Site icon

فسادات میں مسلمانوں کا جانی و مالی نقصان اور بچاؤ کے لیے مؤثر حکمت عملی

فسادات میں مسلمانوں کا جانی و مالی نقصان اور بچاؤ کے لیے مؤثر حکمت عملی

از: رضی احمد مصباحی
__________________

ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ فسادات کی تاریخ طویل اور دردناک ہے۔ گزشتہ ایک صدی سے، مسلمان کو بحثیت قوم بار بار فسادات کا سامنا کرنا پڑا ہے، جن میں انہیں شدید جانی و مالی نقصان کا بھی سامنا رہا ہے ۔ ان فسادات میں مسلمانوں کی دکانیں، کاروبار، گھر، اور ذاتی املاک تباہ کی جاتی ہیں، اور اسی کے لیے فسادات کرائے بھی جاتے ہیں ۔ ان حملوں کا مقصد مسلمانوں کو کمزور اور خوف زدہ کرنا ہوتا ہے، اور بعض اوقات ان کا مقصد معاشرتی تفریق کو ہوا دینا بھی ہوتا ہے۔ خواتین اور بچوں کو بھی ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جس سے مسلمانوں کی عزت اور معاشرتی امن کو نقصان پہنچتا ہے۔

اس مضمون میں فسادات کے تاریخی پس منظر کا جائزہ لیا جائے گا اور موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لیے کچھ مؤثر حکمت عملیاں تجویز کی جائیں گی جنہیں اختیار کر کے ان مظالم سے بچنے کی کوشش کی جاسکتی ہے

ہندوستان میں فسادات کا تاریخی پس منظر

ہندوستان میں مذہبی فسادات کی تاریخ میں انگریز دور سے لے کر آزادی اور اس کے بعد کے ادوار شامل ہیں۔ 1930 کی دہائی میں، انگریزوں نے "پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو” کی پالیسی اپنائی، جس کے تحت انہوں نے ہندو اور مسلمان کمیونٹی کے درمیان اختلافات کو فروغ دیا۔ 1947 کی تقسیم کے وقت، پورے برصغیر میں بدترین فسادات پھوٹے، جن میں لاکھوں افراد ہلاک اور بے گھر ہوئے۔

آزادی کے بعد بھی، 1969 کا احمد آباد فساد، 1984 کا بھاگلپور فساد، 1992 کا بابری مسجد سانحہ، اور 2002 کا گجرات فساد جیسے واقعات رونما ہوئے، جن میں مسلمانوں کو ناقابلِ بیان جانی اور مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ ان فسادات کے دوران، مسلمانوں کی املاک کو نشانہ بنایا گیا، ان کے کاروبار جلائے گئے، اور بہت سی خواتین کو ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

موجودہ دور میں فسادات کے اسباب

آج بھی ہماریے ملک میں فسادات ہوتے ہیں اور فسادات کی مختلف وجوہات ہیں ۔

بعض گروہ مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرتے ہیں اور فسادات کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، فسادات کی فائلس رپورٹ یہ کہتی ہے کہ بہت سے فسادات ذاتی بغض وعناد کی وجہ سے ہوئے

مسلمانوں کو سماجی اور معاشی طور پر الگ تھلگ رکھنے کے لیے بعض عناصر فسادات کا سہارا لیتے ہیں۔

کچھ شدت پسند گروہوں کی طرف سے نفرت انگیز بیانات اور تقریبات فسادات کی آگ کو ہوا دیتے ہیں۔ در اصل یہ بھی ایک قسم کی تجارت ہے ۔۔ بہت سے ناکارہ قسم کے افراد اس طرح سے اپنی دوکان چلا لیتے ہیں ۔۔انہیں پیسہ ، شہرت اور عزت سبھی کچھ اس ہتھکنڈیے سے مل جاتا ہے

فسادات سے بچاؤ کے لیے حکمت عملی

فسادات کے دوران محفوظ رہنے کے لیے مسلمانوں کو متعدد سطحوں پر حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے، جس میں سماجی، معاشرتی، تعلیمی اور مالیاتی سطح پر اقدامات شامل ہیں۔

