Site icon

قانون تحفظ عبادت گاہ:ہر روز نئی ایک الجھن ہے

قانون تحفظ عبادت گاہ:ہر روز نئی ایک الجھن ہے

از: سید سرفراز احمد

تحفظ عبادت گاہوں کا قانون ایک ایسے وقت میں بنایا گیا تھا جب ہندو توا طاقتوں کی جانب سے بابری مسجد کی جگہ کو متنازعہ بنا کر رام مندر کا دعوی کیا گیا تھا جس کے لیئے ایل کے اڈوانی نے پورے ملک میں رتھ یاترا نکال کر ملک کے اکثریتی طبقہ کو ورغلاکر جنونی بنایاتھا اس وقت کی موجودہ حکومت کانگریس کے وزیراعظم پی وی نرسمہاراؤ نے اس مسئلہ کو دور اندیشی سے دیکھتے ہوۓ یہ اندازہ لگالیا تھا کہ ایسے مسائل ملک کے مفاد میں بہتر ثابت نہیں ہوسکتے جس سے ملک میں پھیل رہی بد امنی آنے والے مستقبل کو بھی تباہ کرسکتی ہے تب ہی 1991 میں تحفظ عبادت گاہوں کا قانون لایا گیا جس میں بابری مسجد تنازعہ کو مستشنیٰ رکھ کر یہ فیصلہ لیا گیا کہ آزاد بھارت کے 1947 کے بعد سے تمام عبادت گاہیں خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہو جو ہمیشہ کے لیئےجوں کی توں برقرار رہے گی۔

1992 میں فسطائی طاقتوں نے بابری مسجد کو شہید کردیا ملک بھر میں فسادات رونما ہوۓ جس کے بعد سے ایک طویل عرصہ تک عدالتی کاروائی چلتی رہی بھاجپا کے دور اقتدار کے بعد بابری مسجد تنازعہ میں پیش رفت ہوئی اور 2019 میں سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے حق میں تمام شواہد کو قبول بھی کیامحض اکثریتی طبقہ کے روحانی جذبات کو ملحوظ رکھتے ہوۓ رام مندر کے حق میں فیصلہ سنایا اس وقت مسلمانوں پر سکتہ طاری ہوگیا اور ایک ایسی بجلی گری کہ کوئی سنبھلے بھی نہ سنبھل رہا تھا اعصاب اور عقل نے کام کرنا بند کردیا تھا کیونکہ مسلمانوں کا معاملہ محض روحانی اور جذباتی نہیں تھا بلکہ انصاف پر مبنی تھا جس کو سپریم کورٹ نے شواہد کی بناء پر قبول بھی کیا تھا یہ ایک غم کا طویل پہاڑ ہے جو نہ اس دور کے بلکہ آنے والی نسلوں کے غم کو بھی کبھی مندمل نہیں کرسکتا۔

بہر کیف مسلمانوں کو یہ گمان تھا کہ فسطائی طاقتیں اب اسی طرح کا مسجدوں کے متعلق حساس مسئلہ کھڑا نہیں کریں گی وہ اس لیئے کہ تحفظ عبادت گاہوں کا قانون جو دفاعی قوت کی شکل میں موجود تھا لیکن فسطائی طاقتوں کو رام مندر کے حق میں فیصلے نے ایک طرح سے تقویت پہنچانے کا کام کیا تھا پھر وقت کے چلتے مسجدوں کے نیچے مندروں کو تلاش کرنے کی قصداً مہم چھیڑی گئی متھرا کی شاہی مسجد ، وارانسی کی گیان واپی جامع مسجد،کو نشانے پر لیا گیا معاملہ نچلی عدالتوں سے سپریم کورٹ جا پہنچا موجودہ وقت کے چیف جسٹس آف انڈیا چندر چوڑ نے تحفظ عبادت گاہوں کے قانون ہونے کے باوجود یہ کہہ کر گیان واپی جامع مسجد کے سروے کی اجازت دے دی کہ اس قانون کو اس سروے سے کچھ نقصان نہیں پہنچے گا ملک نے دیکھا کہ گیان واپی جامع مسجد کا سروے کیا گیا ویڈیو گرافی بھی کی گئی اور مسجد کے فوارے کو شیولنگ بناکر تنازعہ کھڑا کردیا گیا حتی کہ تہہ خانے میں پوجا کی بھی اجازت دی گئی یہ ایک طرح سے تحفظ عبادت گاہوں کے قانون کی صریحاً کھلی خلاف ورزی تھی۔

