دور حاضر میں مساجد کی حفاظت اور ہماری ذمہ داریاں
دور حاضر میں مساجد کی حفاظت اور ہماری ذمہ داریاں
(اسلام میں مساجد کا کردار اور مسلمانوں کا رویہ)
از: ڈاکٹر سلیم انصاری
جھاپا، نیپال
____________________
اسلام میں مساجد کو ہمیشہ ایک مقدس مقام اور روحانی مرکز کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ یہ محض عبادت کا مقام نہیں بلکہ مسلمانوں کے سماجی، تعلیمی اور سیاسی زندگی کا محور رہی ہیں۔ مساجد کی حیثیت اسلام کی تاریخ میں کبھی بھی صرف نماز کی ادائیگی تک محدود نہیں رہی، بلکہ یہ وہ مراکز تھیں جہاں سے معاشرتی مسائل کے حل، تعلیم و تربیت اور عدل و انصاف کے فیصلے کیے جاتے تھے۔ تاہم، آج کے دور میں مساجد کو نہ صرف نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ ان کی حیثیت بھی کمزور پڑ چکی ہے۔ مساجد پر حملے اور ان کی بے حرمتی کا سلسلہ بابری مسجد کے انہدام سے شروع ہوا۔
بابری مسجد کے بعد یکے بعد دیگرے مساجد پر حملے کیے گئے۔ کئی تاریخی مساجد کے خلاف دعوے کیے گئے، اور مسلمانوں کو ان کے دینی مراکز سے محروم کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ آج یہ عمل شدت اختیار کر چکا ہے۔ مساجد کو نفرت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور مسلمانوں کے لیے عبادت کرنا بھی مشکل بنایا جا رہا ہے۔ مساجد پر بیرونی حملوں کے ساتھ ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ مسلمانوں نے خود بھی مساجد کے ساتھ وہ رویہ نہیں اپنایا جو ان کا حق تھا۔ اس مناسبت سے ہم غور کریں گے کہ مساجد کی اصل حیثیت کیا ہے، مسلمانوں کا ان کے ساتھ رویہ کیسا ہونا چاہیے اور موجودہ حالات میں ہم کیا اقدامات کر سکتے ہیں۔
مساجد کی تاریخی حیثیت
نبی کریم ﷺ نے مسجد نبوی کی تعمیر کے ساتھ یہ عملی نمونہ پیش کیا کہ مسجد صرف عبادت کا مقام نہیں بلکہ تعلیم، مشاورت اور عدل و انصاف کے فیصلوں کا مرکز بھی ہے۔ مدینہ کی اسلامی ریاست کی بنیاد مسجد نبوی سے ہی رکھی گئی۔ یہاں صحابہ کرام کی تعلیم و تربیت، مہاجرین اور انصار کے درمیان اخوت کے معاہدے، اور غزوات کی منصوبہ بندی کی گئی۔
اسلام کے روشن ادوار میں مساجد وہ مراکز تھیں جہاں سے دین کے ساتھ دنیاوی معاملات بھی چلائے جاتے تھے۔ نبی کریم ﷺ کے دور میں مسجد نبوی نہ صرف عبادت بلکہ تعلیم، سیاست، سفارت کاری اور فوجی منصوبہ بندی کا مرکز تھی۔ یہاں صحابہ کرام کے فیصلے ہوتے، مہمانوں کی ضیافت کی جاتی اور غریب و مسکینوں کے لیے مدد فراہم کی جاتی۔ اسی طرح، بعد کے ادوار میں جامعہ قرطبہ اور جامعہ دمشق جیسے مراکز نے دنیا کے ہر طرح کے علوم و فنون کو فروغ دیا۔ ان مساجد میں وہ عظیم علمی شخصیات پروان چڑھیں جنہوں نے اسلامی تہذیب کو عروج بخشا۔ امام مالک، امام شافعی، امام بخاری اور دیگر نامور علماء، فقہاء اور محدثین نے اپنی علمی خدمات مساجد میں سرانجام دیں۔
مسلمانوں کا موجودہ رویہ
آج کے دور میں مساجد کی وہ حیثیت باقی نہیں رہی جو کبھی ان کے پاس تھی۔ مسلمانوں نے خود بھی مساجد کے ساتھ وہ انصاف نہیں کیا جس کے یہ مستحق ہیں۔ بہت سی مساجد ایسی ہیں جہاں نماز پنجگانہ کی جماعت بھی بمشکل ہوتی ہے، حالانکہ وہ مسلمانوں کی گنجان آبادیوں میں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے: إنما يعمر مساجد الله من آمن بالله واليوم الآخر… یعنی مساجد کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن آج مساجد کا یہ حال ہے کہ یہ خالی پڑی ہیں یا صرف جمعہ کی نماز کے لیے آباد ہوتی ہیں۔
نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کے زمانے میں مسجد ہر مسلمان کی زندگی کا مرکز تھی۔ لیکن آج مساجد کو محض عبادت تک محدود کر دیا گیا ہے۔ تعلیم، تربیت اور فیصلوں کے لیے کوئی اور مقامات چنے گئے ہیں، جو مسلمانوں کی مجموعی کمی کا سبب ہیں۔ مسلمانوں نے مساجد کو فرقوں اور مسالک کے مطابق تقسیم کر دیا ہے۔ ہر فرقے نے اپنی الگ مسجد بنا لی ہے، جیسے اہل حدیث مسجد، بریلوی مسجد، دیوبندی مسجد، شیعہ مسجد وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وأن المساجد لله فلا تدعوا مع الله أحدا… یعنی مساجد صرف اللہ کے لیے ہیں۔