فسادات کے خطرے سے بچنے کے لیے مسلمانوں کو اپنی قوم کے اندر بحیثیت قوم اتحاد اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینا از حد ضروری ہے کیونکہ جب کہیں فساد ہوتا ہے تو عوامی سطح پر پتہ نہیں کیسے اور کن ذرائع سے یہ بات بھی گردش میں جاتی ہے کہ ” اریے وہ لوگ فلاں فرقے سے تعلق رکھتے ہیں ”

قومی تعاون اگر ہندوستانی مسلمان اپنی قوم کے افراد کے ساتھ مضبوط رشتہ بنائیں اور ایک دوسریے کی مدد کے لیے تیار رہیں تو وہ ایک دوسرے کی حفاظت اور مدد کر سکتے ہیں۔

مسلمان اپنے غیر مسلم پڑوسیوں کے ساتھ بھی اچھے تعلقات قائم کریں، تاکہ فسادات کی صورت میں وہ ان کے لیے مددگار ثابت ہو سکیں ، لیکن نفرت کی بہت زیادہ پھیل چکی ہے اس لیے ہر پڑوسی پر بھی ان حالات میں بھروسہ کرنا مناسب نہیں ہے ، اکثر دیکھا جاتا ہے یہی پڑوسی باہر سے لوگوں کو بلا کر مسلمانوں پر حملہ کراتے ہیں اور بعد میں گھڑیالی آنسو بھی بہاتے ہیں ۔

مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ سماجی انجمنیں اور کمیٹیاں قائم کریں جو ان کے مسائل حل کر سکیں اور فسادات کے دوران فوری اقدامات کر سکیں۔ علاقائی کمیٹیاں ہوں ، ان کمیٹیوں کو سیاست اور شہرت سے دور رکھا جائے ۔ ایسی کمیٹیوں میں بوڑھے ،جوان پڑھے لکھے اور دینی رہنما قسم کے لوگ شامل کیے جائیں

تعلیم قوموں کو نہ صرف شعور دیتی ہے بلکہ انہیں خود اعتمادی اور اپنی حفاظت کے قابل بھی بناتی ہے۔

مسلمانوں کو فسادات سے بچاؤ اور حالات کا سامنا کرنے کی تربیت دی جانی چاہیے۔ ہر علاقے میں خاموشی کے ساتھ مسلم نوجوان بچے اور بچیوں کی اس نہیں پر تربیت کی جائے اور ان تربیتی امور کو پوشیدہ رکھا جائے ۔

مسلمانوں کو اپنے قانونی حقوق کے بارے میں آگاہی ہونی چاہیے تاکہ وہ فسادات کے دوران قانونی مدد لے سکیں اور مجرموں کو عدالت میں لے جا سکیں۔

ان تواریخ اور علاقاجات میں کیمرہ کے ذریعہ پوریے علاقے کی ویڈیو گرافی اور فوٹو گرافی کرنا بھی مسلمان اپنی طرف سے ضروری کردیں اور لائیو چلادیں ۔

فسادات کے دوران معاشی نقصان سے بچنے کے لیے مسلمانوں کو مالیاتی خود کفالت پر توجہ دینی چاہیے:

کاروبار کی متنوع حکمت عملی: مسلمانوں کو اپنے کاروبار کو متنوع بنانا چاہیے تاکہ ایک کاروبار کے متاثر ہونے کی صورت میں دوسرے ذرائع سے آمدنی جاری رہ سکے۔

کاروباری اور ذاتی املاک کے انشورنس کروانا بھی ایک اہم قدم ہے۔ اس سے نقصان کی صورت میں مالی تعاون حاصل ہو سکتا ہے۔ چونکہ فسادات میں سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے اور سرکاری عہدہ کے بعض متعصب افیسرز بھی شامل ہوتے ہیں اس لیے ان کو مسلمانوں کی دوکان ، کاروبار اور کارخانوں کی تفصیلات سے آگاہ کردیا جاتا ہے ۔

سرمایہ کاری کے ایسے ذرائع اختیار کیے جائیں جو فسادات کے دوران کم سے کم متاثر ہوں۔

انسانی حقوق کے ادارے اور تنظیمیں فسادات کے دوران اور بعد میں قانونی و اخلاقی مدد فراہم کرتی ہیں۔