چندر چوڑ کے اس ایک فیصلے نے نچلی عدالتوں کو مزید تقویت پہنچانے کا کام کیا سنبھل کی شاہی جامع مسجد کا معاملہ ہم نے دیکھا کہ کس طرح تین گھنٹوں کے اندر عدالت نے سماعت بھی کردی اور سروے کا حکم بھی دے دیا نہ مسلم فریق کو سنا گیا اور نہ ہی سماعت کے لیئے وقت لیا گیا جس کے عوض تشدد برپا ہوا اور پولیس کی جانب داری واندھا دھند فائرنگ میں پانچ مسلم نوجوان شہید ہوجاتے ہیں پھر بھی مسجدوں اور درگاہوں کے نیچے مندروں کے ہونے کے دعوے پیش کیئے جاتے ہیں جس کا سلسلہ ہنوز جاری تھا مصیبت یہاں تک آپہنچی کہ سپریم کورٹ کو قانون پر ہی سماعت کرنے کی نوبت آگئی سپریم کورٹ چاہتی تو تحفظ عبادت گاہوں کے قانون کا حوالہ دے کر سخت موقف اختیار کرسکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا بالآخر سپریم کورٹ کی سہ رکنی بنچ جس کی قیادت چیف جسٹس آف سنجیو کھنہ نے کی 12 ڈسمبر کو آئینی بنچ نے کہا کہ جب تک معاملے پر مزید سماعت مکمل نہ ہو کوئی نیا مقدمہ مسجد یا مندر کے متعلق درج نہیں کیا جائے گا یہاں یہ واضح ہونا ضروری ہے اور عدلیہ کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ مسلم فرقے کی جانب سے یا کسی اور فرقے کی جانب سے کسی بھی مندر پر کوئی دوسری عبادت گاہ ہونے کا دعوی پیش نہیں کیا گیا جب کہ کئی مندروں پر بدھ مت طبقہ کی عبادت گاہیں ہونے کے چرچے عام ہیں جس کی بھی اپنی ایک تاریخ رہی ہے سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ عدالتوں کے پاس اگر کوئی درخواست آتی بھی ہے تو اس پر کارروائی نہیں ہوگی نہ عدالت کوئی فیصلہ سنا سکتی ہے اور نہ سروے کا حکم دے سکتی ہے ساتھ ہی مرکزی حکومت کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اس معاملے پر چار ہفتوں میں اپنا موقف پیش کرتے ہوئے حلف نامہ جمع کروائے مزید عدالت نے اس قانون کی اہمیت اور آئینی حیثیت پر گفتگو جاری رکھی اور تمام متعلقہ فریقین سےاپنے اپنے دلائل پیش کرنے کو کہا۔

عدالت اعظمی نے کسی بھی عبادت گاہ کے معاملہ پر سماعت کرنے اور سروے کروانے کی پابندی تو عائد کردی لیکن سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ عدالت اس تحفظ عبادت گاہوں کے قانون پر کیا فیصلہ کرے گی؟یہ تو آنے والا وقت ہی طئے کرے گا اور دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا مرکزی حکومت اپنا موقف عدلیہ کو پیش کرے گی؟چونکہ عدلیہ نے ماضی میں کئی ایک اسی طرح متنازعہ معاملوں میں مرکزی حکومت کا موقف مانگا لیکن حکومت نے کوئی موقف پیش نہیں کیا آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا یقیناً سپریم کورٹ نے عبادت گاہوں کے ایکٹ کےمتعلق جو ہدایات جاری کی ہیں وہ ایک اچھا موقف ہے لیکن یہ صرف وقتی راحت ہے اس وقت تک جب تک عدلیہ اس ایکٹ کو دستوری حیثیت سے مضبوط ڈھال نہ بنادے سپریم کورٹ کے پاس ایک اچھا موقع ہے کہ وہ اس قانون کی آئینی حیثیت کو مزید مستحکم بناکر ملک میں پھیل رہےفرقہ وارانہ تشدد کی روک تھام کرے تاکہ مزید اس طرح کے فتنے آئندہ عروج نہ پکڑے۔

