عصر حاضر میں خواتین کو درپیش مسائل اور تعلیمات نبوی ﷺ
عصر حاضر میں خواتین کو درپیش مسائل اور تعلیمات نبوی ﷺ
از: ڈاکٹر سلیم انصاری
جھاپا، نیپال
_________________
عصر حاضر میں خواتین کو درپیش مسائل پیچیدہ اور ہمہ جہت ہیں، جو مختلف تہذیبی، سماجی، اور اقتصادی پہلوؤں کو محیط ہیں۔ ان مسائل میں اسلام کے عطا کردہ حقوق سے لاعلمی، سماجی رسم و رواج کی بیڑیاں، اور جدید تحریک نسواں کے منفی اثرات شامل ہیں۔ یہ مسائل صرف مسلم خواتین تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر میں خواتین کسی نہ کسی شکل میں امتیاز، استحصال، اور نابرابری کا شکار ہیں۔ ایسے میں اسلام کی تعلیمات اور نبی اکرم ﷺ کے اسوہ حسنہ خواتین کے حقوق کی بحالی اور ان کے وقار کو بلند کرنے کے لیے مشعل راہ ہیں۔
اس مضمون میں ہم اسلام سے پہلے خواتین کی حالتِ زار پر بات کریں گے، جہاں وہ معاشرتی ظلم و ستم اور استحصال کا شکار تھیں۔ اس کے ساتھ ہی ہم عصر حاضر میں خواتین کی معاشرتی حیثیت سے متعلق چیلنجز پر روشنی ڈالیں گے، جن میں وراثت کے حقوق، تعلیم، اور معاشی خودمختاری جیسے مسائل شامل ہیں۔ ہم اسلام میں خواتین کے حقوق کی بنیاد پر بھی گفتگو کریں گے، جہاں دینِ اسلام نے انہیں عزت، تحفظ، اور مساوی حقوق دیے۔ مزید برآں، عصر حاضر کے ان چیلنجز کے حل کے لیے اسلام کی جامع رہنمائی کو بیان کیا جائے گا اور آخر میں اس بات پر زور دیا جائے گا کہ اسلامی تعلیمات کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے تاکہ خواتین کو وہ مقام مل سکے جو انہیں دینِ اسلام نے عطا کیا ہے۔
قبل از اسلام خواتین کی حالت
اسلام سے قبل خواتین معاشرتی ظلم، استحصال، اور ذلت کا شکار تھیں۔ عرب معاشرہ جہالت اور پسماندگی کی تصویر پیش کر رہا تھا، جہاں بیٹیوں کو زندہ دفن کرنا معمول کی بات تھی۔ خواتین کو وراثت میں کوئی حصہ نہیں دیا جاتا تھا، اور انہیں محض ایک سامان کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ اس پس منظر میں دینِ اسلام نے خواتین کے انسانی حقوق کو بحال کیا اور ان کی عزت و تکریم کا نظام قائم کیا۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: "میں تمہارے کسی بھی عمل کو ضائع نہیں کرتا، خواہ وہ مرد کرے یا عورت۔” (سورۂ آل عمران: 195) یہ آیت اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ اسلام مرد اور عورت کے اعمال اور ان کی محنت کو مساوی اہمیت دیتا ہے، جو اس دور میں ایک انقلابی تصور تھا۔
خواتین کی معاشرتی حیثیت سے متعلق عصری چیلنجز
اسلام نے مرد و عورت کو برابر انسانی حقوق عطا کیے ہیں اور خواتین کو عزت، تحفظ، اور آزادی فراہم کی ہے۔ تاہم، موجودہ دور میں خواتین کو اپنی معاشرتی حیثیت اور حقوق کے حوالے سے مختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔ ذیل میں ان چیلنجز کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور ان کا اسلامی نقطہ نظر سے حل پیش کیا گیا ہے۔
بیٹی کی حیثیت اور معاشرتی رویہ: اسلام میں بیٹی کو اللہ کی رحمت قرار دیا گیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک کو جنت کے حصول کا ذریعہ بتایا ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے: "جس کے پاس تین لڑکیاں، یا تین بہنیں، یا دو لڑکیاں، یا دو بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور ان کے حقوق کے سلسلے میں اللہ سے ڈرے تو اس کے لیے جنت ہے۔”(ترمذی) لیکن آج کے دور میں، بیٹی کی پیدائش کو کئی معاشرتی طبقات میں بدقسمتی سمجھا جاتا ہے۔ کئی گھرانوں میں لڑکیوں کے ساتھ ناانصافی کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے، ان کی ضروریات کو نظر انداز کیا جاتا ہے، اور ان کی پیدائش پر افسوس ظاہر کیا جاتا ہے۔ یہ رجحان اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے، جو عورت کو عزت اور مقام دینے پر زور دیتی ہیں۔
