مشکل حالات سے مومن کو گھبرانا نہیں چاہیے
از:- محمد قمر الزماں ندوی
استاذ/ مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ ________________
یہ حقیقت ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں ایک طرح کی مایوسی, بے چینی اور ناامیدی دکھ رہی ہے ۔ موجودہ حالات سے اور حکومت و عدلیہ کے روئیے سے وہ فطری طور پر احساس کمتری اور احساس کہتری کا شکار ہوگئے ہیں ۔ بعض اہل علم اور دانشوروں کی طرف سے ایسے بیانات آتے رہتے ہیں کہ گویا وہ اس ملک میں ہمت اور حوصلہ ہار چکے ہیں اور انہیں مستقبل بالکل مایوس،تاریک اور اندھیرا نظر آرہا ہے ۔ انہیں ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے بہتر مستقبل کی اب کوئی امید نہیں ہے ۔ ان کے بیانات اور تقریروں سے صاف محسوس ہو رہا ہے کہ وہ تھک ہار چکے ہیں اور مایوسی کے شکار ہوگئے ہیں ۔ میں سب سے پہلے اس چیز کی جانب اشارہ کردوں کہ مسلمانوں کو ناامید و مایوس ہونے کی قطعا ضرورت نہیں ہے ۔ انہیں احساس شکست اور احساس کمتری سے اپنے آپ کو باہر نکالنا ہوگا۔
قرآن و حدیث اور سیر و تاریخ کے مطالعہ سے سبق ملتا ہے کہ داعی،قائد اور رہبر و رہنما کو کبھی مایوس اور شکت خوردہ نہیں ہونا چاہیے ۔ داعی کبھی مایوسی اور ناامیدی کی بات نہیں کرتا ۔ انبیاء کرام علیہم السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی، ان کی دعوت، محنت، عزیمت، استقامت ،یقین و ایمان اور حوصلہ ہمارے لئے نمونہ اور آئڈیل ہونا چاہیے ۔ موجودہ حالات میں ہم مسلمانوں نے جس طرح صبر اور امن کی راہ کو اپنایا ہے اور ملک کی سالمیت اور بقا کی لیے اپنے جذبات کو مارا ہے۔ہمیں امید ہے بلکہ یقین ہے کہ اب ہندوستان میں مسلمانوں کے دن اور حالات بدلیں گے اور برداران وطن بھی اسلام اور مسلمانوں کے تئیں اپنے رویئے اور نظریات و خیالات میں تبدیلی لائیں گے، اور دین اسلام کو اور اس کے پیام امن و سلامتی اور رواداری کو سمجھنے کی کوشش کریں گے ۔ مجھے تو ایسے حالات اور قرائن نظر آرہے ہیں کہ اب ہندوستان میں دعوت کی راہیں مزید ہموار ہوں گی اور نفرت و تعصب اور تشدد و تنگ نظری کا خاتمہ ہوگا ۔ ملک شام کی زندہ اور تازہ مثال ہمارے سامنے ہے کہ شام میں صبح ہوچکی ہے ، ظلم و تعدی اور استبداد کا دور ختم ہوچکا ہے ، ظالم اپنے انجام تک پہنچ چکا ہے اور جلد ہی وہاں ایک امن و امان والی حکومت قائم ہونے والی ہے ،جو لوگ مصائب و مشکلات سے دو چار تھے ،جیلوں کی سلاخوں میں تھے، ملک بدر ہوگئے تھے وہ سب آج ٹھنڈی سانس لینے لگے ہیں، آج وہاں جشن کا ماحول ہے ، جو لوگ برسوں سے سلاخوں کے پیچھے تھے آج وہ اپنے گھروں کو پہنچ چکے ہیں ، امتحان اور آزمائش کی گھڑی اب ختم ہوچکی ہے۔
دوستو!!!!
