کلکی اوتار کا، جامع مسجد سنبھل سے رشتہ
از: مولانا عبدالحمید نعمانی
_____________________
تاریخ اور عوامی اور پرانک کہانیوں، بیانوں میں گھال میل پیدا کر کے ملک میں ایک عجیب و غریب قسم کا ایسا منظر نامہ تیار کر دیا گیا، جس نے ملک کے باشندوں، خصوصا ہندو مسلم کے درمیان نفرت و تنازعات کی راہ ہموار کر دی ہے، تاریخ، ماضی سے روشنی و رہ نمائی لینے کے لیے ہے نہ کہ اسے زہر بنا کر پورے سماج کو زہر آلود کرنے کے لیے، اس سلسلے میں مولانا سید سلیمان ندوی رح نے آل انڈیا ہسٹاریکل کانگریس کے اجلاس( منعقدہ دسمبر 1944،بہ مقام مدراس )کی صدارت کرتے ہوئے تاریخ نویسی کے ایسے بنیادی اصول و نکات کی طرف توجہ مبذول کرائی تھی جن سے معاملے کے کئی پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں، انھوں نے بہت واضح الفاظ میں نشاندہی کی ہے کہ غلط اور گمراہ کن تاریخ نویسی اور تاریخ کے نام پر نفرت انگیز غلط بیانیوں کے کیا کچھ مضمرات و اثرات مرتب ہوتے ہیں، مولانا ندوی رح نے مذکورہ اجلاس میں مورخین کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا تھا
"تاریخ کے فن کو قوموں کے پھوٹ اور میل میں بہت کچھ دخل ہے، اس لیے وہ لوگ جن کی نظر میں اس ملک کا مستقبل ہے اور جن کے ہاتھوں، اس مستقبل کا بنانا اور بگاڑنا ہے، ان کو اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چاہیے اور اس حالت میں جب کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ ہم سب کو اب اسی ملک میں جینا اور مرنا ہے تو عداوت اور نفرت کی پچھلی باتوں کو اس طرح دہراتے رہنا جس سے یہ جذبہ اسی طرح پلتا بڑھتا اور پھلتا پھولتا رہے ،اپنے ملک کے ساتھ بڑی بے وفائی ہے،”
(مقالات سلیمان جلد اول صفحہ 283،مطبوعہ معارف اعظم گڑھ )
لیکن ہندوتو وادی عناصر کے نزدیک ملک کے حال، مستقبل ، وفاداری اور اس کے وقار و عظمت کی کوئی زیادہ قدر و اہمیت نہیں رہ گئی ہے، یہ اور ان کے پروج تحریک آزادی سے دور تھے، اس لیے ملک سے وفاداری کا کوئی زیادہ معنی و مطلب بھی نہیں ہے، وہ بابری مسجد کے سلسلے میں مندر توڑ کر مسجد کی تعمیر کرنے کے دعوے میں جھوٹا ثابت ہو چکے ہیں لیکن مسجد کی جگہ رام مندر ہونے کی باتیں بڑی بے شرمی سے اب بھی کرتے رہتے ہیں، حتی کہ وزیر اعظم مودی، وزیر داخلہ امت ساہ وغیرہ، رام مندر، بابری مسجد کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بر خلاف غلط بیانی کر کے ملک کے باشندوں کو گمراہ کرنے کا کام کرتے رہتے ہیں ،سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں بالکل واضح طور سے کہا ہے کہ مسجد توڑ کر مسجد کی تعمیر کا کوئی ثبوت نہیں ہے یہ افسوس ناک ہے کہ آچاریہ پرمود کرشنم جیسے لوگ بھی ہندوتو وادیوں اور فرقہ پرستوں میں شامل ہو کر گمراہ کن اور شرمناک غلط بیانیوں سے سماج کو بھٹکانے میں لگے ہوئے ہیں، وہ جس طرح سے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام سے تعلق کا اظہار کرتے ہیں اس کے پیش نظر فرقہ پرستوں کے مشرکانہ نظام کے ساتھ کھڑے ہونے کی بات قطعی نا قابل فہم ہے، ان کی طرف سے جامع مسجد سنبھل کی جگہ ہری ہر مندر اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کو