خواتین کی وراثت کے حقوق: اسلام نے خواتین کے لیے وراثت کا ایک واضح اور عادلانہ نظام مقرر کیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: "ماں باپ اور رشتے داروں کے ترکے میں لڑکوں کا حصہ ہے اور لڑکیوں کا بھی حصہ ہے، یہ حصے خدا کی طرف سے مقررہ ہیں۔” (النساء: 7) تاہم، آج کے دور میں خواتین کو وراثت سے محروم رکھنے کا رجحان عام ہو گیا ہے۔ بھائی بہنوں کے حصے کو ہڑپ کر لیتے ہیں، اور بہنوں کو ان کے حق کا مطالبہ کرنے پر سماجی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف غیر اسلامی ہے بلکہ انصاف کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔
نکاح اور خلع کا حق: اسلام نے خواتین کو نکاح کے بعد خلع لینے کا حق عطا کیا ہے، تاکہ اگر شوہر ان کے حقوق پورے نہ کرے تو وہ آزادی حاصل کر سکیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: "اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود قائم نہ رکھ سکیں گے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی کچھ بدلہ دے کر آزادی حاصل کر لے۔” (البقرہ: 229) موجودہ دور میں خلع لینے والی خواتین کو معیوب سمجھا جاتا ہے اور ان پر بدنامی کا داغ لگا دیا جاتا ہے۔ یہ رویہ خواتین کے حقِ آزادی کو مجروح کرتا ہے اور اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
خواتین کی تعلیم: اسلام نے علم کو مرد و عورت دونوں کے لیے فرض قرار دیا ہے۔ قرآن کی پہلی وحی تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے: "پڑھو اپنے رب کے نام سے، جس نے پیدا کیا۔” (العلق: 1) رسول اللہ ﷺ نے خواتین کی تعلیم پر خصوصی زور دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "جس نے اپنی بیٹی کو تعلیم دی اور اچھی تربیت دی، وہ جنت میں دوہرا اجر پائے گا۔” (بخاری) بدقسمتی سے، آج بھی کئی خاندان خواتین کی تعلیم کو غیر ضروری سمجھتے ہیں اور ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ تعلیم یافتہ خواتین نہ صرف اپنے خاندان بلکہ معاشرے کے لیے بھی ایک مضبوط ستون کی حیثیت رکھتی ہیں۔
روزگار کے مواقع اور ان کا حق: اسلام نے اگرچہ معاش کی بنیادی ذمہ داری مردوں کو دی ہے، لیکن ضرورت پڑنے پر خواتین کو معاشی سرگرمیوں سے منع نہیں کیا۔ مسلم خواتین کی ایک بڑی تعداد معاشی طور پر خود مختار نہیں ہے اور زیادہ تر اپنے والد، بھائی، شوہر یا بیٹے پر انحصار کرتی ہیں۔ موجودہ دور میں گھریلو صنعتوں کے مواقع بھی کم ہو چکے ہیں، جس کے باعث کئی خواتین بے روزگاری کا شکار ہیں۔ اسلام نے خواتین کو معاشی حقوق اور مالی معاملات میں آزادی فراہم کی ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، جو نبی اکرم ﷺ کی پہلی زوجہ تھیں، ایک کامیاب تاجرہ کی روشن مثال ہیں۔ مسلم معاشرے کو چاہیے کہ وہ خواتین کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرے، ان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھائے، اور ایسا ماحول فراہم کرے جہاں وہ اعتماد اور تحفظ کے ساتھ کام کر سکیں۔
اسلام میں خواتین کے حقوق کی بنیاد
اسلام نے خواتین کے لیے جو حقوق مقرر کیے وہ انسانیت کی تاریخ میں بے مثال ہیں۔ انہیں وراثت میں حصہ دیا گیا، تعلیم حاصل کرنے کا حق دیا گیا، اور انہیں یہ آزادی عطا کی گئی کہ وہ اپنی مرضی سے زندگی کے فیصلے کر سکیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔” (ابن ماجہ) یہ حدیث خواتین اور مردوں دونوں کو علم کے حصول کی ترغیب دیتی ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام خواتین کی ذہنی اور سماجی ترقی کو کتنا اہم سمجھتا ہے۔
عصر حاضر کے چیلنجز اور اسلام کی رہنمائی