ان حالات میں ہم مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ ہم مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی اور مدنی زندگی کا مطالعہ بنظر غائر کریں اور اس کے مطابق اپنی اور قوم کی زندگی کو ڈھالنے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کریں ۔اس سے زیادہ مشکل اور دشوار حالات مختلف زمانے میں مسلمانوں پر آچکے ہیں، لیکن مسلمانوں نے ان حالات کو برداشت کیا اور ان سے نبرد آزما ہوکر حالات کو اپنے موافق کرلیا ۔ تاتاریوں نے کس قدر ظلم ڈھائے ۔ کس کس طرح سے مسلمانوں کو تختئہ مشق بنایا ۔ کس طرح ان پر ستم ڈھائے اور چیرہ دستی کی؟ لیکن اللہ تعالی نے مسلمانوں کے صبر و استقامت پر یہ انعام دیا اور حالات ایسے بدل دیا کہ وہی تاتاری جو مسلمانوں کے جانی دشمن اور خون کے پیاسے تھے جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے اور مسلمان ان کی نظر میں سب سے زیادہ محبوب و مقبول ہوگئے۔
ہم صرف حالات کا رونا روتے رہیں ،اپنی مظلومیت کی داستان بیان کرتے رہیں یہ عقل و شعور اور دانشمندی کی بات نہیں، بلکہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے مناسب حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔اس کے لئے جمہوری انداز میں اور آئین اور دستور کی روشنی میں منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
موجودہ مشکل حالات میں مسلمانوں کو مناسب حکمت عملی اور منصوبہ بندی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں ماننا پڑے گا اور اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ دنیا کا کوئی منصوبہ کامیابی سے اسی وقت ہمکنار ہوسکتا ہے جب اس کے حصول کے لیے مناسب حکمت عملی اپنائی جائے ۔ جو شخص یا جماعت بھی حکمت اور مصلحت سے صرف نظر کرکے جد و جہد کرتی ہے، وہ خواہ کتنا ہی نیک اور صالح مقصد لے کر اٹھے اسے اپنی منزل تک رسائی حاصل نہیں ہوسکتی ۔ کامیابی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ہدف طے کیا جائے منزل مقصود مقرر کی جائے اور پھر اس کے حصول کے لیے موثر اور مفید تدبیر اپنائی جائے ۔ صرف جوش میں آنے اور جذبات میں بہنے سے کبھی انسان کو کامیابی نہیں ملتی ۔ اگر سنجیدگی سے حالات کے تدارک کے لئے سوچا جائے اور اور ہوش و خرد سے کام لیا جائے تو پھر ایسا نتیجہ سامنے آئے گا کہ خود آدمی حیران و ششدر رہ جائے گا ۔ خاص طور پر جب مقابلہ ایسے کھلے دشمن سے ہو جو اپنی شاطرانہ اور عیارانہ چالوں میں مشہور ہو تو اس وقت مناسب اور صحیح حکمت عملی کے انتخاب کا مرحلہ سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔ قرآن کریم نے اسی بات کو اصولی انداز میں اس طرح بیان کیا ہے :
*ولا تستوی الحسنة ولا السيئة ادفع بالتی ھی أحسن فإذا الذي بینک و بينه عداوة فکانه ولی حمیم، و ما یلقاھا الا الذین صبروا، وما یلقاھا الا ذو حظ عظیم* (حم سجدہ ۲۴/ ۲۵)
اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی ،آپ نیک برتاؤ سے (بدی) کو ٹال دیا کیجئے، پھر یکایک آپ میں اور جس شخص میں عداوت تھی وہ ایسا ہوجائے گا جیسے کوئ دلی دوست ہوتا ہے اور یہ بات انہیں لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو بڑے مستقل مزاج ہوتے ہیں اور یہ بات اسی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑا صاحب نصیب ہوتا ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہ مکی زندگی ہو یا مدنی زندگی اس میں مناسب حکمت عملی، تدبیر اور موقع و محل کے اعتبار سے مناسب فیصلہ لینے کی جابجا مثالیں ملتی ہیں ۔ جس سے روشنی لے کر اور جس کو آئڈیل بنا کر ملت اسلامیہ ہر نازک موڑ پر صحیح رہنمائی حاصل کرسکتی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت و تبلیغ کی راہ میں اور خاص طور اس راہ کی دشواریوں اور مشکلات میں جن مناسب حکمت عملی کو اپنایا وہ ہم سب کے لئے ایک نمونہ، اسوہ اور آئڈیل ہے۔ آئیے قرآن و حدیث اور تاریخ کی روشنی میں آپ صلی اللہ وسلم کی حکمت عملی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
( ۱ ) *ایک جامع اور مضبوط معاہدہ جو تاریخ میں حلف الفضول کے نام مشہور ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک جب ۲۰ سال کی تھی (بعض روایت کے مطابق ۳۵ سال کی) مکہ مکرمہ میں حلف الفضول کے نام سے ایک بین القبائلی معاہدہ ہوا تھا جس معاہدہ اور پیکٹ کی شرط یہ تھی کہ جب بھی مکہ میں کسی مظلوم پر ظلم ہو گا* *کسی کا حق چھینا جائے گا یا حق تلفی کی جائے گی تو ہم سب مل کر مظلوم کا ساتھ دیں گے اور حق دار کو حق دلانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے ۔ یہ معاہدہ مکہ کے مشہور سردار عبد اللہ بن جدعان کے مکان پر ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس معاہدے میں پیش پیش تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت ملنے کے بعد اس معاہدہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے :
*لقد شھدت فی دار عبد اللہ بن جدعان حلفا لو دعیت بہ فی الاسلام لاجبت ۔تحالفوا ان ترد الفضول علی اھلھا و ان لا یعز ظالم مظلوما* ( البدایہ و النھایہ ۲/ ۶۹۶)
*میں عبد اللہ بن جدعان کے گھر میں ایک معاہدہ ( حلف الفضول ) میں شریک تھا ۔ جس کی طرف اگر مجھے اسلام کی حالت میں بلایا جائے تو اس کو قبول کروں گا ۔ ان لوگوں نے عہد کیا تھا کہ حقوق حقدار کو لوٹائیں جائیں گے اور کسی ظالم کو مظلوم پر ترجیح نہیں دی جائے گی۔
اس معاہدہ میں آپ کی شرکت اور اس کی بعد نبوی تائید سے مسلمانوں کو یہ پیغام اور رہنمائی ملتی ہے کہ جہاں ضرورت ہو وہاں مسلمانوں کو امن پسند شہری سے ملکر معاہدہ کرنا چاہیے اور جمہوری انداز سے اور اس کے حدود میں رہ کر قانون اپنے ہاتھ میں لئے بغیر ظلم و ستم اور کرپشن کے خاتمہ کے لئے کوشش کرنی چاہیے ۔ ایسے معاہدے کے لئے عوام و خواص اور خاص طور پر برادران وطن کی ذھن سازی کرنی چاہیے ۔ یہ ایک بہترین حکمت عملی ہوگی موجود حالات میں۔
(۲ ) نبوت و رسالت سے سرفراز ہونے کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خفیہ دعوت و تبلیغ کا کام شروع کیا تو ابتدائی دنوں میں خاندان کے چالیس اہم اور ذمہ دار قسم کے لوگوں کو اپنے گھر پر کھانے پر مدعو کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بہترین کھانا تیار کرانے کا حکم دیا اس بابرکت دعوت میں کھانا کھلانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے دعوت پیش کی ۔ توحید و رسالت کے مقام کو واضح کیا ۔ اس دعوت میں آپ کا سب سے سخت اور کٹر مخالف ابو لہب بھی شریک تھا ۔ اس طرز عمل سے معلوم ہوا کہ غیروں کو اپنے سے قریب کرنے کے لئے حکمت عملی کے طور پر اس طرح دعوتوں کا انتظام دعوتی نقطئہ نظر کرنا چاہیے یہ بھی ایک موثر حکمت عملی ہے ۔ یہ دعوت ہم انفرادی سطح پر کرسکتے ہیں اور اجتماعی طور پر بھی ۔ جمعیت علمائے ہند جماعت اسلامی مسلم مجلس مشاورت ملی کونسل کو اس کا خاص اہتمام کرنا چاہیے، کیونکہ ان تنظیموں کے پاس فنڈ بھی ہے ۔ یہ دعوت صرف دعوت طعام ہی نہ ہو بلکہ اس میں سنجیدہ ڈبیت اور مذاکرات ہوں، امن شانتی پریم و محبت اور انسانیت و مانوتا کی باتیں ہوں، ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے اور امن و امان اور سلامتی کے لئے ایک دوسرے سے تبادلہ خیال بھی ہو ۔
