آپ کا اختلاف تعمیری ہو تخریبی نہیں !
از: محمد قمر الزماں ندوی
_________________
فکر و نظر کا اختلاف ایک فطری امر ہے،اختلاف ہونا اور پایا جانا ضروری ہے ،ایسا ہوہی نہیں سکتا کہ لوگوں میں فکر و نظر اور عقل و شعور کا اختلاف نہ ہو ، کیوں کہ تمام انسانوں کو ایک ہی شکل اور رنگ و روپ پر پیدا نہیں کیا گیا ہے، بلکہ تمام انسانوں کی شکل و صورت رنگ و روپ اور جسمانی طاقت و قوت میں پیدائشی اختلاف اور فرق و تفاوت پایا جاتا ہے ۔اسی طرح سے مختلف انسانوں کے درمیان عقل و شعور فکر و نظر اور غور و خوض کی صلاحیتوں اور مدارج میں فرق پایا جانا بالکل فطری امر ہے ۔ یاد رہے جس طرح سے ہماری زبان ہمارے رنگ اور ہماری جسمانی ساخت کا مختلف ہونا خدا کے وجود کی دلیل اور علامت ہے ۔اسی طرح سے ہماری عقلی صلاحیتوں اور ذہنی ساختوں اور ان کے نتائج میں اختلاف پایا جانا، خدا کے وجود کی عظیم تر نشانی اور دلیل ہے ۔یہ نکتہ بھی ذہن میں رہے کہ اگر انسان کی تخلیق کسی خالق حکیم کے بغیر خود بخود وجود میں آجاتی تو تمام انسانوں کے رنگ اور شکل کی یکسانیت کے ساتھ ان کی ذہنی و فکری ساخت بھی یکساں ہوتی اور پھر انسانی زندگی ارتقاء و ارتفاع کے بجائے جمود و تعطل کا شکار ہوکر رہ جاتی ۔اس لیے ذہن و دماغ اور عقل و شعور کے مدارج کا مختلف ہونا ایک طرف خدا کی قدرت کاملہ کی ایک واضح دلیل اور بین ثبوت ہے، تو دوسری طرف یہ اختلاف کائنات کی تعمیر و ترقی،وجود انسانی کے ارتقاء اور زندگی کی بقا و تعمیر کے لیے لازمی و ضروری ہے ۔
ان تفصیلات کا حاصل اور خلاصہ یہ نکلا کہ اختلاف فکر و نظر ایک ضروری اور فطری امر ہے ،اور یہ محمود ہے ،مبغوض اور ناپسندیدہ نہیں ۔
البتہ اس بات پر غور کرنا اور نظر رکھنا ضروری ہے کہ اس فطری اختلاف کے حدود اور درجات کیا ہوں اور اسکا دائرئہ کار کیا ہو ؟
اگر اختلاف رائے ذاتی مفاد ،شخصی اغراض مادی منفعت یا حظ نفس کے لیے ہو، تو وہ ناجائز اور غیر محمود ہے ،اس طرح کے اختلاف کو کتاب و سنت اور شریعت کی تعبیر و اصطلاح میں ھویٰ کہا گیا ہے اور ھویٰ گمراہی و ضلالت کا سر چشمہ اور فساد و کرپشن کا منبع ہے ۔ تاریخ انسانی شاہد اور گواہ ہے کہ جب کوئی قوم، سماج اور معاشرہ ھویٰ اور نفسانیت کا شکار ہو جاتی ہے تو اس کو زوال و انحطاط پستی و تنزلی ادبار و تخلف سے نہیں بچایا جاسکتا ، جب اختلاف نفسانیت اور انانینت کی بنیاد پر ہوتا ہے، تو انسان کے اندر کبر، غرور، اناننیت، ضد اور ہٹ دھرمی کے جذبات کار فرما ہوتے ہیں یا اپنی علمی قابلیت اور بلندئی فکر و نظر کا رعب جمانا مقصود ہوتا ہے اور پھر انسان اپنی بات اور اپنی فکر و سوچ کو منوانے کے لیے تمام ذرائع بلکہ ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے ، زبان کو قینچی کی طرح بے دریغ استعمال کرتا ہے ،رطب و یابس باتوں پر بھی اتر آتا ہے، اپنی سطح سے کافی نیچے چلا جاتا ہے،،حد اعتدال سے بڑھ جاتا ہے اور اس سے بھی آگے بڑھ کر اپنی رائے مسلط کرنے کے لیے ملت کی شیرازہ بندی کو بھی پارہ پارہ کر دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتا ۔ آج یہی صورت حال ہے، جس سے پوری دنیا میں مسلمان دو چار ہے ۔
ہم سب کو اپنا جائزہ لینا ہے اور محاسبہ کرنا ہے کہ آیا ہمارا کسی سے اختلاف ھویٰ اور نفسانیت کی بنیاد پر ہے یا امت مسلمہ کی تعمیر و ترقی اور خیر خواہی کے لیے ہے ۔ ہمارا دل اس سوال کے جواب کے لیے کافی ہے ،، بس سوال کرنے کی دیر ہے ۔۔
دوستو !
آپ سب ذرا کان قریب کیجیے نا ! ایک بات کہنی ہے جو ضروری ہے کہ ذرا اپنے دل سے پوچھئیے نا کہ آپ کا یہ اختلاف کس وجہ سے ہے اور اس کی اصل وجہ اور بنیاد کیا ہے ؟؟؟؟؟یقینا آپ کے سوال کا آپ کو جواب مل جائے گا اور ممکن ہے آپ اپنے رویئے اور طرز عمل میں تبدیلی لانے کے لیے تیار ہو جائیں ۔