مساجد کی حفاظت کے لیے تجاویز اور اقدامات
مساجد کو نشانہ بنانے کے واقعات میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے، جو نہ صرف مسلمانوں کی روحانی زندگی پر اثر انداز ہو رہا ہے بلکہ ان کی اجتماعی شناخت اور مذہبی آزادی کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ موجودہ حالات میں، یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہر مسلمان اپنی بساط اپنی مساجد کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کرے۔ ذیل میں چند ضروری اقدامات پر روشنی ڈالی جا رہی ہے جنہیں ہر مسلمان اپنا سکتا ہے:
مساجد کو آباد کرنا: مساجد کو آباد کرنا ہر مسلمان کی ایمانی ذمہ داری ہے۔ یہ اللہ کا گھر ہیں اور ان میں عبادات کی بحالی سے ہماری روحانی زندگی میں انقلاب آ سکتا ہے۔ مساجد کو صرف جمعہ اور عید کی نمازوں تک محدود نہ رکھیں، بلکہ پانچ وقت کی نمازوں میں شرکت کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مساجد کو صاف ستھرا، خوبصورت اور پرکشش بنائیں تاکہ لوگ شوق سے یہاں آئیں۔ مساجد کو ایسی جگہ بنائیں جہاں ذکرِ الٰہی کی خوشبو مہکے اور روحانیت کے چراغ روشن ہوں۔ ایک مضبوط کمیونٹی کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ مساجد کو آباد کیا جائے تاکہ اللہ کی رحمت ہم پر سایہ کرے۔
مرکزی حیثیت دینا: مساجد کو تعلیم، تربیت، اور سماجی مسائل کے حل کے مراکز کے طور پر ترقی دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے دور میں مساجد نہ صرف عبادات کا مرکز تھیں بلکہ تعلیم، سیاست، اور عدل و انصاف کے لیے بھی استعمال ہوتی تھیں۔ مساجد میں دینی تعلیم کے ساتھ جدید علوم کی تدریس، تربیتی ورکشاپس اور کمیونٹی کے مسائل کے حل کے لیے مشاورتی اجلاس منعقد کریں۔ نوجوان نسل کو مساجد سے جوڑنے کے لیے دلچسپ اور مثبت سرگرمیوں کا انعقاد کریں، تاکہ وہ دین کے ساتھ ساتھ اپنی سماجی زندگی میں بھی رہنمائی حاصل کر سکیں۔
فرقہ واریت کا خاتمہ: مساجد کو فرقہ واریت اور مسلکی اختلافات سے آزاد کرانا بہت ضروری ہے۔ یہ اللہ کا گھر ہیں اور یہاں ہر مسلمان کو یکساں حیثیت حاصل ہے۔ مساجد کو کسی مخصوص فرقے یا مسلک کا مرکز نہ بنائیں بلکہ انہیں اتحاد اور بھائی چارے کی علامت کے طور پر استعمال کریں۔ مساجد کے انتظامات کے لیے ایسی کمیٹیاں تشکیل دیں جو غیرجانبدار ہوں اور مساجد کے مفاد کو اولین ترجیح دیں۔ تمام مسالک کے افراد کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کریں تاکہ مساجد حقیقی معنوں میں امت مسلمہ کے اتحاد کی نمائندہ بن سکیں۔
قانونی تحفظ کو یقینی بنائیں: مساجد کی قانونی حیثیت کو مضبوط بنانا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ وقف بورڈ اور دیگر متعلقہ اداروں کے ذریعے مساجد کی رجسٹریشن مکمل کریں اور ان کے دستاویزات محفوظ رکھیں۔ مساجد کی زمینوں پر تجاوزات کے خاتمے کے لیے قانونی کارروائی کا آغاز کریں۔ عدالتوں میں مساجد کے مقدمات کو مضبوط دلائل اور شواہد کے ساتھ پیش کریں تاکہ ان کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔ مساجد کی تاریخی اور قانونی اہمیت پر لوگوں کو آگاہ کریں تاکہ کوئی بھی غیر قانونی حرکت ان کے خلاف نہ ہو سکے۔
مقامی کمیونٹی کی شمولیت: مساجد کی حفاظت کے لیے مقامی کمیونٹی کو متحرک کرنا ضروری ہے۔ ایک نگہبان گروپ تشکیل دیں جو مساجد کی نگرانی کرے اور کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کو فوری طور پر رپورٹ کرے۔ نماز کے اوقات میں اور رات کے وقت مساجد کی حفاظت کے لیے رضاکار مقرر کریں۔ کمیونٹی میں شعور اجاگر کریں کہ مساجد صرف عبادت کی جگہ نہیں بلکہ مسلمانوں کی اجتماعی شناخت ہیں۔ ہر فرد کو اپنی استطاعت کے مطابق مساجد کی حفاظت میں حصہ ڈالنا چاہیے تاکہ ان کے تقدس کو بحال رکھا جا سکے۔