(۳) آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے اور وہاں آپ نے قیام فرمایا تو اوس و خزرج کے لوگوں سے مدینہ کی کار گزاری سنی وہاں کے جغرافیائی اور قبائلی حالات معلوم کئے ۔ یہودیوں کی شرارت اور ان کی عیاریوں سے آپ کو واقفیت ہوئی اور آپ نے محسوس کیا کہ دعوت کی راہ میں سب سے زیادہ رکاوٹیں ان یہودیوں کی طرف سے آسکتی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت دور اندیشی اور حکمت سے کام لیتے ہوئے یہ کام کیا کہ انصار مدینہ اور مہاجرین میں دینی اخوت کا رشتہ قائم فرمایا، جس سے دونوں طبقوں میں ایسا مثالی امتزاج سامنے آیا کہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ (جب کےاس پہلے اوس و خزرج کے لوگ باہم دست و گریباں تھے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے اور یہودی اس لڑائی میں ہوا دیتے اور زخم پر نمک ڈالنے کا کام کرتے تھے)۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں اور یہودی قبائل کو ملا کر ایک معاہدہ نامہ منظور کرایا جو تاریخ و سیر میں میثاق مدینہ کے نام سے مشہور ہے ۔ جس معاہدہ میں مظلوم کا ساتھ دینے اور خارجی دشمن کا مل جل مقابلہ کرنے جیسی متعدد دفعات شامل تھیں ۔ اس معاہدہ کی وجہ سے یہودیوں کی شرارتوں پر بعد میں قابو پانے اور ان سے باز پرس کرنے اور ان کی طاقت کو زیر کرنے میں سب سے زیادہ مدد ملی ۔ اگر مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ معاہدہ نہ کرتے تو یہودی تمام تر سازشیں رچانے رہتے اور کسی کو ان سے ٹکر لینے کی ہمت اور حوصلہ نہ ہوتا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حکمت عملی دور اندیشی اور تدبیر نے ان کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔ (مستفاد از سیرت ابن ہشام / لمحات فکریہ از مفتی سلمان منصور پوری)
اس معاہدہ میں یہود سے خاص طور پر امن و امان کا معاہدہ تھا اور ان کے اپنے دین و مذھب پر رہنے اور مال و جائداد کی حفاظت و بقا کا ذمہ لیا گیا تھا اور ان کے حقوق اور ذمہ داریوں کی نشاندہی کی گئی تھی ۔ اس سیاسی دستاویز کی اہمیت معلوم کرنے کے لئے جس کو ہم دنیا کا قدیم ترین باضابطہ تحریری دستور کہہ سکتے ہیں جو آج بھی مکمل شکل میں موجود ہے اور اس کے اندر گہرے سیاسی تمدنی اور جنگی مشتتملات حکمت نبوی اور ہدایت ربانی اور حالات کے متوازن جائزہ موجود ہے ۔
اس کی تفصیلات جاننے کے لیے ہمیں سیرت کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔ آج پوری دنیا میں اسٹیٹ رولس جو ہیں ان میں اس معاہدہ سے بھرپور استفادہ کیا گیا ہے اور اس کے مطابق شہری قوانین بنائے گئے ہیں اور مہاجرین کا کسی دوسرے ملک میں رہائش کے کیا اصول ہوں گے اس میں اس معاہدہ سے فائدہ اٹھایا گیا ہے ۔
