بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
(پہلی قسط)
🖊 ظفر امام قاسمی
______________________
رات کے 11:34 بج رہے تھے کہ اچانک موبائل کی اسکرین پر حضرت اقدس الحاج مفتی محمد دانش انور صاحب قاسمی( مہتمم جامعہ تحسین القرآن للبنات گسترہ پورنیہ ) کا نمبر نمودار ہوا،اتنی رات گئے حضرت کا فون دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنکا،میری چھٹی حس نے کانوں میں سرگوشی کی:یہ فون نہیں بلکہ ضرور کسی نئی افتاد کا الارم ہے ورنہ اتنی رات گئے بھلا کون کسے فون کرتا ہے“موبائل سائلنٹ موڈ میں رکھنے کی میری عادتِ پارینہ کو آپ”عادتِ بد“ سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں،میرے متعلقین اِس بابت مجھ سے کافی شاکی بھی رہتے ہیں کہ میں وقت پر فون نہیں اٹھاتا مگر جو عادتِ بد مجھے لگی ہے متعلقین و احباب کی شکایات اسے اب تک زائل کرنے سے قاصر ہیں۔
حسبِ عادت اُس وقت بھی میرا موبائل سائلنٹ موڈ میں تھا، اگر میں اس وقت اتفاق سے دیکھ بھی لیتا تب بھی کسی طور فون نہیں اٹھاتا اور صبح بہانہ تراش لیتا کہ موبائل سائلنٹ میں تھا،پتہ ہی نہیں چلا وغیرہ وغیرہ،مگر سوئے اتفاق کہ اُس وقت میں فون پر کسی سے مصروفِ گفتگو تھا،ایسے میں اگر فون نہ اٹھاتا تو میری عذر خواہیاں ناقابل قبول سمجھی جاتیں،سو میں نے فون ریسیو کرکے کانوں سے لگالیا۔
علیک سلیک کے بعد حضرت مفتی صاحب کہنے لگے: شہر کشن گنج سے مغربی سمت تقریبًا دس کیلو میٹر کی دوری پر ایک گاؤں ”منورہ“ نام سے ہے،وہاں ایک مدرسہ معہد سیدنا ابی بکر صدیقؓ میں دستار بندی کا پروگرام ہے،آپ کو وہاں صبح جانا ہے،حضرت مفتی مناظر صاحب نعمانی قاسمی مدظلہ العالی کو جانا تھا مگر سرزمینِ کشن گنج لہرا چوک میں ٨/دسمبر کو ہونے والے جمعیة علماء کشن گنج کے عظیم الشان اجلاس کے پیش نظر صبح ایک مشاورتی اجلاس ہے جس میں آنجناب کی شرکت ناگزیر ہے،جمعیة علماء کشن گنج کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا خالد انور صاحب سرائے کوڑی نے بطور متبادل میرے پاس فون کیا مگر بدقسمتی سے میں بھی بےانتہا مشغول ہوں،اس لئے اب مولانا خالد صاحب کے حکم پر میں آپ کو فون کر رہا ہوں( گویا کہ یہ میرا فون نہیں بلکہ مولانا خالد صاحب کا فون ہے) “ میں نے استفسار کیا: مجھے کس حیثیت سے پروگرام میں شرکت کرنی ہے؟“ اِس پر حضرت نے جواب دیا: نظامت“۔
دوسری قسط: بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
نظامت کا نام سنتے ہی میرے اوسان خطا ہوگئے،میں ایک دم سے سٹپٹا گیا،بدن پر لرزش طاری ہوگئی،میں جس کمرے میں بیٹھا تھا پورا کمرہ مجھے ایک راؤنڈ میں گھومتا ہوا محسوس ہونے لگا، میں یہ سوچ کر کانپ اٹھا کہ مجھے تو صحیح ڈھنگ سے تقریر بھی نہیں کرنی آتی تو بھلا میں نظامت کا بارِ گراں کیسے اٹھا پاؤں گا،میں ہامی بھر کر سرِ محفل اپنی سبکی نہیں اٹھوانا چاہتا تھا،سو میں نے بنا کسی حیل و حجت کے حضرت مفتی صاحب سے کہہ دیا: حضرت مجھے معاف رکھئے،مجھ سے یہ کام نہیں ہو پائےگا،میں نے آج تک کبھی نظامت نہیں کی،نہ ہی میں طبع زاد ناظم ہوں اور نہ ہی اس سلسلے میں میری کوئی تیاری ہے، بہتر ہے کہ آپ دوسرے سے رابطہ کریں اور اپنا دامن بچانے کے لئے میں نے کئی ایک کا نام لیا“ مگرحضرت کی ایک ہی بات کہ: آدمی کرتے کرتے سیکھتا ہے اور مولانا خالد صاحب نے آپ ہی کا نام لیا ہے“ جب مجھے بچنے کا کوئی راستہ نظر نہ آیا تو جان چھڑانے کی آخری کوشش اِس طور پر کی کہ: میری چھٹی کا بھی مسئلہ ہے“ مگر جیسے حضرت نے بھی مجھے بھیجنے کا ٹھان ہی لیا تھا “ میں نے یہ کہہ کر فون رکھ دیا کہ اچھا صبح بات کروں گا۔
