹھیک ہے حضرت کی آمد پر کسی اور کو موقع نہ دیا جائے مگر موقع پر بیٹھے انسان کے ساتھ کم از کم اس طرح کا برا برتاؤ بھی تو نہ کیا جائے۔
یہاں بھی ایسا ہی ہوا،حضرت مولانا فیض الرحمن صاحب کی زبان قرآن کی عظمت پر کسی دریا کی مانند بہتی چلی جا رہی تھی اور مجمع ہمہ تن گوش بھی تھا مگر حضرت کی آمد نے مجمع کا دھیان اپنی طرف موڑ لیا،امیر شریعت تو آکر چپ چاپ بیٹھ گئے تاہم آپ کے کچھ ایڈوانس قسم کے چیلے مجھ سے کہنے لگے:مولانا کو مختصر کرنے کہیے“ میں نے بھی بےرخی سے جواب دیا: مختصر ہی تو کر رہے ہیں“۔
اب میرے ذمہ صرف امیرِشریعت کو زحمتِ اسٹیج دینا باقی رہ گیا تھا،سو میں نے اسے بھی کسی نہ کسی طریقے سے انجام تک پہنچا دیا اور اس طرح اس احساس کے ساتھ میرا کام مکمل ہوا کہ:
؎ بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
امیر شریعت نے مسندِ خطابت کو زینت بخشی اور سب سے پہلے حفاظِ کرام کے سروں پر دستار باندھی،بعدہ مختصر خطاب کے بعد ” سری دعا“ ( جبکہ لوگ جہری دعا کے متمنی تھے) پر اجلاسِ دستار بندی کو اختتام تک پہنچایا۔جزاہ اللہ عنا احسن الجزاء
اجلاس کے اختتام کے بعد مدرسے کی جانب سے خوانِ شیراز لگایا گیا اور آنے والے تمام مہمانانِ عظام نے جی بھر کر بریانی کھائی، کھانے سے فارغ ہوئے تو اسی گاؤں کے رہنے والے جامعہ حسینیہ مدنی نگر کشن گنج کے ایک قدیم طالب جناب مولوی عادل صاحب باصرار تمام مجھے اپنے گھر لے گئے اور چائے نوشی کراکے نظامت کی تھکن سے چور ہوئے میرے جسم کو تازگی بخشی( رہ گئی بات پسینے کی وہ کب ہی خشک ہوچکی تھی) اور پھر میں وہاں سے ان تمام حضرات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی منزل کی طرف لوٹ گیا جن کی کرم فرمائیوں سے میں” نظامت“ کے پہلے تجربہ سے روشناس ہوا۔