آج خواتین کو سماجی، تعلیمی، اور اقتصادی میدان میں مختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان میں سے اکثر چیلنجز اسلام کی بنیادی تعلیمات کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہیں۔ مثلاً، خواتین کو وراثت سے محروم رکھنا یا ان کی تعلیم کو محدود کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ جدید تحریک نسواں بھی کئی مرتبہ ایسے تصورات کو فروغ دیتی ہے جو خاندانی نظام کو کمزور کرتے ہیں۔ اسلام خواتین کو ایسا مقام دیتا ہے جو عزت، وقار، اور حقوق و فرائض میں توازن پر مبنی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔” (سورۂ التوبہ: 71) یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ اسلام خواتین اور مردوں کو زندگی کے ہر میدان میں شراکت داری کی تعلیم دیتا ہے۔
اسلام نے خواتین کو وہ تمام حقوق عطا کیے ہیں جو انہیں عزت، وقار، اور تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ قرآن اور سنت کی روشنی میں ان حقوق کا عملی نفاذ ایک بہترین اسلامی معاشرے کی بنیاد ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ اس سلسلے میں ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے، جہاں خواتین کو عزت و تکریم اور ان کے حقوق کی حفاظت کا کامل نمونہ ملتا ہے۔ تاہم، ان تعلیمات کو اپنی زندگی میں اپنانے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
نبی اکرم ﷺ کا عملی نمونہ
نبی اکرم ﷺ نے خواتین کی عزت و تکریم کا عملی مظاہرہ کر کے ایک مثال قائم کی۔ آپ ﷺ اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے خاص محبت کرتے تھے، اور ان کے لیے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "نبی اکرم ﷺ کا اخلاق قرآن تھا۔”
(مسند احمد) آپ ﷺ نے خواتین کے ساتھ حسن سلوک کو ایمان کا حصہ قرار دیا اور فرمایا: "تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ اچھا ہے، اور میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ سب سے بہتر ہوں۔” (ترمذی) یہ تعلیمات مردوں کو خواتین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق کا احترام کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔
نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ خواتین کے ساتھ احترام، محبت، اور مساوات کا عملی نمونہ ہے۔ آپ ﷺ کے اقوال و افعال نے خواتین کو ان کے حقوق دیے اور ان کی عزت کو بلند کیا۔ ذیل میں خواتین کے ساتھ آپ ﷺ کے رویے کی مختلف مثالیں پیش کی گئی ہیں:
والدہ کے ساتھ سلوک: نبی اکرم ﷺ کی اپنی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا بچپن میں وفات پا گئیں، لیکن رضاعی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ آپ ﷺ نے جو محبت اور شفقت کا مظاہرہ کیا، وہ ایک مثالی عمل تھا۔ جب وہ آپ ﷺ سے ملاقات کے لیے آئیں تو آپ ﷺ نے ان کے لیے اپنی چادر بچھائی، احترام سے ان کا استقبال کیا، اور ان کی عزت و تکریم کی۔ اس رویے نے یہ واضح کر دیا کہ اسلام میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا کیا مقام ہے، خواہ وہ حیاتی ہوں یا رضاعی۔
بہن کے ساتھ سلوک: جنگ حنین کے قیدیوں میں نبی اکرم ﷺ کی رضاعی بہن حضرت شیما رضی اللہ عنہا بھی شامل تھیں۔ جب انہیں آپ ﷺ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے انہیں پہچان لیا اور ان کے ساتھ نہایت محبت اور شفقت سے پیش آئے۔ آپ ﷺ نے ان کے لیے قیمتی تحائف دیے اور ان کی خواہش پر انہیں ان کے قبیلے میں واپس بھیج دیا۔ اس واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ رشتوں کا احترام اور ان کی عزت اسلام کی تعلیمات کا اہم حصہ ہے۔