ابھی میں فجر پڑھ کر کمرے میں داخل ہی ہوا تھا کہ مخدومِ گرامی،مشفق و مکرم حضرت مفتی مناظر صاحب قاسمی نعمانی کا فون آگیا،ان کے پاس بھی میں نے وہی بہانے تراشے مگر ہامی بھرنے کا علاوہ کوئی چارہ نظر نہ آیا،آخر کار ایک یوم کی رخصتِ اتفاقی لے کر ڈر اور خوف کے سائے میں ایک نئی منزل کی جانب روانہ ہوگیا۔
نومبر کی مسکراتی ہوئی پُربہارصبح،بادِ نسیم کے پُرنم جھونکے،اوس پڑی رُت،وادیوں میں بکھری بکھری لطیف سی دھوپ کی چاندنی،تاحدِ نگاہ جھومتی دھان کی شبنم آلود زرد بالیاں اور نیلگوں آسمان کا فطرتی حسن سب کچھ ہی دل فریب اور خوش منظر تھا،اگر میرا یہ سفر کوئی تفریحی ایڈونچر ہوتا تو میں فطرت کے اس جمال آہنگ موسم سے خوب لطف اندوز ہوتا،مگر نظامت کا بار میری جان پر بنا ہوا تھا،مجھے راہ چلتے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے خفت کی دیویاں میرا مخول اڑا رہی ہوں،پورا راستہ میں نظامت کے ادھیڑ بُن میں مصروف رہا کہ کہاں سے شروع کرنا ہے اور کہاں لے جاکر ختم کرنا ہے،طرح طرح کے طریقے صفحۂ ذہن پر نمودار ہوتے مگر کوئی بھی طریقہ مجھے کارگر نظر نہ آتا،اورپھر اسی جوڑ گانٹھ میں سارے طریقے ذہن سے ہرن ہوجاتے ابھی میں اسی تصوراتی ادھیڑ بُن میں مصروف تھا کہ نگاہ ہائیو سے اندر کی جانب مڑتی ہوئی ایک پختہ سڑک کے سرے پر لٹکتے جلسے کے بینر سے جا ٹکرائی،میں نے وہیں سے گاڑی موڑی اور چلتے چلاتے مطلوبہ منزل تک پہنچ گیا۔
مدرسے میں داخل ہوا تو سب میرے لئے اجنبی تھے اور میں سب کے لئے اجنبی،میں اتنا تنومند بھی نہیں تھا کہ دیکھنے والے لپکے چلے آتے،دیکھنے والی آنکھیں انیک تھیں مگر خاطر میں لانے والی ایک بھی نہیں،ویسے بھی اجلاس چونکہ علاقے کی قدیم روایت سے ہٹ کر دن میں ہو رہا تھا اِس لئے صبح کے اُس وقت (نو بجے) تک زیادہ بھیڑ اکٹھی نہیں ہوئی تھی،میں تو بن بلایا مہمان تھا،کس سے کہتا بھلا کہ:میری حاضری ناظمِ جلسہ کے طور پر ہوئی ہے،لہذا میرے لئے ہٹو بچو کے نعرے لگاؤ“ اور کہتا بھی کیسے کہ اس وقت مجھ پر جو حالت طاری تھی وہ کسی قبر کے مردے سے کم نہ تھی،ایک چھوٹے سے طالب علم کو میں نے آواز دی،پاس آیا تو اسے بیگ تھمایا اور اس کے پیچھے پیچھے چلتا ہوا ایک کمرے میں جا کر بیٹھ گیا۔
ابھی باضابطہ اجلاس کی کارروائی شروع نہیں ہوئی تھی جب تک طلبہ اپنا مشقی جوہر دکھا رہے تھے،میں کمرے میں بیٹھا تھا کہ مائک سے آتی ایک طالب علم کی برمحل اشعار،عمدہ تعبیرات اوربلیغ تشبیہات سے مزین نظامت کی صدائے بازگشت نے میری رہی سہی ہمت بھی توڑ دی،مجھے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ یہ نومشق طالب علم تو مجھ سے بدرجہا بہتر اسٹیج کو سنبھال رہا ہے،سچ پوچھئے تو میں اس کی نظامت کے سامنے احساسِ کم مائیگی کا شکار ہوگیا،لیکن اصل اجلاس کی نظامت بہر طور مجھے ہی کرنی تھی،جی تو چاہ رہا تھا کہ کہیں بھاگ چلوں مگر اُس وقت میری کھوپڑی کے افق پر یہ شعر طلوع ہو رہا تھا۔
؎ میدانِ امتحاں سے گھبرا کے ہٹ نہ جانا
تکمیلِ زندگی ہے چوٹوں پے چوٹ کھانا
لہذا اس کے بعد میں نے کسی حد تک اپنے ہوش و حواس کو بحال کیا اور آنے والے وقت کی کشتی کو قادرِ مطلق کے ہاتھوں میں یہ کہتے ہوئے سونپ دیا کہ:
خشکی و تری پر قادر ہے آسان مری مشکل کر دے
ساحل کی طرف کشتی نہ سہی کشتی کی طرف ساحل کر دے
اس کے بعد مولانا آفتاب اظہر صدیقی صاحب کشن گنجی کی ترتیب دادہ نظامت کی کتاب گوگل سے نکالی اور سرسری طور پر اسے دیکھ کر ایک مختصر سا خاکہ اپنے ذہن میں بسا لیا اور وقتِ موعود کے انتظار میں بیٹھ گیا کہ وقت نے دس بجے کا راگ الاپ دیا،ادارے کے مہتمم صاحب نے ایک ایسے شخص کے ہاتھوں میں اسٹیج تھمادیا جسے نظامت کا نہ کوئی تجربہ تھا اور نہ اناؤنسری کا کوئی طور،وہ شخص ان کے اشارے پے اٹھا اور عرق آلود پیشانی کے ساتھ مائک پے جاکھڑا ہوا۔
جاری