تکنیکی مدد کا استعمال: مساجد کی حفاظت کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال وقت کی ضرورت ہے۔ مساجد کے اردگرد سی سی ٹی وی کیمرے نصب کریں تاکہ کسی بھی مشکوک حرکت کو مانیٹر کیا جا سکے۔ ایمرجنسی کی صورت میں الرٹ سسٹم اور مقامی پولیس کے ساتھ فوری رابطے کا انتظام کریں۔ مساجد کی جائیدادوں اور حدود کی نگرانی کے لیے ڈرون اور دیگر ٹیکنالوجی کا استعمال کریں تاکہ کسی بھی تجاوزات کو بروقت روکا جا سکے۔
امن و امان کے لیے حکمت عملی: مسلمانوں کو اپنی مساجد کی حفاظت کے ساتھ امن و امان کے فروغ کے لیے بھی کام کرنا ہوگا۔ تمام کمیونٹیز کے ساتھ پرامن تعلقات قائم کریں تاکہ مساجد کو نشانہ بنانے کے بہانے پیدا نہ ہوں۔ مساجد کے بارے میں غیر مسلموں کو آگاہ کریں کہ یہ امن، خیر اور بھائی چارے کی جگہ ہیں۔ بین المذاہب مکالمے منعقد کریں اور مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے اقدامات کریں تاکہ ہر طبقہ مساجد کی اہمیت کو سمجھ سکے۔
حکومت سے تعاون: مسلمانوں کو مقامی حکومت اور پولیس کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے چاہئیں تاکہ مساجد کی حفاظت میں ان کا تعاون حاصل ہو۔ مساجد پر حملوں یا غیر قانونی سرگرمیوں کی صورت میں فوری طور پر قانونی کارروائی کا مطالبہ کریں۔ حکومتی اسکیموں اور پروگرامز سے فائدہ اٹھائیں اور مساجد کی ترقی اور تحفظ کو یقینی بنائیں۔ حکومت کے سامنے مساجد کی سماجی اور ثقافتی اہمیت کو اجاگر کریں تاکہ وہ ان کی حفاظت کے لیے عملی اقدامات کریں۔
عوامی شعور اجاگر کریں: مساجد کی حفاظت کے لیے عوام میں شعور بیدار کرنا ضروری ہے۔ لوگوں کو یاد دلائیں کہ مساجد کی حفاظت اور ترقی ہر مسلمان کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے۔ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کا استعمال کرتے ہوئے مساجد پر حملوں کے خلاف آواز اٹھائیں۔ عوام کو ترغیب دیں کہ وہ مساجد کے تحفظ کے لیے مالی مدد فراہم کریں تاکہ حفاظتی اقدامات کو بہتر بنایا جا سکے۔
تاریخی مساجد کا تحفظ: تاریخی مساجد ہماری دینی اور ثقافتی ورثہ ہیں، جن کی حفاظت کے لیے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان مساجد کی مرمت اور بحالی کے لیے ماہرین کی خدمات حاصل کریں۔ تاریخی مساجد کے ثقافتی اور تعلیمی پہلوؤں کو اجاگر کریں تاکہ لوگ ان کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔ ان مساجد کو سیاحتی مراکز کے طور پر بھی استعمال کریں تاکہ حکومت اور عوام دونوں ان کی حفاظت میں دلچسپی لیں۔
دعا اور ایمان: آخر میں سب سے اہم چیز دعا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہماری مساجد کی حفاظت فرمائے اور ہمیں ان کے تحفظ کے لیے صحیح سمت میں عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔ مساجد کو صرف عبادت کے مراکز تک محدود نہ رکھیں بلکہ انہیں معاشرتی اصلاح اور اتحاد کا ذریعہ بنائیں۔ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے مساجد کو آباد کریں اور ان کی عظمت کو بحال کریں۔
مساجد ہماری میراث ہیں، ہمارے ایمان کی پہچان ہیں۔ یہ وہ مقدس مقامات ہیں جہاں سے ہماری تہذیب نے جنم لیا۔ آج اگر ہم مساجد کو نظرانداز کریں گے تو ہماری شناخت مٹ جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مساجد کو آباد کرنے کا حکم دیا ہے، ان کی حفاظت کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے۔ آئیے عہد کریں کہ ہم اپنی مساجد کو عبادت کے ساتھ ساتھ تعلیم، تربیت، اور سماجی بھلائی کا مرکز بنائیں گے۔ ہم ان کی عزت بحال کریں گے اور انہیں فرقہ واریت سے پاک کریں گے۔ یاد رکھیں، مساجد کی خدمت اللہ کی خدمت ہے۔ "اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم مساجد کو ان کی اصل حیثیت بحال کر سکیں اور انہیں اپنے دلوں میں جگہ دے سکیں۔” آمین۔