___________________
میثاق مدینہ (معاہدہ مدینہ)اور اسلام کے خارجہ و داخلہ پالیسی ہی کا فیض ہے کہ بہت سے ملکوں نے اس سے استفادہ کرکے اس کی روشنی میں اپنے ملک کے قوانین کو طے کیا خاص طور پر داخلہ اور خارجہ، پالیسی کو وضع کیا۔ تمام مغربی ممالک میں مختلف مذاھب کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں ہر ایک کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہے اپنی تعلیم کے لیے اسکول بنانے اور اپنے شہری حقوق حاصل کرنے کی آزادی ہے ۔ صرف برطانیہ میں 75 سےزیادہ مذاہب کے لوگ پانے جاتے ہیں اور سب اپنے اپنے عقیدے کے مطابق اپنے بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں ان کے خلاف کبھی کوی سازش نہیں کی گی کہ ان کو زبردستی عیسائیت کی کسی شاخ سے وابستہ کیا جائے ۔ آج بھی وہ اپنے طرز پر پیدائش اور موت کے رسوم ادا کرتے ہیں اپنی صنم پرستی پر قائم ہیں ۔ مسلمان اپنی مسجدیں بناتے ہیں وعظ و نصیحت اور تقریر کی مجلسیں ہوتی ہیں ۔ حکومت وقت صرف یہی نہیں کہ ان کو عقیدہ اور خیال کی آزادی دیتی ہو بلکہ اپنے بنیادی قانون کے مطابق ہر ایک کو زندہ رہنے کا حق دیتی ہے، ہزاروں افریقن اور انڈین شرق اوسط اور شرق بعید کے باشندے علاج غذا اور تعلیم کی وہ سہولت حاصل کر رہے ہیں ، کوئ ان کی صورتیں دیکھ کر ان کے مرکز عقیدت کو جان کر ان پر حرف گیری نہیں کرتا ،شرق اوسط کے ایک بہت چھوٹے سے ملک لبنان میں عیسائیوں کے آٹھ فرقے موجود ہیں، اور سب اپنے اپنے آئین کے مطابق زندگی گزارتے آ رہے ہیں اور ان میں کبھی تصادم نہیں ہوا ۔ ملیشیا جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور جس کی حکومت مسلم حکومت شمار ہوتی ہے وہاں بے شمار مندر بھی ہیں ۔ پاٹھ شعلے بھی ہیں گردوارے بھی ہیں اور سب اپنی جگہ مطمئن ہیں ۔ تمام اسلامی ممالک میں اقلیتوں کے حقوق اور ان کے پرنسل لا کی بھرپور رعایت کی جاتی ہے ان میں کسی طرح کی مداخلت نہیں کی جاتی ۔ بدقسمتی صرف ہمارا ملک عزیز ہندوستان ہے جہاں چین کے بعد دنیا کی سب سے بڑی آبادی ہے،یہاں ایک مدت سے ایک مذھب اور ایک ذات کی حکومت کو پورے ملک کا آئین بنانا طے کرلیا ہے یہ بات اگرچہ انوکھی اور ہٹ دھرمی کی ہے مگر واقعہ ہے جس سے ہم مسلمان دو چار ہیں ۔ مسلمانوں نے اس ملک کو کبھی پردیس نہیں سمجھا اس ملک کے ذرے ذرے پر ان کا احسان ہے ۔اس کی آزادی میں ان کا خون کسی سے کم نہیں بہا یہ ملک ان کا اسی طرح ہے جیسے برادران وطن کا ۔ بعض لوگ اس کو صرف سازش سمجھتے ہیں اور مسلمانون کے خلاف جو بیج تقسیم ملک نے بوئے تھے اس کو اپنے الیکشن کے خاطر لوگ اس کی کاشت کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن اب یہ صاف ہوگیا کہ یہ سازش نہیں ہے بلکہ ٹھوس پلانگ ہے ۔ بہر حال ہم مسلمان اس ملک میں بے انصافی کی صورت حال کا شکار ہیں ۔ لیکن اس صورت حال کے پیش آنے میں ہماری بھی غفلت اور کوتاہی ہے ہم نے کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں اپنائی ، اپنی صفوں کو متحد نہیں رکھا ۔ ہماری جماعتیں اور تنظیمیں باہم دست و گریباں رہیں ۔ ہم فروعی اور اختلافی مسائل میں الھجے رہے ۔ ہر ایک اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے میں مصروف رہا ۔ہم نے دشمنوں کی پلانگ اور منصوبوں کی طرف دھیان نہیں دیا ہم آپس میں بٹتے رہے اور تقسیم ہوتے رہے ایک جماعت اور جمعیت میں کئی کئی جماعتیں اور جمعتیں اختلاف کرکے بنتی رہیں۔ اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے ۔