کلکی اوتار قرار دینے کی کوشش سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ وہ ادنی دنیاوی مفادات کو ایک اعلی ترین سچائی پر ترجیح دے رہے ہیں، اس کے لیے وہ جہاں تاریخ کے نام پر غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں وہیں وہ پرانوں کے مندرجات کی غلط تعبیرات و تشریحات بھی کرتے نظر آتے ہیں، آچاریہ جی نے ایک چینل سے گفتگو کرتے ہوئے ،سپریم کورٹ کے فیصلے اور تمام تر تاریخی حقائق کے خلاف یہ بات کہی کہ بابر، اورنگزیب نے ایک ذہنیت کے تحت اجودھیا، متھرا اور سنبھل کے مندروں کو توڑ کر ان کی جگہ مسجدوں کی تعمیر اس لیے کی تھی کہ اجودھیا ،رام کی جنم بھومی، متھرا، کرشن کی جنم بھومی اور سنبھل، کلکی اوتار کے ظہور کی جگہ ہے، ایسا کہنے کے ضمن میں بابر، اورنگزیب وغیرہ کا نام لیتے ہوئے اپنے دعوے کے ثبوت میں، حوالے کے طور پر برنی کی کتاب(تاریخ فیروز شاہی )بابر کے بابر نامہ، ابوالفضل کی آئین اکبری کا نام بڑے اعتماد سے، خاص انداز میں لیا ہے، جب کہ حقیقت میں مذکورہ تینوں کتابوں کے اصل متن میں کہیں بھی مندر توڑ کر مسجد کی تعمیر کا کوئی ذکر نہیں ہے، ویسے بھی اجودھیا، متھرا، سنبھل کے مندروں کو توڑ کر مسجدوں کی تعمیر کے سلسلے میں ضیاء الدین برنی اور اس کی کتاب کا نام لینا انتہائی نامعقول اوربے تکی بات ہے، برنی اور اس کی کتاب تاریخ فیروز شاہی دونوں بابر، اورنگزیب کے عہد سے بہت پہلے،تیرھویں، چودھویں صدی کے ہیں، برنی کی ولادت 1285 کی ہے ،اس نے تاریخ فیروز شاہی 74 سال کی عمر میں 1357 میں لکھی تھی، کتاب میں سلطان بلبن سے لے کر فیروز شاہ تغلق کے عہد سلطنت کے چھٹے سال کی تاریخ کو قلمبند کیا گیا ہے، جب کہ بابر، پندرہویں، سولہویں صدی اور اورنگزیب سترھویں، اٹھارویں صدی کے ہیں، برنی کی کتاب میں اجودھیا، متھرا، سنبھل کے مبینہ مندروں کو توڑ کر مسجدوں کی تعمیر کی باتیں کیسے درج ہو سکتی ہیں؟ اس سے زیادہ نامعقول بات کیا ہو سکتی ،ایسا لگتا ہے کہ دیگر بہت سے ہندوتو وادیوں کی طرح آچاریہ پرمود کرشنم نے بھی مذکورہ کتابیں دیکھی نہیں ہیں، اس سلسلے کی شرمناک اور غیر ذمہ دارانہ بات یہ ہے کہ سوالات اور انٹر ویو لینے والے بھی تاریخی کتابوں کے مندرجات سے عموما نا بلد ہوتے ہیں اس لیے وہ ناظرین و قارئین کو حقائق سے واقف کرانے والے سوالات نہیں کرتے ہیں یا نہیں کر پاتے ہیں اسی طرح ابوالفضل اور اس کی کتاب آئین اکبری سے بھی اورنگزیب اور اس کے کام کا کوئی تعلق قائم نہیں ہو سکتا ہے، لے دے کر بات رہ جاتی ہے بابر،بابر نامہ اور آئین اکبری کی تو ابوالفضل کی معروف آئین اکبری میں بابر کا باقاعدہ ذکر نہیں ہے، بابر کا ذکر اکبر نامہ میں ہے، اسی کا آئین اکبری گویا کہ تیسرا حصہ ہے، لیکن ابوالفضل نے بابر کے متعلق بالکل ایسا نہیں لکھا ہے کہ اس نے اجودھیا، سنبھل کے رام مندر اور ہری ہر مندر توڑ کر اس کی جگہ مسجد بنادی ہے، مساجد کی ساخت، مندروں سے بالکل الگ ہوتی ہے، مندر میں اجتماعی عبادت کا تصور نہیں ہے، اس میں تنگی ہوتی ہے جب کہ مسجد کا معاملہ بالکل برعکس ہے، مندر کی عمارت پر مسجد کی عمارت تعمیر نہیں ہو سکتی ہے، اس کے بیل بوٹوں اور نقش و نگار وغیرہ سے