ازواج مطہرات کے ساتھ سلوک: نبی اکرم ﷺ نے اپنی بیویوں کے ساتھ بہترین برتاؤ کیا اور ان کے ساتھ محبت، عزت، اور صبر کا مظاہرہ کیا۔ آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ میں ازدواجی زندگی کی ایک اعلیٰ مثال موجود ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ بہتر ہے، اور میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ سب سے بہتر ہوں۔” (ترمذی) آپ ﷺ ازواجِ مطہرات کے جذبات کا خیال رکھتے، ان کے سوالات اور مسائل کو سنتے، اور ان کی ضروریات کو پورا کرتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے محبت اور ان کے ساتھ کھیلنے کے واقعات آپ ﷺ کی ازدواجی زندگی کے حسن کی بہترین مثال ہیں۔
بیٹیوں کے ساتھ سلوک: نبی اکرم ﷺ بیٹیوں کے ساتھ محبت اور شفقت کا بے مثال مظاہرہ کرتے تھے، جس سے اس وقت کے عرب معاشرے میں خواتین کی عزت کا تصور یکسر بدل گیا۔ آپ ﷺ اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے استقبال کے لیے کھڑے ہوتے، انہیں بوسہ دیتے، اور اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ یہ عمل اس وقت کے جاہلانہ معاشرتی رویوں کے خلاف تھا، جہاں بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ آپ ﷺ نے اپنی چاروں بیٹیوں کی پرورش کی اور ان کے حقوق کی حفاظت کی، جس سے دنیا کو یہ پیغام ملا کہ بیٹیاں بوجھ نہیں بلکہ رحمت ہیں۔
دیگر خواتین کے ساتھ رویہ: نبی اکرم ﷺ نے معاشرے کی عام خواتین، غلاموں، اور باندیوں کے ساتھ بھی عزت اور شفقت کا رویہ اپنایا۔ مدینہ کی باندیاں اگر آپ ﷺ سے مدد طلب کرتیں تو آپ ﷺ ان کے ساتھ چل پڑتے اور ان کا کام کرتے۔ اس طرزِ عمل نے خواتین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی مدد کو معاشرتی اصول بنایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "کمزوروں کے ساتھ مہربانی کرو، کیونکہ تمہیں رزق اور مدد انہی کے سبب ملتی ہے۔” (ابوداؤد)
خواتین کی معاشرتی حیثیت کی بہتری کا اسلامی حل
خواتین کی معاشرتی حیثیت کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کو اپنی زندگیوں میں نافذ کریں۔ نبی اکرم ﷺ نے خواتین کے ساتھ حسنِ سلوک کا جو عملی نمونہ پیش کیا، وہ آج کے معاشرتی مسائل کا بہترین حل ہے۔ اسلام نے خواتین کو عزت، تحفظ، اور ان کے جائز حقوق عطا کیے ہیں، جنہیں عملی طور پر اپنانا ایک متوازن اور انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل کے لیے لازمی ہے۔ ہمیں بیٹی کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کرکے اور انہیں اللہ کی رحمت سمجھتے ہوئے سماجی رویوں کو تبدیل کرنا ہوگا، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ محبت و شفقت کا مظاہرہ کیا۔
اسلام خواتین کو ان کے وراثتی حقوق دیتا ہے، لیکن بدقسمتی سے آج بھی بہت سی خواتین ان حقوق سے محروم ہیں۔ ان کے وراثتی حقوق کو یقینی بنانے کے لیے سماجی اور قانونی سطح پر شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح، خلع کے معاملے میں عورتوں کو شرمندہ کرنے کے بجائے ان کے فیصلوں کا احترام کرنا چاہیے، کیونکہ یہ ان کا اسلامی اور قانونی حق ہے۔ خواتین کی تعلیم کو روکنے کی بجائے اسے فروغ دینا چاہیے، کیونکہ علم حاصل کرنا مرد و عورت دونوں پر فرض ہے۔ ایک تعلیم یافتہ عورت نہ صرف اپنے گھر بلکہ پورے معاشرے کو بہتر بنا سکتی ہے۔ معاشی مواقع کی فراہمی خواتین کے لیے ناگزیر ہے۔ اسلام نے خواتین کو محنت اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کا حق دیا ہے، اور ہمیں اس حق کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں معاشی طور پر مضبوط کرنے کے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر اسلامی تعلیمات کو عملی جامہ پہنانے سے خواتین کو ان کا جائز مقام دیا جا سکتا ہے، جو نہ صرف ایک بہتر سماج کی تشکیل کا باعث بنے گا بلکہ اسلامی اصولوں پر قائم ایک خوشحال اور متوازن معاشرے کی بنیاد بھی فراہم کرے گا۔