NGOs اور انسانی حقوق کے ادارے: مسلمانوں کو مختلف قومی اور بین الاقوامی این جی اوز کے ساتھ رابطے میں رہنا چاہیے جو فسادات کے دوران ان کی مدد کر سکتی ہیں۔

عدالت سے رجوع کرنا: مسلمانوں کو فسادات کے دوران یا بعد میں عدالت سے رجوع کرنا چاہیے اور مجرموں کو سزا دلوانے کے لیے قانونی کارروائی کرنی چاہیے۔

فسادات سے بچاؤ کے عملی اقدامات

فسادات کے دوران فوری بچاؤ کے لیے چند عملی اقدامات بھی اختیار کیے جا سکتے ہیں:

مسلمانوں کو چاہیے کہ فسادات کے دوران محفوظ مقامات کی پہلے سے منصوبہ بندی کر کے رکھیں۔

مسلمان نوجوانوں کو خود دفاع کی تربیت دینی چاہیے تاکہ وہ ہنگامی حالات میں اپنی حفاظت کر سکیں۔

اپنے گھروں اور دکانوں میں سیکیورٹی کیمرے لگانا، دروازوں اور کھڑکیوں کو مضبوط بنانا بھی ضروری ہے اسی کے ساتھ دفاع کے لیے کچھ ضروری چیزوں کا پاس رکھنا بھی بے حد ضروری ہے ۔

میڈیا اور سوشل میڈیا کا مثبت استعمال مسلمانوں کو اپنی آواز بلند کرنے اور اپنے مسائل لوگوں تک پہنچانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ نفرت انگیز بیانات یا مواد سے دور رہیں اور ایسی پوسٹس سے بچیں جو فسادات کو ہوا دے سکتی ہیں ، ایسے عناصر کو بھی اپنے معاشرے سے دور کریں جو اپنے مفاد کے لیے قوم کی بلی کا بکرا بناتے ہیں ۔

اگر فسادات ہوتے ہیں تو سوشل میڈیا کے ذریعے حقائق کو صحیح طور پر لوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے تاکہ انصاف کی فراہمی میں آسانی ہو۔

مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے پرامن مظاہروں کا سہارا لیں اور قانونی طریقوں سے اپنی بات سامنے رکھیں۔

اپنے بچوں کی تعلیم پر مکمل توجہ دیں ، صحت ، پولس اور انتظامی امور کے عہدوں تک اپنے بچوں کو لانے کی کوشش کریں ۔۔۔کوشش ہوکہ ملک کی پولس انتظامیہ میں اپنے بچے زیادہ سے زیادہ شامل کیے جائیں ۔

ماہرین کی آرا

ماہرین کا کہنا ہے کہ فسادات میں بچاؤ کے لیے مسلمانوں کو اپنے سماجی اور قانونی حقوق سے باخبر رہنا چاہیے۔

ایک ماہر قانون کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو قانون کا سہارا لے کر اپنی حفاظت کرنی چاہیے۔ قانون سے واقفیت اور قانونی تنظیموں سے رابطہ رکھنا فسادات میں ان کی حفاظت میں معاون ہوتا ہے ۔

سماجی علوم کے ایک پروفیسر کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو اپنے علاقے کے غیر مسلم افراد کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے چاہئیں تاکہ ان کے ساتھ ہم آہنگی بڑھ سکے۔

فسادات کے دوران مسلمانوں کو جانی و مالی نقصان سے بچنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اتحاد، تعلیم، معاشی خود کفالت، قانونی آگاہی، اور سماجی تعلقات کو مضبوط بنانے کے ذریعے مسلمان اپنی حفاظت اور بقا کو یقینی بنا سکتے ہیں۔

ہندوستان کی تاریخ میں مسلمانوں نے ہمیشہ امن، بھائی چارے اور رواداری کی بات کی ہے۔ موجودہ حالات میں بھی، یہ بات ضروری ہے کہ مسلمان امن و سکون کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے حقوق کی حفاظت کریں۔ اگر مسلمان بروقت اور موثر حکمت عملی اپنائیں تو نہ صرف وہ فسادات کے مظالم سے محفوظ رہ سکتے ہیں بلکہ ایک مضبوط اور باوقار کمیونٹی کی شکل میں ابھر سکتے ہیں۔

Exit mobile version