*ملت اسلامیہ ہندیہ کو اس نازک اور مشکل دور میں اگر وہ اپنے مستقبل کو محفوظ رکھنا چاہتی ہے تو وہی راستے اختیار کرنے ہوں گے جو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنایا ۔ ان راستوں میں سے ایک راستہ یہ بھی ہے کے بڑے دشمنوں کے لئے ہدایت کی خاص طور پر دعائیں کی جائیں بعثت مبارکہ کے بعد ابتدائی دور میں دو شخص اسلام کے سخت دشمن تھے ۔ جن کا دبدبہ پورے علاقہ میں تھا ۔ ایک ابو جہل عمرو بن ہشام اور دوسرے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق بارگاہ رب العالمین میں یہ دعا فرمائی کہ اے اللہ! ان دونوں میں سے جو آپ کو زیادہ پسند ہو اس کو اسلام کی دولت سے نواز کر دین کی عزت کا سامان فراہم فرما دیں ۔ یہ دعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوشنبہ (سوموار ) کے دن ظہر کی نماز کے بعد کرنی شروع کی تھی ہر روز اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرماتے رہے تاکہ آں کہ تیسرے دن یعنی بدھ کے روز ظہر کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حق میں یہ دعا قبول ہوگئ اور آپ حیرت انگیز طور پر مشرف بہ اسلام ہوگئے ۔ جس کے بعد پورے مکہ میں مسلمانوں کی ایک دھاک قائم ہوگئی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز عمل سے ہم کو یہ سبق ملتا ہے اور اس میں ہمارے لئے یہ اسوہ ہے کہ ہم دین کے کٹر دشمنوں کے حق میں اولا یہ دعاء خیر کرتے رہیں کہ اللہ تعالی جو دلوں کو پھیرنے والا ہے ان کے دلوں کو اسلام کی طرف پھیر دے ۔ اگر ان میں چند بھی راہ راست پر آجائیں تو دین کو بڑی تقویت مل سکتی ہے اور اللہ تعالی کی قدرت سے یہ کوئی مستبعد بھی نہیں وہ چاہے تو منٹوں میں دل پھیر دے اسلامی تاریخ میں سینکڑوں ایسے واقعات موجود ہیں ۔ لیکن ہم اس اسوہ پر بہت کم عمل کرتے ہیں ہم بدعائیں زیادہ دیتے ہیں ۔ دشمنوں کی ہلاکت کی باتیں زیادہ کرتے ہیں ہدایت کے لئے دعائیں کم کرتے ہیں موجودہ حالات میں اس کے لئے ہمیں خصوصی دعاؤں کا اہتمام کرتے رہنا چاہیے۔
صبر و استقامت اور عفو و درگزر: کا ہم اپنے کو عادی بنائیں اعلی اخلاق کا مظاہرہ کریں لین دین میں سچائ اور راست بازی سے ان کو اپنا قائل اور گرویدہ بنائیں ۔ ہمارا عفو و درگزر اور صبر و تحمل بزدلی اور کسی خوف کی وجہ سے نہ ہو بلکہ اس جذبہ سے ہو کہ دعوت کی راہ میں یہ پیارے آقا کا اسوہ اور طریقہ رہا ہے ۔ ۸/ ہجری میں مکہ معظمہ فتح ہوا مکہ والوں نے پیغمبر علیہ السلام اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جو اذیتیں پہنچائی تھیں ان کا بھرپور اور عبرتناک بدلہ لینے کا یہ اچھا موقع تھا۔ اسی لیے بعض پرجوش صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زبان سے یہ جملہ بھی نکل گیا تھا کہ آج تو گوشت کاٹنے کا دن ہے لیکن پیغمبر علیہ السلام نے اس دن انتقام کی حکمت عملی نہیں اپنائی بلکہ رحمت اور عفو و درگزر کی پالیسی اختیار کی اور اعلان فرمایا آج کعبہ کو عزت کا لباس پہنایا جائے گا ۔ پھر اعلانات کئے کہ جو فلاں کے گھر میں آجائے وہ امن میں ہے جو کعبہ کے صحن میں چھپ جائے ان کو امان جو ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے لے اس کو امن وغیرہ وغیرہ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز عمل کا اثر یہ ہوا کہ مکہ کے وہ بڑے بڑے سردار جن کی پوری زندگی اسلام دشمنی میں گزری تھی ان کے دل موم ہوگئے اور انہوں نے اسلام سے مشرف ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ابدی غلامی کو برضا و رغبت قبول کر لیا ۔