یہاں یہ اس بات کا تذکرہ کرنا بھی موزوں ہے کہ اس وقت ملک میں انارکی پھیلی ہوئی ہے کیونکہ مسئلہ صرف مسجدوں کے نیچے مندروں کو تلاش کرنے تک محدود نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے تعلیمی سماجی و اقتصادی ڈھانچوں کو بھی نقصان پہنچایا جارہا ہے ممکن ہے ایسے کئی ایک معاملات کو متنازعہ بناکر آئینی حیثیت کی صف میں کھڑا کرتے ہوۓ عدلیہ تک پہنچایا جارہا ہے پھر ملک کا اقلیتی طبقہ الجھن کا شکار بنا رہتا ہے کیونکہ ایسےمعاملات اور تنازعے صرف مسلمانوں کے ہی ساتھ ہورے ہیں اصل سوال تو یہی ہے اور یہی دیکھا جاۓ کہ قانون کی صریح خلاف ورزی کس نے کی؟ پانی کہاں مر رہا ہے بات اس پر کی جاۓ گی تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاۓ گا لیکن پھر سوال یہ بھی کھڑا ہوتا ہے کہ اس پر بات کون کرے گا؟جب کسی ملک کا پورا نظام(سسٹم)ایک مخصوص لابی کے طور پر کام کرنے لگتا ہے تو اس ملک کے تمام سرکاری ادارے عوام کا اعتماد کھوتے رہیں گے جس کے سامنے آئینی اور جمہوری نظام کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی سپریم کورٹ ہی اس ملک کی آئینی اور جمہوری طاقت کے وجود کو مزید مستحکم اور انصاف پسند عوام کے اعتماد کو بھی بحال کرسکتی ہے اگر چہ کہ وہ کرنا چاہے۔

اس ملک میں پچھلے دس سالوں سے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے جس کے اثرات نہ صرف ایک مخصوص طبقہ تک محدود ہے بلکہ پورے سماج پر اس کے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جس سے سماجی ہم آہنگی مخدوش ہورہی ہے جمہوریت کی بقاء اور قانون کی حکمرانی پر سوال کھڑے ہورہے ہیں جب نا انصافی اور ظلم کی ایک مخصوص دیوار اٹھائی جارہی ہو تو ملک کی عوام کو اس خوش فہمی مبتلاء نہیں ہونا چاہیۓ کہ مسئلہ صرف اقلیتوں تک محدود ہے کیونکہ ایسے مسائل بڑھتے بڑھتے پوری قوم کے لیۓ وبال بن جاتے ہیں اس کے لیئے ضروری ہے کہ اگر آپ اس ملک کے وفاقی ڈھانچے کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں تو تمام انصاف پسند شہری خواہ وہ کسی بھی مذہب سے ہوں وہ ہر چھوٹے سے چھوٹے ظلم کے خلاف متحد ہوکر اپنی آواز کو بلند کریں اور ان عناصر کو متحدہ طور پر روکنے کی کوشش کریں جو اس ملک کے تانے بانے کو غارت کرنے پر تلے ہوۓ ہیں آج تحفظ عبادت گاہوں کا قانون سامنے ہے آئندہ اس کی جگہ کوئی اور لے لے گا جب تک اس پر مضبوط گرفت نہ ہوگی یہ ایسے ہی سلسلہ وار چلتا رہے گا جس کو ہم ہر روز ایک نئی الجھن کے مترادف ہی کہہ سکتے ہیں جس کا یہ سلسلہ کب تھمے گااس کا کوئی پیمانہ نہیں ۔

Exit mobile version