مندر ہونے کی بات، انتہائی نامعقول اور ہند، اسلامی، پٹھان، ترک، مغل طرز و فن تعمیر سے ناواقفیت پر مبنی ہے، یہ بات اور بھی مضحکہ خیز اور بے تکی ہے کہ بابر،اس کے سپہ سالار میر ہندو بیگ اور مسلم فوجیوں نے ہری ہر مندر کو کلکی اوتار کے ظہور کی جگہ سمجھ کر توڑ دیا تھا، بابر کے عہد کے ہندوؤں، مسلمانوں کے متعلق کسی تاریخی کتاب یا پران میں ذکر نہیں ہے کہ وہ بھارت کے یوپی کے سنبھل کر وشنو کے آخری کلکی اوتار کے ظہور کی جگہ سمجھتے تھے اور وہ بھی خاص جگہ، جامع مسجد سنبھل کو، اٹھارہ پرانوں میں سے شریمد بھگوت مہاپران، بھوشیہ پران اور ان کے زمرے سے باہر، کلکی پران کے مندرجات سے بالکل ایسا نہیں لگتا ہے کہ بھارت کے اتر پردیش کے سنبھل میں کلکی اوتار، اوتار لے گا یا سنبھل کی مخصوص جگہ اس کے ظہور کا مقام ہے، ویدوں میں مذکور نراشنس اور پرانوں میں مذکور کلکی اوتار اور اس کی جائے پیدائش، اونٹوں والے خطے اور شمبل گرام کے معانی بگاڑنے کی خاصی کوششیں کی گئی ہیں لیکن باقی محفوظ تفصیلات اور تمام تر علامات و خصوصیات کے پیش نظر، یہ ایک طرح سے طے ہے کہ نراشنس اور کلکی اوتار، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اونٹوں والے خطے اور شمبھل گرام، مکہ مکرمہ ہے ، حال ہی میں آر ایس ایس آئیڈیا لوجی سے وابستہ اشاعتی ادارہ، پر بھات پرکاشن دہلی نے، پرانوں اور عوامی کہانیوں کے ماہر، دیو دت پٹنائک کی کتاب، "سبھیتا اور سنسکرتی کی روچک کہانیاں ” شائع کی ہے، پٹنائک نے( کتاب کا صفحہ 31) واضح الفاظ میں کلکی اوتار کو بھارت کی باہر کی شخصیت قرار دیا ہے، راقم سطور نے بھی ہندو ازم ،تعارف و مطالعہ، (شائع کردہ دارالعلوم دیوبند ) میں پرانوں کے تعارف اور اوتاروں کے تذکرے کے تحت حوالے سے ثابت کیا ہے کہ نراشنس اور کلکی اوتار ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور شمبھل گرام مکہ مکرمہ، ڈاکٹر وید پرکاش اپادھیاے نے تو اپنی کتاب، کلکی اوتار اور حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) میں تحقیق و ثبوت کو آخری درجے تک پہنچاتے ہوئے لکھا ہے کہ نراشنس اور کلکی اوتار، مکہ مکرمہ میں ماہ ربیع الاول کو ساڑھے چودہ سو سال پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روپ میں آ چکے ہیں، اب کسی اور کلکی اوتار کے آنے کا انتظار قطعی بے معنی ہے، اس تناظر میں آچاریہ پرمود کرشنم کے ذریعے سنبھل شہر سے 19/20 کلومیٹر دور کلکی دھام بنا لینے اور وہاں فاروق عبداللہ، غلام نبی آزاد اور وفاداری بدلنے کے بعد وزیر اعظم مودی کی آمد سے حقیقت اور خالق قدیر کے روحانی نظام کا رخ اور سمت نہیں بدل سکتی ہے، جامع مسجد سنبھل سے آخری پیغام بر، کلکی اوتار کا رشتہ قائم کر کے خود کو قابل توجہ بنانے کی کوششوں میں کوئی زیادہ دم نہیں ہے، ہر مسجد خدا کا گھر ہے وہاں کچھ اور تلاش کرنا ،دل و نیت میں فساد کی علامت ہے، کلکی اوتار کا بھارت سے باہر ہونا عالمی رشتے کا واحد ذریعہ و واسطہ ہے، ایسی حالت میں اور بھی کہ پرمود کرشنم کا دعوٰی ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جتنے مسلمانوں کے ہیں اتنے ہمارے بھی ہیں، اس رشتے کا انکار، سراسر بے دانشی ہو گی،